مار شل لاء کا طویل و مہیب دور گزر گیا ۔ایک نیمگوں اور نامکمل جمہوری دور کا آغاز ہوچلا ہے ۔مگر شومیِ قسمت کہ اسے ہی نہ چلنے دینے کی زبردست کوششیں ہوتی رہی ہیں اور اب بھی جاری ہیں۔
بحیثیت ادیب ہمیں فلاں یا فلاں پارٹی کے بر سر اقتدار آنے سے سروکار شاید نہ ہو مگر یہ سچ ہے کہ فسطائیت اور آمریت میں ادب کا پروان چڑھنا نا ممکن ہے ۔ آزادی کی خنک ہوا کوسب سے پہلے دانشور اور ادیب محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح مارشل لا کا سب سے پہلا اور بڑا حملہ عوام کے ان ہی لوگوں (دانشوروں اور ادیبوں) پرہوتا ہے ۔اس لیے ہم اس بات کو بحث کے لائق سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ادب اورجمہوریت ایک دوسرے کے لاینفک ساتھی ہیں، بحث طلب بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستان کے دانشور اس قدر بد نصیب کیوں ہیں کہ 20ویں صدی کے آخر ی حصے میں بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ ایک نیم فوجی ،نیم سامراجی اور نیم جاگیرداری جمہوریت کے دفاع اور بچاؤ کرنے پر مجبورہیں ۔نئے خیالات کی ترویج ، سائنس وٹیکنا لوجی کی عظیم ترین ترقی کے کلچر کا ساتھ دینے اور انتہائی خوشگوار مستقبل کی نوید سنا نے کے بجائے ہم اب بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ نسیم مجازی اور ریڈ اے سلہری جیسے جنگی جنونی لکھاریوں اور ان کے ما قبل تاریخ کے آقاؤں کی گالیوں اور ناروا باتوں کا جواب دینے میں اپنی صلاحیتوں ، توانائیوں اور وسائل کا ضیاع کریں ۔ہم کس قدر مقہور ہیں کہ ہم آج بھی اپنی سرزمین سے دوسرے ممالک اور عوام کے خلاف کیے جانے والے جنگی ، سیاسی ، سماجی ومعاشی جرائم کی حمایت کرنے والے نام نہاد دانشوروں کے پھیلائے ہوئے زہر کی صفائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہمیں آج بھی منڈی کے اخباروں میں ’’سیاہ کاریاں ‘‘کرنے والوں کا جواب دینا پڑ رہا ہے جو بے نظیر حکومت کی مخالفت اس کی رجعتی ، عوام دشمن اور’’ تسلسل بحال رکھنے ‘‘کی فضول پالیسیوں کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ایک عورت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حیف ہے اس سوچ پر جو آج بھی نسل ‘جنس‘ مذہب ، رنگ اور زبان کے امتیاز ات رکھے ۔ مگر سلہری صاحب کی ’’نامحرم‘‘ اور ’’بے پردہ ‘‘ والے فلسفے کو خود عوام ہر روز اُس وقت پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں جب وہ لاکھوں کی تعداد میں ایک عورت کی زیرِ قیاد ت جلوس میں اسے زندہ باد کہتے ہوئے گلیوں اور سڑکیوں سے گزرتے ہیں۔ سیاست میں تمام تر حکومتی فرسودہ پالیسیوں کے باوجود بحیثیت عورت ہماری وزیراعظم نہ تو عقل کی بجائے پاؤں کی ریڑی سے سوچتی ہیں، نہ ہی وہ ستی بنی بیٹھی ہیں ،نہ ہی انہوں نے وزریراعظمی میں بچے جننے کا صحت مند اور انسانی فریضہ چھوڑ دیا ہے اور نہ ہی وہ ’’کمزور عورت‘‘ثابت ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔دیکھیے سلہری صاحب کہ اس نے بھی آپ کی خواہشات اور آپ کے ہم نوا دوستوں کے فتووں کے برعکس عورت کی حکمرانی والے ملک پاکستان پر اس لیے کوئی سیلاب ،زلزلہ قحط یا اسی قسم کی دوسری کوئی آسمانی آفت نازل نہیں کی۔ یہ سب باتیں ہم روز دیکھ رہے ہیں ،پھر بھی ان کا ذکر کرنا ضروری ہوجاتا ہے اس لیے کہ کل مارشل لائی بھیڑ یے آزاد تھے ۔آج سرمایہ وزر کے سگ آزاد ہیں۔ ذرا سی جمہوریت کیا آئی لوگوں کے سیاہ ترین ، ’’اندر ‘‘’’باہر ‘‘آگئے ہیں ۔ زبان ونسل کی بنیادوں پر زندہ انسانوں کی کھوپڑیوں میں ڈرل مشینوں کے ذریعے سوراخ نکالے جارہے ہیں۔ جن کا سارے فسانے میں کوئی ذکر نہ تھا وہی آج وفاق اور صوبوں کے نام پر رجعت و قدامت کو دوام بخشے کی تگ دو میں ہیں۔ کل ہی مارشل لارخصت ہوا تو آج بزورِ زرو اختیار اپنے’’ خیالات ونظریات کا مارشل لاء‘‘ لگانے کی تگ و دو شروع ہوگئی۔
اور یہی وہ گھڑی ہے جب عوامی ادیب کو ایک بار پھر نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھنا پڑرہا ہے بلکہ کھڑا ہو کر اس کے لیے لڑنا بھی آج کا تقاضا بن گیا ہے ۔ کل عوام کو پیٹا جاتا تھا آج عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔کل گولی اور ڈنڈا تھا آج قلم اور لاڈؤ سپیکر ہے ۔ جو لوگ جہالت اور توہمات میں عوام کے ہمنوا ہوتے ہیں وہ (خواہ سیاست دان ہوں ،یا ادیب و دانشور ) بڑی آسانی سے مقبول بن جاتے ہیں ۔ ہیروئن اور سمگلنگ کا سارا د ھن ان کی خدمت میں لگ جاتا ہے ۔ جاگیرداریت ، سرداریت اور فسطائیت کے علمبرداروں کے دروازے ایسے لوگوں کے لیے مکمل وا ہو جاتے ہیں، اور ایسے لوگ پل بھر میں ذلت کے کھڈ سے اچانک شہرت ومقبولیت کے معراج تک پہنچا دیئے جاتے ہیں ۔ یا تو وہ جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور یا وہ خود بھی ان کی جہالت میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ، پسماندہ پیداواری رشتوں اور قدیم و فرسودہ ماضی کی کئی بد تہذیب روایات عوام کے ذہنوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس لیے ان دھنوں کو ذرا سا چھیڑنے پر عوام بڑی آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔’’ بلوچستان کے غیور عوام ‘‘کہہ کر ‘یا احمد شاہ وغزنوی کی اولاد کہہ کر ہر جلال آباد کو فتح کرنے کی مذموم کوششیں ہوتی ہیں۔ ماضی کی داستانوں کو دہرایا جاتا ہے ۔ اسلاف کی ’’شمشیر ‘‘کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے ۔ آج کا رونا رویا جاتا ہے ۔ ہم عصر فرسودگانِ جہان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جنگ و نوائے وقت میں دو دو صفحے کے مضامین لکھوائے جاتے ہیں ۔ تشدد اور جنسی افلاس پر مبنی کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ الغرض ہر ہر حیلے اور وسیلے سے محنتی انسان کو مات دلانے کی سعی سرمایہ دار کرتا ہے۔
تو پھر ہم کیا کریں گے ؟۔ ہم ادیب کیا لکھیں گے؟ ۔ ہم کس کا ساتھ دیں گے؟ ۔ ہماری شناخت عوام کے کس حصے کے ساتھ ہوگی؟۔ یہ وہ سوال ہیں جو آج ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آج کے نیم جمہوری دور میں ہم پھر مجبور ہوگئے ہیں کہ مستقبل کی تابناک فتح کے لیے اندھیرے ماضی کے خلاف بغاوت کریں۔۔۔ سب سے پہلے کریں اور سب سے بڑھ کر کریں۔ہمیں معلوم ہے کہ ہیروئن کے خلاف بات کرنا آسان نہیں۔ بندوق برداری کی مخالفت کر کے ہم گلے میں بار نہیں پہن سکتے ۔ فرقہ واریت کو برا لکھ اور کہہ کر ہم مقبول عام نہیں بن سکتے۔ جنس رنگ اور زبان کے امتیازات کو دفن کرنے کا پرچار کرکے ہم ہر دلعزیز نہیں بن سکتے ۔ اسلاف کی کہانیوں کے ہمارے ظالمانہ نظام کو جوں کا توں رکھنے کی کوششوں کو بے نقاب کر کے ہم آنکھوں کا تارا نہیں کہلا سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ عوام کے ذہنوں میں صدیوں سے داخل کردہ دقیانوسی اور ماضی پرستی کی روایات کو کھرچ کر نکالنے کی سعی میں ہماری واہ واہ ہو۔مگر ہمیں عصر کا ساتھ دینا ہے اور آج عصرہے کمپیوٹر کا ‘خلائی سائنس کا‘ بڑھتی اور ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا ۔اور ہم ادیب اپنے عوام کے مابین اسی ’’عصر‘‘ کے ایجنٹ ہیں ۔ہم نہ صرف بجلی سڑک کمپیوٹر چاہتے ہیں ،ان سے متعلق علم اور معلومات کے خواہشمند ہیں بلکہ ان کا رواج دیا ہوا کلچر اور ماحول بھی چاہتے ہیں۔ ترقی یافتہ مادی حقیقتوں پر مبنی سیاست اور پھر ان پر قائم چھت یعنی نظریات کے علمبردار ہم ہی ہیں۔ اس میں کسی قسم کا فرار عوامی آدرش سے فرار ہے ۔ عوام کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ سے فرار ہے ۔
’’نوکیں دور ‘‘ہر اُس فقرے کو بصدقِ دل اپنے صفحوں کا نہ زینت بنائے گا جو حسین ترین اکیسویں صدی کے انسان کے فقرے ہوں گے۔ اور ہر وہ مضمون ہمارے لیے بیکار ہوگا جس میں ماضی کی بحالی کی آرزو ہو۔ ہم اِس پرچے میں لکھنے والے اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ترقی کے نقیب کبھی بھی پلک جھپکتے میں مقبول و ہر دلعزیز نہیں ہوتے ۔ ایک طویل اور مستقل فریضہ ہے جسے انجام دینا ہے ۔ ہر دور کے سلہری ،ہر عہد کے عبدالقادر حسن اور ہر علاقے کے نسیم مجازی کے خیالات کی نفی کرتے رہنا اور عوامی ترقی وخوشحالی پر مبنی نظریات پر ادب تخلیق کرتے رہنا ہمارا کام بھی ہے ، فریضہ بھی،اور مقدر بھی۔ ہم نہ تو سر سر کو صبا قرار دے سکتے ہیں،نہ ظلمت کو روشنی کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی بندے کو خدا لکھ سکتے ہیں۔
(نوکیں دور1990)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے