سکھیاں ۔۔۔ آمنہ ابڑو
گھر کی سب دیواریں اب تو پکی سکھیوں سی لگتی ہیں میں پگلی جب پیتم پیتم۔۔۔ راگ الاپوں تو مسکائیں اور میرے ہر ویاکل پل میں مجھ کو اپنے گلے…
گھر کی سب دیواریں اب تو پکی سکھیوں سی لگتی ہیں میں پگلی جب پیتم پیتم۔۔۔ راگ الاپوں تو مسکائیں اور میرے ہر ویاکل پل میں مجھ کو اپنے گلے…
لگتی ہے راستوں پہ ہر اک چاپ اجنبی عفریت ساحلوں پہ اترتے ہیں اس گھڑی کاندھوں پہ ڈالے آتے ہیں سامان اپنا بھوت اک کال سے لرزتی ہوئی ٹیلی فون…
مسامِ جاں میں وحشت مانگتی ہے طبیعت جب محبت مانگتی ہے بڑی عجلت میں رہتی ہے ہمیشہ یہ گردش کب سہولت مانگتی ہے دمِ رخصت جو چھائی ہے کسی کے…
بھور سمے سے دھوپ کے چھپر تلے بیٹھ کے سا نس کی دھوکنی دھونکتے رہنا آس کی مٹی گوڑتے رہنا خواب دراڑیں لیپتے رہنا سیلی سیلی سی یادوں کی تہیں…
قبر کی سیاہ تاریکی نے دن کی روشنی کو قتل کر دیا چوہے بلوں سے نکل کر دستاویز کے ساتھ وہ قلم بھی کتر گئے جن سے کبھی سچائی سنہرے…
تْمہیں خبر ہے؟ تمہاری ہِجرت سے کِیا ہْوا ہے؟ ہمارے گھر کی وہ خواب گاہیں جو سْرخ پْھولوں کی بِھینی خْوشبو کی اوٹ لے کر ہماری مرضی کے خواب دِن…
ایک زمانہ تھا وہ ہم جوراہگیر تھے زندگی کی ڈگرپر جو نہی چل پڑے یوں اچانک جد ا راستے مل گئے اور لگا تیری منزل مری بھی تو ہے کچھ…
تمہارے بازؤں کے گھیروں میں آجانے کے بعد مجھے ایسا کیوں لگتا ہے جیسے سردیوں میں گھاس کی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا میں پلکو رے لینے لگی ہوں جسے سمندر…
ہاں میں اک بچہ ہی تو ہوں وہ بچہ جس کو پنپنے میں شاید کئی صدیاں لگ جائیں!۔ وہ بچہ جس کے چہرے پہ اداسی چپک کے رہ گئی ہو…
ناچتے ناچتے محبوب کی چھب چاہتا ہے عشق بازار میں مٹنے کا سبب چاہتا ہے چیخ آنکھوں سے نکل آئی ہے لاوا بن کر ہجر پھر گریہ کوئی آخرِ شب…
دانیال طریر!۔ تمھاری یادیں گنتے گنتے ہم سڑک کے بے نشان مین ہول کا حصہ بن چکے ہیں آگے _یا_ پیچھے کوئی نہیں جو ہاتھ تھامے قیام گاہ کا راستہ…
آؤ کچھ دیر چلیں درد کی دنیا سے اُدھر خود قریبی کے چمن زار میں صحرا سے ادھر ایک عالم ہو کہ ہونے کی نفی ہو جس میں ایک منظر…