ہم خواہ نیم قبائلی ہیں، یا نیم فیوڈل سماج میں ہیں مگر ہم کپٹلزم کے گندے پانیوں میں بھی گردن گردن ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواہ کوئی بھی لفاظی کی جائے ، خواہ جتنے بھی بہروپ بدلے جائیں، خواہ جتنا بھی ابہام پیدا کیا جائے مگر سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان کپٹلزم میں بری طرح جکڑا ہوا ہے ۔
کپٹلزم ا نڈسٹری سے وابستہ سماج ہے ۔جہاں ذرائع پیداوار اور سروس ڈیلیوری اب نجی ملکیت میں ہیں ۔ اس نجی ملکیت میں جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں معاوضہ اُتنا نہیں ملتا جتنا کہ وہ پیداوار کرتے ہیں ۔یہ زائد پیدوار مالک کی جیب میں جاتا ہے جسے معاشیات کی زبان میں منافع یا ’’سرپلس ویلیو‘‘ (قدرِزائد) کہتے ہیں۔
دنیا کی ساری خرابیوں کی ماں یہی سرپلس ویلیو،یہی منافع ہے ۔
منافع ایک ایسی پیاس ہے کہ مٹکوں کے مٹکے پیتے جاؤ ہونٹ تب بھی اونٹ کے پیروں کی طرح خشک رہتے ہیں۔ اور ’’مزید پانی ‘‘، ’’مزید پانی‘‘ کے لیے ہلکان رہا جاتا ہے ۔ایسی نہ بجھنے والی پیاس کو بلوچی میں ’’آف ڈھاگ ‘‘کہتے ہیں۔ تو پیسہ کی نہ بجھنے والی پیاس کو ’’زر ڈھاگ ‘‘ کہا جائے! ۔ ۔۔ ’’منافع ڈھاگ ‘‘!۔۔۔۔۔آج کی دنیا’’منافع ڈھاگ‘‘ کی دنیا ہے۔ آج کا بلوچستانی معاشرہ ’’منافع ڈھاگ ‘‘ کا معاشرہ ہے ۔
ذرا سوچیے کہ جب یہ منافع خوری بلاروک ٹوک جاری رہے تو کیا ہوگا۔ ہوگا یہ کہ نفع خور افراد ہی امیر ہوتے جائیں گے اور بقیہ عوام الناس غریب ہوتے جائیں گے ۔ زیادہ پیسے رکھنے والے کم پیسوں والوں کی کمپنیوں کو خریدیں گے، اور یوں چلتے چلتے اُس کا روبار میں چند کی اجارہ داری بن جائے گی ۔
اِس اجارہ داری کو انگریزی میں ’’مناپلی ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی آج ہم مناپلی والے کپٹلزم میں زندہ ہیں۔جہاں مثلاًزراعت پر چند کارپوریشنوں کی اجارہ داری (مناپلی) ہے ، اسی طرح دوائیوں ، الیکڑانکس، موبائل فونوں پر چندکمپنیاں (کارپوریشنیں ) اپنا اجارہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
اور وہ بھی آئے دن باہم ضم ہوہو کریا ایک دوسرے کے ہاتھوں بک بک کر تعداد میں کم ،مگر طاقت میں بڑھتی جارہی ہیں۔کبھی دیکھو دوائیاں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں باہم ضم ہورہی ہیں ،اور کبھی موبائل فونوں کی کمپنیاں ۔ کارپوریشنوں کے اسی باہم ضم ہونے کو ’’میگامرجر‘‘ کہتے ہیں۔ ’’پیسہ مرجر‘‘، ’’ سرمایہ مرجر‘‘ ، ’’کپٹل مرجر‘‘۔یوں کسی بھی شعبے کی بہت بڑی فیصدی کا کنٹرول اب دوتین کمپنیوں کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ چنانچہ ہماری دنیا کے سارے شعبے چند کارپوریشنوں نے آپس میں بانٹ رکھے ہیں۔ اسی طرح ہماری علاقائی تقسیم بھی اِن کارپوریشنوں کے بیچ ہوچکی ہے ۔ ۔۔ کپٹل کا ارتکاز ۔
نتیجہ دیکھ لیں!۔۔۔آج ٹکنالوجی اور سائنس کی ترقی کی برکت سے بے شمار دولت پیدا ہورہی ہے مگر پھر بھی دولت کی خلیج ہے کہ وسیع ہوتی جارہی ہے۔ بے شمار خوراک پیدا کرنے کے باوجودہم عام بھوک دیکھ رہے ہیں، منافع کی تلاش میں سرپٹ دوڑتی ہوئی ملٹی نیشنل کارپوریشن ماحولیات کو تباہ کرتی جارہی ہیں، ملٹری اور جنگوں میں وسائل کا ضیاع ہورہا ہے ،میڈیکل ترقی اس قدرہوگئی کہ زندگیاں بچا سکے مگر عام آدمی تک اس کی پہنچ روک دی جارہی ہے ۔
یہی تضادات ہمیں معاشی بحرانوں میں نظر آتے ہیں ، پانی کے بحرانوں میں ، خوراک کے بحرانوں میں بھی اور ماحولیات کے بحران میں بھی۔۔۔اور
کپٹل ازم کے پاس اِن بحرانوں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ہماری دنیا پر ایک اور ڈائن کے بھی پنجے گڑے ہیں: ’’بینک‘‘ ۔ یہ شاید دنیا کی تباہی بربادی میں جنگوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ بنک کا کام ادائیگیوں کے لیے درمیانے آدمی والے کاہوا کرتا تھا ۔ مگر اس مڈل مینی میں اس نے غیر فعال پیسہ (کپٹل) کوفعال کپٹل میں ڈھال دیا۔ یعنی ایسا کپٹل جو منافع کمائے ۔آج بنک، ریونیو کی ساری قسمیں جمع کرتے ہیں اور اسے کپٹلسٹ کو تھمادیتے ہیں۔ یعنی پیسہ کم لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا جاتا ہے ۔ اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ عاجز مڈل مین طاقتور ہو کر مناپلیز بن چکا ہے ۔ اس حد تک کہ سارے کپٹلسٹوں اور چھوٹے تاجروں کا سارا منی کپٹل اُن کے کنٹرول میں آجاتا ہے ۔ علاوہ ازیں ذرائع پیداوار اور خام مال کے وسائل کا بھی بہت بڑا حصہ اُن کی قدرت میں آجاتا ہے ۔
اب طاقتور شدہ یہ بنک انڈسٹری میں مدغم ہوجاتا ہے، یا اُس کا جوڑی دار بن جاتا ہے ۔ یوں اب ہم ایک خاص صورت سے آشنا ہورہے ہیں۔ فنانشل مناپلی۔
آپ اِن کی کارستانیوں کو معمولی نہ سمجھیں ۔ یہی فنانشل مناپلیاں دنیا میں قرضوں کے لین دین کرتی ہیں، حکومتوں اور فنانشل اداروں کے بیچ معاہدوں پر اثر اندازرہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ افسروں، منیجروں ، کنسلٹنٹوں ، ایڈوائزروں ، وزیروں، حتی کہ حکومتوں کی تقریری برخواستگی کا کام کرتے ہیں۔ اِن کے زرخرید لوگ حکومتوں کے فیصلہ کن اداروں میں موجود ہوتے ہیں ۔ چنانچہ آپ کو ہروائٹ ہاؤس ، اورہر وزیراعظم ہاؤس میں طاقتور فنانشل اداروں کے خریدے ہوئے آدمی ملیں گے۔ فیصلہ ساز لوگوں کو متاثر کرنے والے اُنہی کے گھراور دفتروں میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تو خیر پورے کا پورا وزیراعظم( شوکت عزیز، معین قریشی اور باقی سب ۔ جی ہاں سب کے سب) اُن کے مقرر کنندگان تھے ۔ ہمارے ہاں کو نسافیصلہ کن پالیسی ساز ادارہ ہے جہاں کارپوریشنوں اور فنانشل اداروں کے افراد اعلیٰ عہدوں پہ موجود نہیں ہیں۔
سیاسی میدان میں ’’اُن‘‘ کی طرف سے بولنے والی کئی آوازیں موجود ہوتی ہیں۔ اب تو ٹریڈ یونین لیڈر تک اپنے طبقاتی مقام سے غداری کرتے ہوئے پرائیویٹ سیکڑ عہدوں کو قبول کرتے رہنے کا انکشاف کرتارہتا ہے۔
کنسلٹنٹس ، ایڈوائزر ، لابی اِسٹ مقرر کرنے کا تو گویارواج ہی چل پڑا ہے ۔ بس ایک بات گرہ میں باندھ لیں: سرکار کے سارے کنسلٹنس ’’وہیں‘‘ سے ہوتے ہیں۔
تو صورت حال کیا ہے ؟ ۔صورت حال یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں کارپوریٹ ڈکٹیٹر شپ ہے ، پورے گلوب پہ ڈکٹیٹر شپ۔
ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے ریاست کا رول ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔جو ریاست شہریوں کی رضا مندی سے اُن کے مفاد کے لیے بنی تھی اب روز بروز سماج کی طرف اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ تی جارہی ہے ۔اب سرکاری ہسپتال ٹیکس کے باوجود شہری کا علاج نہیں کرتے ۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ سکولوں یونیورسٹیوں نے ناکارہ بنادیا ہے۔ حتی کہ اب تو شہریوں کو فوج ، ملیشیا، پولیس اور لیویز کے باوجود اپنے جان ومال کے تحفظ کے لیے پرائیویٹ گارڈوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔
ملٹی نیشنل کارپوریشن ممالک کو قرضے دے دے کر اور پارٹنر شپیں کرتے کرتے پرائیوٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن مناپلیزکے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ بناتی جارہی ہیں۔ اب تو بات یہاں تک پہنچی کہ ریاست ٹرانس نیشنل کارپوریشنز کی ننگی طاقت کے سامنے اپنی سا لمیت قربان کرتی جاتی ہے ۔ ریاست اپنی بورژوا جمہوریت بالخصوص جوڈیشل اور پارلیمانی اداروں کی اہمیت کم کرتی جاتی ہے ۔
یہ جو’’ گلوبلائزیشن ‘‘ہم سنتے جاتے ہیں، یہ ہے کیا؟۔ یہ ملٹی نیشنل کارپوریشن کی بادشاہی کا نام ہے ۔ یہ ’’فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ ‘‘کا دھماکہ ہے ۔ یعنی اب دنیا کی تجارت کا دو تہائی حصہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اند رہورہاہے ۔ اب’’ملکیت کی قومیت ‘‘ والا تصور آثارِ قدیمہ کی الماریوں میں بند ہوچکا ہے ۔اب ملکیت قومی نہیں، ٹرانسل نیشنلزکی ہوچکی ہے۔۔۔
عالمی پیمانے پر’’فری ‘‘ٹریڈ ایگری منٹس جتنی بھی ہوتی رہتی ہیں اُن میں’’فری، شری‘‘ کچھ نہیں ہوتا۔وہ دراصل ٹرانس نیشنل کارپوریشنوں کے حق میں اُن تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہیں جنہیں وہ اپنے گلوبل اھداف کے لیے لازمی سمجھتی ہیں۔ کیا کیا لفظ اور حربے استعمال کرتے ہیں یہ لوگ!!۔ٹیرف ، کوٹہ، ریگولیشن ، فارن اونرشپ رولز وغیرہ۔ ایسے طاقتور معاہدے فرد سے اُس کے بنیادی حقوق ،اور ممالک سے اُن کے جمہوری حقوق چھپن لیتے ہیں ۔
ٹرانس نیشنل کارپوریشن عرصہ ہواریاستوں کی سا لمیت اور خود مختاری کو جہنم میں ڈال چکی ہیں۔ حکومتیں جتنی زیادہ وطن کی محبت کا فقرہ دوہرائیں سمجھو سب سے زیادہ جھوٹ بول رہی ہوتی ہیں۔ یہ ساری جب الوطنی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے پاس رہن رکھ چکی ہوتی ہیں۔کار پوریشنیں ’’تنازعات‘‘ کی صورت میں ’’انٹرنیشنل آربٹری عدالتوں ‘‘سے ایسے ایسے فیصلے کرواتی ہیں جو ممالک کے آئین اور وہاں کی داخلی عدالتوں کو روند جاتے ہیں۔ ایگریمنٹس اور بین الاقوامی عدالتیں حکومتوں کو مزدوروں کے حقوق، فوڈ سیفٹی سٹینڈ رڈز ، قدرتی وسائل، ماحولیات کا تحفظ، جیسے فرائض کو جوتی کو نوک پر رکھتے ہیں۔ ہم بشمول ،ساری کپٹلسٹ حکومتیں اِن کارپوریشنوں کی جیب میں ہیں۔
یہ جو آج تختہ الٹنے کی کاروائیاں ہیں، جنگیں ہیں، حملہ آوریاں ہیں، اورحکومتیں تبدیل کرنے کی کاروائیاں ہیں ان سب کے پیچھے مناپلی کپٹلسٹوں کے معاشی مفادات ہیں۔
دوسری عالمی جنگ اور اُس کے بعد قومی آزادی کی تحریکوں کی جدوجہد کے نتیجے میں، 1970تک 100سے زیادہ ممالک قومی آزادی حاصل کرچکے ہیں۔اس سے سامراجی طاقتوں کو زبردست نقصان ہواتھا ۔ اُن سے سابقہ وسائل کے سرچشمے بھی گئے اور غلام مزدور بھی ۔مزید تماشایہ ہوا کہ کچھ ممالک تو باقاعدہ سوشلسٹ رجحانات اپنا گئے اور انہوں نے اہم صنعتیں اور وسائل قومی ملکیت میں لے لیں ۔یوں کپٹلسٹ مناپلیوں نے اپنی آمدنیوں کے ایک اہم سرچشمے سے ہاتھ دھولیے۔
تب اِن سامراجی طاقتوں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا : جدید نو آبادیت۔ تازہ تازہ آزاد شدہ ملکوں کے وسائل پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنے فرمانبردار کٹھ پتلیاں مقرر کرنے کا سوچا ۔ چنانچہ انہوں نے الیکشنوں میں مداخلت کی، امیدواروں کو پیسے دیے، اور پروپیگنڈہ پھیلایا ۔انہوں نے پروگریسو اور آزاد حکومتوں کو غیر مستحکم کیا، کرنسیوں پر حملے کیے ، فوجی کو دتا کروائے ، سربراہوں کے قتل کرائے اوریوں معیشتوں پر قبضہ کیا۔
جن حکومتوں نے اہم وسائل کو قومی ملکیت میں لیا، فنڈ عوام کی خدمت کی طرف موڑ دیے ،اور ایک آزاد موقف اپنایا وہ پہلا نشانہ بنے ۔ عراق میں صدام کو چلتا کیا، شام میں خانہ جنگی مچادی،یمن میں سعودی چڑھائی کروادی،ایران میں مصدق اور چلی میں آلندے کا تختہ الٹ دیا، وینز ویلا کی حکومت کو غیر مستحکم کیا، کیوبا کے خلاف ناکہ بندی کردی، پٹرس لو ممبا کو قتل کردیا۔ ۔ مناپلی کپٹلسٹوں کی ان ساری کارروائیوں، جنگوں، کو دتاؤں اور حکومتیں بدلنے کے پیچھے ان کے سامراجی مفاد تھے۔عراق اور وینز ویلامیں تیل سب سے بڑی اور اہم کشش ہے۔افغانستان ،روس اور چین کے منہ میں لگام دینے کے لیے آگ وخون میں ہے۔افریکا میں ہیرے، سونا ، قیمتی دھاتیں اور دیگر وسائل کپٹلسٹ مناپلیوں کے لیے موت اور زندگی جتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ سوشلسٹ کیوبا کپٹلزم کی نظر میں دوسرے مما لک کے سامنے ایک خطرناک مثال ہے ۔وہ کپٹلزم کا متبادل ہے۔ اور یہ متبادل نظام امریکہ کے دروازے پر واقع ہے۔ سو اُسے بھی ترقی کرنے نہیں دینی۔
ساری جنگیں صرف رجیم کی تبدیلی اور وسائل پہ کنٹرول ،اور ان کی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہی کی وجہ سے نہیں مسلط کی جاتیں ۔ اور بھی بڑی وجہ ہے :جنگ اور جنگی تیاریاں بذات خود بے انتہا منافع بخش کاروبارہیں۔
دنیا میں موجودساری مناپلیوں میں سے سب سے بڑی ،ملٹری کارپوریشنیں ہیں، اسلحہ بنانے اور بیچنے کی کارپوریشنیں یہ سب سے زیادہ منافع بخش اور کرپٹ ہیں، حکومتوں سے پیسہ اینٹھنے کی اوباشی کرتی ہیں اور دولت خیز ٹھیکے حاصل کرتی ہیں ۔
ایسی پانچ سب سے بڑی کارپوریشنوں میں سے چار امریکہ میں ہیں۔ لاک ہیڈ ، اس کے بعد بوئنگ ، پھر BAE ،رے تھیون ، اور پھر نارتھر وپ گرومین۔
ساری دنیا انہی امریکی کارپوریشنوں سے جنگی سازوسامان خریدتی ہے ۔ خود امریکی فوج ان کی سب سے بڑی خریدارہے ۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ امریکہ کے دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ فوجی اڈے ہیں۔اس کی فوج ہر سال ایک سو70فوجی مشقیں کرتی ہے اور اس کی نیوی صرف ایشیا پیسفک علاقے کی بندرگاہوں کے 250دورے کرتی ہے۔
یہ اسلحہ ساز کمپنیاں ظاہر ہے اسلحہ بناتی ہیں۔ اور اسلحہ امن کا دشمن ہوتا ہے ۔ اسلحہ بیجنے کے لیے انہیں جنگیں کروانی پڑتی ہیں، جنگی حالتیں بنائے رکھنی پڑتی ہیں۔ اور جنگیں ہلاکتیں ، افلاس ، زخمی، اپاہج اور بیمار پیدا کرتی ہیں۔ لہذا امریکہ کی یہ اسلحہ ساز کارپوریشن مشرقِ وسطی ، ہمارے جنوبی ایشیا ، افریقہ اور حتی کہ یورپ میں انسانی المیہ پیدا کرکے منافع کمالیتی ہیں ۔اس لیے بھول جائیے امن کو !!۔کپٹلزم کے رہتے ہوئے امن ناممکن ہے ۔
ڈویلپڈ اور ڈولپنگ دنیا کے بیچ ترقی کی اس غیر مساوی رفتار کو سائنس اور ٹکنالوجی نے مزید تیز رفتار کردیا ہے ۔ اور یہ ترقیاں عوام کے مفاد میں استعمال نہیں کی جارہی ہیں بلکہ یہ امیر اور مناپلی کپٹل کے مفاد میں استعمال ہورہی ہیں۔ بالخصوص ملٹری ، یا جاسوسی پہ ،اور شہریوں کے ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے۔
امیر اور غریب ملکوں اور اُن کے عوام میں خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے ۔ حتی کہ مما لک کے اپنے اندر یہ خلیج وسیع ہورہی ہے کہ ورک پلیس پر ورکرز کی ایک وسیع فیصدی کو اُس کے ماضی کی حاصلات سے محروم کیا جارہا ہے ۔ٹریڈ یونین تحریک جو ساٹھ، ستر،اور80 کی دھائیوں میں عروج پہ تھی اب محض ڈھانچہ رہ گئی ہے۔
سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی دیگر سوشلسٹ ریاستوں کے لیڈروں کی مجرمانہ غفلتوں غلطیوں اورحماقتوں نے صرف خود کو قتل نہیں کیا بلکہ اپنی غیر موجودگی سے امریکی سامراج کو طاقتور کیا اور اُسے دیدہ دلیری عطا کردی۔اِن ممالک نے انسانیت کے مستقبل کو نئے خطرات میں ڈال دیا۔
فنانس کپٹل میں بڑھوتری سے،اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے نیشوں کی توسیع سے ۔ یہ اب مہیب اور باولے بھیڑ یا جتنا طاقتور ترین بن چکا ہے،اور اس کے استحصال کی صورتیں زیادہ عیار اور مکار ہوچکی ہیں۔
کپٹلزم کی طرف سے منافع کے تعاقب کی وجہ سے دنیا برباد ہورہی ہے۔ اِس نے قحط پیدا کیے، سیلاب نازل کیے ،لاکھوں کی تعداد میں لوگ مہاجرہوئے ، بچی جا سکنے والی بیماریوں نے انسان کونرغے میں لے رکھا ہے ،اس کرہِ ارض پر انسان اور زندگی کا مستقبل انسان کی طرف سے پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے خطرے میں ہے ۔ مفلسی ، لاچارگی نے دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کو دبوچ رکھا ہے۔ کپٹلزم مکمل بحران میں ہے ۔
تو؟ ۔ کوئی حل؟، نجات کا کوئی راستہ؟۔
بدقسمتی سے کوئی شارٹ کٹ حل نہیں ہے۔ شاید مقامی حل بھی نہیں ہے۔ عالمی سامراج کو شکست دینا ہے ،بین الاقوامی مناپلی کپٹل کو شکست دینا ہے۔
اس جدوجہد کی نوعیت سب سے پہلے انٹی مناپلی ، انٹی سامراج اور سارے شعبوں میں (سیاسی معاشی، نظریاتی، کلچرل اور ماحولیاتی) جمہوری حقوق کے حق میں ہونی ہے ۔
مناپلی کپٹلزم کے تضادات اور خدوخال اس قدر شدید ہوچکے ہیں کہ اگر ہم ایک زیادہ بلند سماجی نظام کی طرف نہیں جاتے تو انسانی نسل برباد ہوجائے گی۔ صرف سوشلزم ہی نفع کے اس محرک کو دور کرسکتا ہے جو تباہی کی قوتوں کو چلاتاہے۔چنانچہ ہر نعرہ اور ہر جدوجہد میں مناپلی کپٹلزم کے خلاف جدوجہد ایک لازمی عنصر کے بطور شامل ہونا ضروری ہوچکا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے