ذرا اک طائرانہ نگاہ اپنے اردگرد ڈالئے۔ آپ کسی کرسی یا صوفے پربیٹھے ہونگے۔ یہ صوفہ یا کرسی تخلیق کے کئی مراحل سے گزری ہوگی۔ پہلا مرحلہ کیا رہا ہوگا۔آپ نے جو لباس پہنا ہے وہ سادہ ہو یا گل بوٹوں سے مزین ، بحر صورت اس کے، وجود میں آنے سے پہلے اسے سوچا گیا ہوگا ، پھر کسی کاغذ پر خاکہ بنایا گیا ہوگا۔ یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے، ذرا اس کے صفحات پلٹیں ، جگہ جگہ آرٹ کی گلکاری ملے گی۔ جس عمارت میں آپ موجود ہیں وہ بھی کسی نے ڈیزائن کی ہوگی۔ غرض جہاں نظر ڈالیں ، ہماری زندگی سے جڑی ہر چیز آرٹ کی مرہونِ منت نظر آتی ہے۔ کیسا غضب ہے کہ پھر بھی ہم اس شعبہ کو حقیر اور غیر اہم گردانتے ہیں۔اسکولوں میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مضمون یہی ہے۔ کتنے بچوں کے منہ سے آپ نے سنا ہے کہ وہ آرٹسٹ بننا چاہتے ہیں ؟
میرے نزدیک ہر انسان پیدائشی آرٹسٹ ہوتا ہے۔ معاشرتی جبر نہ جانے کتنے مصوروں کو جنم لینے سے پہلے ہی قتل کر دیتا ہے۔ مصوری وہ فن ہے جو ہمیں نیچر سے قریب کرتا ہے اور ہم زندگی کے جھمیلوں میں الجھ کر اس قرب کو ٹھکرا دیتے ہیں۔
آرٹ کا سفر انسانی تہذیب کا سفر ہے۔ جب انسان نے الفاظ ایجاد نہ کئے تھے تب بھی مصوری کے ذریعے وہ اظہار کرتا تھا۔ غاروں میں پائی جانے والی صدیوں پرانی اشکال اس کا ثبوت ہیں۔ گویا مصوری انسان کا سب سے پہلا ذریعہِ اظہار ہے۔ حروف تہجی کی ایجاد بھی مصوری کی دین ہے۔ عہدِ قدیم میں جب پروہت کو عبادت گاہوں کی املاک کا حساب کتاب محفوظ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے سادہ تصاویر پتھر کی لوحوں پر کندہ کرنے سے اس کام کی ابتدا کی۔ رفتہ رفتہ یہ اشکال تجریدی ہوتے ہوئے حروفِ تہجی اور اعداد میں بدل گئیں۔ اس طرح رسم الخط کی ابتدا ہوئی۔ ترقی کے اس سفر پر انسان اور مصوری کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔چناچہ میرا یہ ماننا ہے کہ آرٹ کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں۔ آرٹ ہی ہے جو اسے باقی مخلوقات سے منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ باالفاظ دیگر آرٹ انسان کو انسان بناتا ہے۔
یوں تو آرٹ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے لیکن میں یہاں خالص آرٹ یعنی مصوری ، مجسمہ سازی اور خطاطی وغیرہ کی بات کرنا چاہوں گی۔ ان کا براہ راست ہماری زندگی سے تعلق دکھائی نہیں دیتا بلکہ عرف عام میں یہ فارغ لوگوں کا شوق اور متمول طبقے کی عیاشی کہلاتا ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ اس پیشے سے متعلق میں نے آج تک جو کچھ جانا وہ بیان کروں تاکہ نوواردان آرٹ کو ان کے سوالوں کے جواب مل سکیں۔
میں شاید گیارہ بارہ برس کی رہی ہوں گی جب میں نے ڈائری کے صفحے پر پہلا باقائدہ اسکیچ بنایا۔اور پھر سلسلہ چل نکلا۔وہ ڈائری نہ جانے کیسے میری ٹیچر کے ہاتھ لگ گئی۔وہ میری پسندیدہ ٹیچر تھیں۔ اس دن وہ سخت ناراض ہوئیں۔ ان کے بقول میں انتہائی معیوب شغل کر رہی تھی۔ میں نے انہیں مایوس کر دیا تھا۔ لیکن رکنا میرے اختیار میں نہ تھا۔ تب مجھے معلوم بھی نہ تھا آرٹ کس بلا کا نام ہے۔بس اک جنون تھا جو مجھ سے روز نیا چہرہ بنواتا۔ آج جب میں کسی بچے میں وہی جنون پاتی ہوں تو دل بہت خوش ہوتا ہے۔ یہ لگن اور جنون ہی تو کسی فن کی پہلی سیڑھی ہے۔ضرورت ہے تو صرف اس کو جاننے اور راستہ دینے کی۔ باقی کام یہ خود ہی کر لیتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں اگلی سیڑھی کی یعنی فیصلہ ، جنون کی منزلیں طے کرنے کا ، تہیہ ، اس سفر کو جاری رکھنے کا۔ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ اپنے جنون کو ناپیں ، تولیں، آزمائیں۔ بار بار آزمائیں۔ اس رستے پر قدم رکھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ یہ مجنون و فرہاد کا رستہ ہے۔ یہاں پیروں میں چھالے بھی پڑیں گے اور جسم پر سنگ باری بھی ہو گی۔ منزل کی تلاش میں در در بھٹکنا پڑے گااور منزل پھر بھی اوجھل رہے گی۔
اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو آرٹ کا طالب علم تمام عمر جستجو میں ہی رہتا ہے۔ کسی ایک مقام پر ٹہرجانا اس کی قسمت میں نہیں ہوتا۔ سکوت کا دوسرا نام موت ہے۔ سفر یوں بھی دشوار ہوتا ہے کہ دن رات کی سخت ریاضت کے بعد آپ خود کو آرٹسٹ کہلوانے کے قابل ہوتے ہیں۔
اب آتی ہے تربیت کی باری۔ تربیت کے لئے آپ کسی بھی آرٹ سکول جا سکتے ہیں۔ لیکن وہاں آپ کو کچھ سکھایا نہیں جائے گا۔ صرف بتایا جائے گا۔ سیکھیں گے آپ خود ہی ، ہزاروں صفحات کالے کرنے کے بعد۔ صفحے ہی کیا ہاتھ بھی کالے ہونگے اور راتیں بھی۔ اور یہ صرف چار چھ سال کی ریاضت نہیں۔ عشق کے رستے پر قدم رکھا ہے تو ریاضت تو تا عمر کرنی پڑے گی۔
یہاں تک کا رستہ تو نسبتاً آسان تھا۔ اب باری آتی ہے چوتھے اور سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلے کی۔ اب آرٹسٹ آرٹ کی بے رحم مارکیٹ میں قدم رکھتا ہے۔ بیشمار بچے اس بے رحم دنیا کے ناروا سلوک کی تاب نہیں لا پاتے اور کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں میں سے چند خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جواپنی خدا داد صلاحیت کے دم پر جلد ہی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ زیادہ تعداد ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو برسوں بھٹی میں تپتے رہتے ہیں ، ہیرا بننا پھر بھی ان کے، مقدر میں نہیں ہوتا۔ یہاں صرف دو پرانے ساتھی ہی کام آتے ہیں ، جنون اور مستقل ریاضت۔
ایک نامور آرٹسٹ کے پاس کوئی نوجوان رہنمائی کی حاجت لے کر پہنچا۔ آرٹسٹ نے سرسری اس کے کام کی طرف دیکھا اور بغیر کوئی رائے دئے کہا۔ تم سو پینٹنگز بناؤ ، پھر سب لے کر میرے پاس آؤ۔ نوجوان چلا گیا۔ کافی مدت بعد نوجوان نے استاد آرٹسٹ کو دعوت دی کہ سر ! سو پینٹنگز بن گئیں ، آ کر دیکھ لیں ، لانا ممکن نہیں۔ استاد صاحب پہنچے ، تمام پینٹنگز پر طائرانہ نگاہ ڈالی اور سب سے آخری پینٹنگ پر رک گئے، بغور دیکھا ، مسکرائے اور مڑ کر نوجوان سے کہا ” یہ ہے تمہاری پہلی پینٹنگ "۔
آرٹ کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے خود کو چھاننا ، ٹٹولنا پڑتا ہے کہ ہمارے اندر کیا ہے۔ وہ کیا ہے جو ہمیں ہمیشہ خاکوں میں رنگ بھرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ کیا ہے جو بناتے وقت ہم وقت کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ کیا ہے جو ہمیں موقلم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ کیا ہے جس نے باہر سے اندر کا سفر کیا ہے اور اب پھر باہر آنے کو بیقرار ہے۔ یہ سوال ہی ہمیں ہمارے سبجکٹ تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن اندر کی کہانی کو پینٹنگ کی شکل دینے کے لئے گہرا مشاہدہ اور سخت ریاضت درکار ہوتی ہے۔
اگر اس فیلڈ کو محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بنانا مقصود ہو تو بہتر ہے کہ کوئی اور کام کیا جائے۔ زندہ رہنے اور آرٹ جاری رکھنے کے، لئے یقیناً پیسہ ضروری ہے لہٰذا اکثر نوجوان آرٹ سے منسلک چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ریاضت جاری رکھتے ہیں۔ ہر کامیاب مصور کے پیچھے آپ کو کئی تلخ کہانیاں ملیں گی۔ لیکن یہ تجربات کہیں نہ کہیں فن کو جلا دیتے ہیں۔
پینٹنگز تب ہی بکتی ہیں جب خیال ، سبجکٹ، رنگوں اور لکیروں پر گرفت مضبوط ہو جائے اور یہ گرفت چند دنوں کی مار نہیں ہوتی ، بڑی تپسیا کرنی پڑتی ہے۔
لب لباب یہ کہ آرٹسٹ بننے کے لئے سچی لگن ، اٹل فیصلہ ، گہرا مشاہدہ ، کڑی ریاضت اور انتھک محنت درکار ہے۔ اس کے بعد کہیں جا کر پہچان بنتی ہے۔ اور یہی شرائط کم و بیش ہر فن پر لاگو ہوتی ہیں۔ آرٹ کی دنیا امکان کی دنیا ہے ، خواب کی دنیا ہے ، خیال کی دنیا ہے اور خیال بسا اوقات غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ خواب ٹوٹ بھی سکتے ہیں ، امکان نا ممکن بھی ہو سکتا ہے۔ جو یہ سب سہنے کی ہمت رکھتا ہو وہی میدان میں اترے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے