زندگی کے ہر دور میں اور سماج میں انسان کو ایسے انسان بھی دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے عیش وآرام اور آسائش والی زندگی کو چھوڑ کر اپنی رضا اور خوشی سے مصائب اور تکلیفوں والی راہ اختیار کی اور آخرتک ثابت قدم رہے ۔ پھر نہ جانے ان کو سماجی نظام سے بیزاری ہوئی یا دنیا میں دکھ درد کا راج دیکھ کر غفلت کی زندگی کو گناہ سمجھا ۔ ایسے سادھو بکشو اور صوفی منش لوگوں کا تیاگ اور تپسیا کاسلسلہ عرصہ سے چلا آرہا ہے ۔
ایسا ہی ایک سندھ کا انسان سخی مرد سادہ دیوان دیارا م شاھانڑیں جس نے اپنی امیری کو فقیری میں کماکراُن کی مدد میں خود کو مصروف رکھا جن کو اس کی ضرورت تھی۔
اس کی پیدائش 1857میں ہوئی ۔دیارام کے والد گدو مل اپنے وقت کے نامور گیان دانی شخص تھے ۔ دیارام کے باپ دادا اصل کھتری کے ٹھاکرتھے۔ پھر نوکری کا پیشہ اختیار کرنے کی وجہ سے عامل کہلوانے لگے ۔ پہلے کلھوڑوں کے ہاں اور بعد میں میروں کی صاحبی میں ڈھل اور آبیانہ وصول کرنے کے ماہر کے طور پر مقرر کئے گئے ۔
ڈیارام کی ابتدائی تعلیم فارسی سے شروع ہوئی۔ جس کے لیے اسے آخوند نور محمد کے مکتب میں داخل کیا گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جس وقت سندھ میں کہیں بھی سندھی سکول نہ تھے ۔ کیونکہمغلوں کلھوڑوں یامیروں کے دور حکومت میں سرکاری زبان فارسی تھی۔ دس سال کی عمر میں دیارام نے گلستان اور بوستان پڑھ لیے ۔
1867میں دیارام کو انگریزی سکول میں داخل کرایا گیا ۔1872میں دیارام نے بمبئی جاکر میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کیونکہ میٹرک کے امتحان کیلئے سندھ میں کوئی انتظام نہیں تھا۔ بمبئی میں ہی دیارام ایلفنٹسن کالج سے بی ۔ اے کا امتحان پاس کر کے اپنے علاقے میں واپس آگیا ۔ کیونکہ امتحانات کے دوران ہی اسے اپنے والد کی بیماری اور پھر جلد فوت ہونے کی اطلاع ملی۔ سندھ میں آنے کے بعد کچھ وقت زمینداری اور فارغ اوقات میں قانون کے امتحان کی تیاری کرتا رہا۔
1879میں دیارام صدر کورٹ کے جج صاحب کے ہاں 60روپے ماہوار پر سرکاری کلرک مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں انگریز حکومت کا بول بالا تھا۔ اور ان کی نوکری کرنے کو مان مرتبہ اور عزتسمجھا جاتا تھا ۔ ایک سال کی ملازمت کے بعد اسکو ترقی دے کر سر تشدار مقرر کیا گیا ۔ اس عرصہ میں دیارام نے وکالت کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ اسی ملازمت کے دوران دیارام کو سول سروس کی آفرہوئیدیارام سرشتداری سے ترقی کر کے سمال کاز کورٹ کاجج مقرر ہوا۔
1881میں دیارام3ماہ سرکاری چھٹی لے کر سندھ کی سیر کرنے کو نکل گئے اور سارے صوبے کے کونے کونے کو گھوم پھرکے دیکھا۔ جلد ہی پھر انگریزی میں ایک کتاب لکھی۔ جس میں شاہ عبدالطیف بھٹائی ، قلندر شہباز اور ادیرہ لعل کی زندگی کے حالات قلم بند کیے۔ انہی دنوں سندھ کے دانشوروں نے ایک سنگت کی بنیاد رکھی جیسے ’’سندسیا‘‘ کا نام دیا گیا ۔ جس کے روح رواں دیارام تھے ۔ سندسیا کے طرف سے ایک انگریزی اخبار ’’سندھ ٹائمز ‘‘کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا۔ جس کے ایڈیٹر سادو ھیرا نند تھے مگر اداریہ لکھنے کی ذمہ داری دیارام کے حوالے ہوئی ۔
جلد ہی دیارام نے سندھ میں کالج کھولنے کیلئے تحریک شروع کی۔ کالج کی پڑھائی کو عام کرنے کیلئے ایک کتاب لکھی ۔ جس میں اُس نے اس اعتراض کو رد کیا کہ کالج میں پڑھنے سے نواجون سرکار یا مذہب کی بغاوت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس نے اپنے بھائی مینارام پر زور دیاکہ عاملوں سے کالج کیلئے ایک لاکھ روپے چندہ لے کر دیں ان کی اس کوششوں کے نتیجے میں 1886میں سندھ آرٹس کالج کا قیام عمل میں آیا۔ بعد میں دولت رام جس کی طرف سے دوزہزار روپیہ چندہ دینے کی وجہ سے کالج کا نام ڈی جے سندھ کالج کہلوایا۔
۔10مئی 1880سے 1886تک دیارام کو اسٹنٹ کلیکٹر کا عہدہ دے کر ان کو سندھ کے جاگیرداروں کا ریکارڈ بنانے کاذمہ سونپا گیا۔ دیارام نے دن رات محنت کر کیمغلوں سے لے کر میروں تک ڈھل کے متعلق ایک بڑی کتاب لکھی۔
تھوڑے عرصہ کے بعد دیارام کوترقی دے کر سیشن جج شکار پور مقرر کیا گیا۔
۔1880میں حیدرآباد میں’’یونین اکیڈمی‘‘ سکول کا بنیاد رکھا ۔ عورتوں کے خلاف سماج میں ہونیوالے ظلموں کے خلاف آواز بلند کیا ۔ اور ایک کتاب ’’عورتن خلاف ست گناہ‘‘ تحریر کیا۔ عورتوں کی عملی مدد کے لیے ’’ پنگتی ستدار مہذبی ‘‘ قائم کی جس کا مقصد تھا کہ وٹہ سٹہ کی شادی کی بندش: کم عمری کی شادی کا خاتمہ اور عورتوں کا تعلیم لازمی اور عام کیاجائے۔
۔1896میں عام غریب لوگوں کے پیسوں کی بچت کے لیے ایک بنک کھولا ۔ جس کا نام ’’غریبڑی بنک‘‘ رکھا۔
شادی اور موت جیسے واقعات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پراویڈنٹ اور موت فنڈ قائم کیے۔ 1897میں جب پلیگ کامر ض نمودار ہوا تو تین ماہ سرکاری چھٹی لے کر پلیگ ہسپتال کھولا۔ ہسپتال میں چار ڈاکٹروں اور سولہ کام کرنیوالی نرسوں کا تنخواہ دیارام دیتے رہے۔روزانہ پانچ گھنٹہ ہسپتال اور باقی بیماری کے خلاف تدارک کے لییمصروف عمل رہتا۔ جب تھر میں قحط سالی ہوا تو خود وہاں جاکر اناج کی دکان کھولی۔ اور نئے کنویں کھدوانے کے لیے مدد دی۔
۔1902سے لے کر 1911تک خاندیش اور سورت میں اور احمد آباد میں جج رہے ۔ اس عرصہ میں جہاں بھی رہے سماجی بھلائی کے ادارے اور سوسائٹیاں قائم کیں۔ 1908میں ’’سہواسدن‘‘ نام کی عورتوں کی سماجی سدھارے کے لیے بنیاد رکھی۔ اس ادارے میں سکول ہسپتال عبادت گاہ لائبریری اور ہنر گھر سب ایک ہی جگہ پر میسر تھے۔ اور اس میں دین دھرم یا ذات پات کا کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ اس تحریک کی شاخیں پونا۔ احمد آباد اور سورت میں کھولی گئیں اور مرکزی آفس بمبئی میں رکھا گیا جہاں فارغ اوقات میں وہ خود بھی کام کرتے تھے۔ ’’تیوا سدن‘‘ کے علاوہ ڈولیا اور احمد آباد میں کئی کینا آشرم ، پاٹ شالا، شیو منڈلیاں اور ھنری شالا قائم کیے۔
سندھ میں بنیاد رکھے ہوئے اداروں کومکمل پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ماہ اپریل 13تاریخ کی دوپہر کو ’’میتارام ذرماٹو ٹرسٹ‘‘ رجسٹر کروایا جس کے شروعات میں یہ الفاظ درج تھے۔
’’ میں غلاموں کا غلام دیارام گدومل عمر 53سال کھتری ۔رہائشی حیدر آباد سندھ۔ اپنی زندگی اور زندگی میں کمائی ہوئی پونجی کو امانت جان کر اپنی زندگی پر کوئی بھروسہ نہ سمجھتے ہوئے ۔ اپنی ساری ملکیت جائیداد کو ٹرسٹ کیحوالے کرتا ہوں۔ ٹرسٹ کانام بھی اپنے بجائے اپنے بھائی سرگواسی بھائی دیوان میتا کے نام کیا ۔ کروڑھا روپیوں کی ملکیت میں سے صرف دوچیزیں ٹرسٹ سے باہر کیں۔ ایک اپنا گھر جس میں اس کے اہل وعیال رہتے تھے۔ اور دوسرا اپنا ماہنامہ پنشن ۔ ٹرسٹ کے مقاصد میں کہاگیا کہ علم عام ہو ۔ دکھی انسانیت کی مرہم پٹی ہو۔
خلق کے خدمت کے اداروں کو سنبھالاجائے ۔ غریبوں کو روزگار فراہمی میں دل کھول کر مدد کی جائے۔

دیارام نے اپنی زندگی کے آخری چودہ سال تنہائی میں گزارے ۔ لوگوں سے ملنا اور باتیں کرنا ختم کردیں۔

مہاتما گاندھی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور سرلادیوی جب اُن سے ملاقات کے لیے ان کے گھرآئے تو ان کو تحریری جواب دیا کہ خاموش رہنے کا وعدہ کیا ہے ۔ جو حکم ہوتو ختم کروں۔ مرنے سے قبل ایک دوست کو خط لکھا کہ من میں بہت آرام وسکون ہے ۔ پالنے والے کا نام لینے میں مشغول ہوں ۔ نیند میں اس کا نام لبوں پر رہتا ہے ۔
اپنے بیٹے دیوان کیولرام شاھاٹی جس سے دلی لگاؤ تھا کو خط وکتابت کے ذریعے کہتا رہتا تھا کہ میری فکر نہ کریں کہ میں سچے سائیں کے ہاتھوں میں ہوں اس سے بڑھ کرکونسی سلامتی ہوسکتی ہے ۔
دیوان دیارام نے ہر رنگ میں اپنے آپ کو منوایا۔ ڈھائی سو سے اوپر علمی ، سماجی اور خیراتی ادارے قائم کیے۔اپنی پونجی اور اپنے بڑوں کی پونجی خیراتی اداروں میں دے دی ۔ اس کی قائم کیے ہوئے کالج ، سکول ، ھاسٹلیں ، ہسپتال ، دھرم شالیں اور آشرم کی جگہیں آج بھی چل رہی ہیں۔ ستر سے اوپر سندھی، فارسی ، انگریزی اور عربی کی کتابیں لکھیں۔تیس جلدوں پر اس کی اپنے ھاتوں کیلکھی ہوئی ڈائری موجود تھی۔
وہ درجن کے قریب زبانیں، بول ، لکھ اور پڑھ سکتے تھے۔ جن میں عربی ، فارسی ،سنسکرت، انگریزی، فرنچ کے علاوہ گرمکی ، گجراتی آرینیں۔ ھرو زبانیں شامل تھیں۔ 1932میں شاعری بھی شروع کی ۔ سندھی میں انکاتخلص ’’نماٹو‘‘ ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے