میں رات کی طرح تاریک اور گھمبیر ہوں
میں نے ہزاروں سال رات کی تاریکی کو
گھونٹ گھونٹ پیا ہے
اب اندر باہر ایک سی ہوں
چاہوں تو تاریکی کے سمندر
لمحوں میں اپنے اندر اتار لوں
یا باہر انڈیل دوں
میں تاریکی سے مزید تاریکی کو جنم دینے والی تھی
کہ اچانک آسمان پر سکرپٹ بدل گیا
حق نے گہری سانس بھری
اور ایک پھونک نے نور کو جنم دے دیا
میں نے اپنی آنکھ کی کالک بھری پتلی سے اس کی پاکی ناپ لی
وہ صبح سا سفید شفاف نرم ملائم اور سندر ہے
اس کی اجلاہٹ سے دل کی کال کوٹھڑی پر برف پڑنے لگی ہے
سیاہی پھیکی پڑنے لگی ہے
پو پھٹنے لگی ہے
اس کی دودھیا پوریں تن کی کالی مٹی پر آیتیں لکھنے لگی ہیں
جسم کے گنبد میں اذانیں گونجنے لگی ہیں
پرندے میرے اندر پر پھڑپھڑانے لگے ہیں
مصری کا ذائقہ میری زبان نے چکھ لیا ہے
میری شب گزیدہ نظریں سورج کی تیز شعاعیں تو جھیل نہیں سکیں گی
لیکن اب دل کو اطمینان سا ہے
میں اپنی آخری سانسیں صبح کی اجلی کرنوں میں لوں گی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے