گاؤں کے جوہڑ سے اکیلی
پانی بھرنے جاتی ہوں

آتے جاتے نادیدہ آنکھوں سے
ڈرتی جاتی ہوں

اپنے لرزتے اور الجھتے لہجے سے
اماں اباکو باہر کے وحشت کے سب قصے سناتی ہوں

شک کی بنا پر
تھپڑ گھونسے کھاتی ہوں

بھائی کے غصے سے اس کے سرخی مائل
آنکھوں سے ڈرجاتی ہوں

مشکیزہ رکھ کر پھر جلدی
جنگل سے لکڑی لینے چلی جاتی ہوں

بیگانی ہوجاتی ہوں
جانے کیا ہوجاتاہے

رستوں میں رہ جاتی ہوں
جیسے ایک بہت پرانی جینے کی
اک رسم نبھائے جاتی ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے