پبلونرودا کی آخری نظم ۔۔۔ پبلونرودا/انور احسن صدیقی
ستمبر سن تہتر کے اذیت ناک دن تاریخ کے سارے درندوں نے ہمارے پرچمِ زریں کو بڑھ کر نوچ ڈالا ہے درندو ، ستم نے کتنا خوں بہایا ہے تمہارے…
ستمبر سن تہتر کے اذیت ناک دن تاریخ کے سارے درندوں نے ہمارے پرچمِ زریں کو بڑھ کر نوچ ڈالا ہے درندو ، ستم نے کتنا خوں بہایا ہے تمہارے…
سر نگوں سبز جھنڈی کا ہلکا پھریرا فضاوں میں لہرا گیا اوس پڑتے ہوئے بنچ پہ زرد پتوں کی چادر کو جھونکے اٹھا لے گئے ریل کی پٹریوں پہ اْداسی…
رواں ہر دم رواں اب کے بہاراں ہے مثلِ کارواں اب کے بہاراں شجر مینارِ خوں، گل خون دیدہ عجب ماتم کناں اب کے بہاراں لب و دل کی گواہی…
تری تصویر میں محفوظ حیرانی ترے چہرے پہ مرجھاتی نہیں جیسے تصّور میں اُگے پھول
میرے ساتھ رات کو ہوٹل پر سگرٹ پینے والے دوستوں کو معلوم ہے میں ہر آنے والا دن ایک نئی محبوبہ کے چہرے کے ساتھ گزارتا ہوں اور دن بھر…
مو قلم خشک ہے اب کوئی عکس رِستا نہیں رنگ مِلتے نہیں پھول کا ذکر کیا زخم تک اِس اَذیّت میں کھِلتے نہیں سانس بھی سینہ بے دلِ مبتلا سے…
دیواروں پر لگی تصویروں میں سیلن آنے سے بہتر ہے انہیں ملگجے کاغذ میں لپیٹ کر الماری کے اوپر رکھ دیا جائے اْن شاعری کی کتابوں کے ساتھ جن میں…
اکثر یوں ہوتا ہے جب تاریخ میں جھانک کر سرخ آنکھوں سے دیکھیں تو ”مونا لیزا” ہنسنے لگ جاتی ہے "آدم اور حوا’’ دو پتوں میں پلکیں جھکائے جنت سے…
(حصہ اول) دانیال طریر!۔ اُس شام جب سمندر سیپیوں کا لباس پہنے ٹہل رہا تھا اور ریت پر شام کے جوتے کے نشان تھے ’’تم نے کہا‘‘ سمندر کے مقدر…
بچپن میں جب ننھی آنکھیں سپنے بو کر سوتی تھیں توروز روز ہی یوں لگتا تھا جب جاگیں گے سرخ سویرااْگ آئے گا اور سب کے مرجھائے مْکھ پر سکھ…
جب حق کے حق میں بولا جانا تھا تب سب سر نِوڑھائے دم سادھے چْپ چاپ کھڑے تھے !۔ جب وقت ہمارے بس میں آنا تھا تب سب سر نِوڑھائے…
وہ تیتلی جو جنمی نہیں ہے مجھ کو دکھائی دیتی ہے وہ اک پھول جو اگا نہیں ہے اس کے گرد وہ گھومتی ہے اور وہ باغ جو کہیں نہیں…