کتاب کا نام: شاہ عبدالطیف بھٹائی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 117
قیمت: 200 روپے
مبصر : عابدہ رحمان

ہمارا معاشرہ جو غموں،دکھوں ، ظلم واستحصال، ناانصافی اور غربت کا ایسا منبع بنا ہوا ہے کہ ہر انسان تکلیف میں ہے ۔ ایسے میں اسے کوئی ایسا در نظر آجائے کہ جہاں وہ سمجھتا ہو کہ اپنے غموں اور دکھوں کے باراس در پر چھوڑ کرہلکا پھلکا ہو جائے۔ جیسا کسی نے کہا ہے کہ ’ بیل اس سے لپٹتی ہے جو شجر ہو قریب۔ انسان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مغرب اور اس کے چمچوں نے صوفی ازم کا ڈھنڈورا پیٹ ڈالااور اس طرح ہمارے لوگوں کو مزید کمزور اور خوف میں مبتلا کر کے کسی کام کا نہ چھوڑا۔
ایسی بہت سی باتیں تھیں جوڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتاب شاہ عبدالطیف بھٹائی پڑھ کر ذہن کی سلیٹ سے صاف ہوئیں اور سچ اپنے پورے وجود کے ساتھ عیاں ہو گیا۔ کتاب کی ابتدا انھوں نے اسی طرح کی کہ دیوی دیوتاؤں کی شروعات آخر ہوئی کیسے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ چیزوں کو متحرک و مبدل دیکھ کر ،مافوق الفطرت چیزوں کی تشریح سے معزور انسان نے ان کی پرستش شروع کر دی، انھیں سچا اور عبادت کے لائق جانا اور پھر یہ عقیدہ ہی بنا لیا۔ تب انھیں خوش کرنے کی مشق شروع ہوئی۔ اس مشق کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے عمل میں مددگاربرگزیدہ و پسندیدہ افرادکی پرستش شروع ہو گئی جنھوں نے بعد میں حکمرانی کا عہدہ سنبھال لیا۔ دیوی دیوتا بس کارپوریٹ بن کر رہ گئے لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو خوف زدہ نہیں ہوئے بلکہ تجسس کی سیڑھی چڑھ کراصل کو پا گئے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہاں کچھ لوگ وہ بھی رہے جو یوٹوپیائی کہلائے ، وہ عقیدہ تو رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی انسان کی فلاح اور خوش حالی کی بات بھی کرتے تھے۔
ایک بہت عجیب اور دکھی کرنے والی بات جو اس کتاب میں پڑھی جو ہمیں شاید پہلے سے بھی معلوم ہوتی ہیں لیکن ایسی تحریریں ان کو ہمارے ذہنوں میں Highlight کر دیتی ہیں ،کہ پوری دنیا لیکن بالخصوص مشرق میں ان بزرگوں کوجو اصل میں انقلابی اور امن و آشتی کے پیمبر تھے لیکن بقول ڈاکٹر صاحب کے کہ اصل مغز نکال کر انھیں ، ڈھول، دھمال،جلوس، غسلِ مزار اور جھنڈوں کے حصار میں گُم کر دیا ، انھیں کرامات اور معجزات کے حوالے کیا گیا۔اور ان ہمہ وقت متحرک شخصیات کو جو عوام کے ساتھ وابستہ تھیں ،انھیں ساکت و جامد کر دیا ۔
یہی قاتلانہ حملہ شاہ کی تعلیمات پر بھی ہوااور انھیں شخصیت پرستی کا مجسم بنا کر چرسی دھمالوں اور مزار ماروں تک محدود کر دیا۔ نرینہ اولاد،اور بارش برسانے کا ذمہ دار ٹہرا کر صوفی ازم کو تقویت دی گئی۔تقدیر پرستی کا عقیدہ مزید مضبوط ہوا ، شک کرنا سوال کرنا گناہ ٹہرا۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب لکھتے ہیں کہ؛ ’ لوگ تقدیر پرستی کے پروردہ ہیں ۔ لوگ عجوبہ اور وقوعہ پرست ہیں ۔ لوگ جو بت شکن بننے میں ایک گہرا تھرل محسوس کرتے ہیں اور جب سازگار حالات ہوں اور اولمپین لوگوں کا مجمع اکھٹا ہو تو گلی بازار میں بت شکنیاں کرتے پھرتے ہیں مگر ساری زندگی اپنے دلوں میں تعصبات اور چھوٹے پن کی بت سازی ہی کرتے جاتے ہیں اور اسی بت پرستی کے پیہم عمل میں مر جاتے ہیں۔ تقدیر پرستی ایک ایسا راسخ عقیدہ ہے جہاں شک کرنے کی آزادی نہیں ہوتی، سوال کرنا تو درکنارسوال سوچنے کی آزادی بھی کسی مادی، معاشی یاجانی نقصان کی سزا لاتی ہے، حالاں کہ سوال کرنا، بحث کرناتو انسانی شناخت ہے‘۔
ملائیت اور خانقاہیت دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ، صوفی ازم اور وہابی ازم کے ٹکراؤ سے سوائے خوف کے بڑھاوے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا اور مغرب نے اپنے ہاں جھوٹے سچے مزار قائم نہیں کیے۔ بس ہمارے پہلے سے غربت و استحصال میں پسے ہوئے لوگوں کو مزید خوف زدہ کرنے میں جُت گئے۔ تب ہی تو شاہ تڑپ کر بول اٹھے؛
اے ملا خدا کرے تیری ماں مر جائے
اور تیرا پتا پیٹ کے اندر پھٹ جائے
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ شاہ لطیف ہمارے پیر نہیں بلکہ ہمارے رہنما ہیں ۔ زندگی کو بہتر طور سے گزارنے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ شاہ لطیف کے دور یا زمانے کی بات کریں تو ستارھویں اور اٹھارویں صدی کا ملاپ ہیں شاہ۔
اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کر کے، ارد گرد کے دکھوں ، غموں ، غربت کو اپنی تخلیق کے قالب میں ڈھالنے والے شاہ کو ، وہ کیا چیز تھی جس نے شاہ بنا ڈالا۔۔۔۔
عشق۔۔۔! عشق کا دیوتا کسی پر ایک بار مہربان ہو جائے تو تاعمر اس پہ اپنی چھاؤں کیے رہتا ہے۔ شاہ پہ بھی عشق کا دیوتا مہربان ہوا تو وہ محبت کی یہ چھاؤں ساری دنیا میں پھیلانے کو نکل پڑے اور عمر بھر یہی چھاؤں پھیلاتے رہے۔ محبت کی چھاؤں تلے جو ایک بار آ جائے، تو پھر وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ، خود سے وابستہ لوگوں بلکہ پوری انسانیت کی زندگی کو اسی چھاؤں سے دوام بخشتے ہیں۔ اور یہی سب شاہ نے کیا۔
عشق جو مضطرب کرتا ہے۔ عشق کی کتاب میں چَین نام کی کوئی چیز نہیں ۔ یہی اضطراب اسے کہیں ٹِک کر بیٹھنے نہیں دیتا۔ مست کو بھی یہ کبھی تدڑی کے پہاڑ پر لے دوڑا تو کبھی سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں کی طرف۔
گڈہ کاں مست کہ تدڑی ڈیہاں درکفاں
بھاگ کھڑا ہوتا ہے مست کہ تدڑی کے پہاڑ پہ چڑھے
یہی قوتِ متحرکہ ، یہی اضطراب شاہ کو بھی کبھی ہنگلاج کی دوڑیں لگواتا رہا تو کبھی بھنبھور کی خاک چھنوائی اور جامد و ساکت سماج کو متحرک کرنے کا سبب بنے۔
اپنے قلب کے قبلے کے طواف میں وہ اپنا عشق، اپنا غم،فکر و مشاہدہ تمام انسانوں کے دکھوں کے ساتھ پروتے رہے۔ عام لوگوں کے قریب ہوئے۔ طبقات کا ادراک ہوا ۔ فیوڈل ازم، جاگیرداریت کا مشاہدہ کیا۔ لوگوں کے دکھوں اور محرومیوں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ کسان تحریک کے مشعل بردار شاہ عنایت شہید کی مشعل کے وارث ٹہرنے والے بھی یہی شاہ لطیف تھے جو کہہ اٹھے:
سب کے سب اُس ( خدا) کی موجودگی میں واحد معبود
(خدا) کی توصیف میں وارفتگی مصروف ہیں
تم کتنوں کو قتل کرنے کے قابل ہو؟!۔
حرکت کرنا، متحرک ہونا زندگی ہے، زندگی کی نشانی ہے۔ جامد ہونا موت۔ اور شاہ اپنی شاعری میں عورت کو حرکت و جدو جہد کا سمبل بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ شاہ نے بہت سی لوک داستانوں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا لیکن اپنی محبت کی زبان انھوں نے سسی کو قرار دیا۔۔۔! سسی شاہ کی سمو ٹھہری۔۔۔! سسی کے منہ سے انھوں نے وہ سارے الفاظ ، ساری باتیں نکلوائیں جو ان کی سوچ تھی اور جو وہ چاہتے تھے۔
سسی جو تکلیفیں برداشت کرتی رہی، جدوجہد کرتی رہی اور ثابت قدم رہی ۔ کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔ عشق کی راہ میں تو جدو جہد، تکلیفیں ہجر ہی تو زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ اس راہ کی ساری تکلیفوں کویار کی اک نظر کے لیے منتظر، جام سمجھ کر چڑھا لیتے ہیں اور نشے میں جھوم جاتے ہیں ۔ یہ نشہ تکلیف کا احساس ہی کب ہونے دیتا ہے۔۔۔؟گلے شکوے کی طرف نظر جاتی ہی کب ہے۔۔۔؟
شاہ نے تمام انسانوں کی برابری کی بات کی تو زندگی کے ہر انگ میں کی ، یہاں تک کہ عشق و محبت میں بھی۔ سسی پنہوں انسان تھے۔ انھیں انسان ہی سمجھا اور انھوں نے مروج سے ہٹ کے دکھایا کہ عورت بھی محبت کی جستجو میں مرد کے پیچھے جا سکتی ہے، صرف مرد ہی کیوں ۔۔۔!
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کہتے ہیں کہ شاہ لطیف کو موسیقی سے عشق تھا اور موسیقی کے اپنے ۳۰ سُروں کے شاہکار میں بھی انھوں نے عورت کی جدوجہد کو جگہ دی۔ ان سُروں میں بھی انھوں جوڑنے ہی کی بات کی توڑنے کی کبھی نہیں ۔ کبھی جولاہے کی صورت میں جو دھاگوں کو جوڑ کر جال بُنتا ہے اور کبھی لوہار کی شکل میں جو کڑیوں کو کڑیوں سے جوڑتا ہے۔ انھوں نے تنظیم کی بات کی۔ لوگوں کو منظم کرنے کی بات کی۔صفوں کو سیدھا کرنے کی بات کی۔ شاہ شخصی آزادی کو کامیابی کی دلیل سمجھتے تھے۔
بارش جو استعارہ ہے خوش حالی کا، آزادی کا۔۔۔بارش تشبیہہ ہے انقلاب کی۔۔۔جس کے دیوانے تھے مست بھی۔۔۔شاہ بھی!۔
بلا شبہ شاہ ایک آفاقی شاعر تھے کیوں کہ بات انسانیت کی کی جائے تو وہ خود بخود مقامیت کی حدود سے نکل کر آفاقی ہو جاتی ہے۔
اگر آپ بہت سی چیزوں میں اپنی زندگی کو آسان کرنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے