عطاشادؔ میرے لئے کئی حوالوں سے ایک مثالی شخصیت رہے ہیں۔اُن کی قربت ، ان کی رہنمائی ، اُن کی دوستی اور ملنساری آج بھی دل و ذہن کی زمین پر تازہ تر ہے ۔ میں جب بھی کسی الجھن یا کسی مشکل مرحلے کا سامنا کرتا ہوں تو مجھے عطا بھائی کی باتیں ، ان کی جنونی کیفیت اور ہر مرحلے سے ایک عزم کے ساتھ سر گرم اور سرسوب ہو کر گزرنے کی یاد آتی ہے اور میں عطا بھائی کا ایک معتقد بننے کی کوشش کرتا ہوں اور کامیابی کے ساتھ اس مشکل مرحلے سے نکل آتا ہوں ۔
عطا بھائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے میں گھبرا سا جاتا ہوں ، خوف زدہ ہوتا ہوں اپنی کم علمی اور کم فہمی کو دیکھتے ہوئے خاموش ہوجاتا ہوں۔ لیکن بھلا ہو میرے پیارے دوستوں کا وہ مجھے اکساتے ہیں اور عطا بھائی کی یادوں کو قلم زد کرنے کی خواہش کرتے ہیں اسی جرات کا اظہار آج کے اظہاریے میں بھی آپ کو نمایاں دکھائی دے گا ۔
عطا شاد ؔ کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کے حوالے سے شعر و سخن کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے ابھی تک میرے لئے ایک کوہ گراں ہے ۔ اسے سمجھنے ، برتنے اور اس کے موضوعی محاسن پر بات کرنے کے لئے ابھی بہت سارا وقت درکار ہے ۔ عطا بھائی جہاں سے بات شروع کرتے ہیں وہ یہ کیفیت ہے۔ذرا سحرِ سخن میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سحرِ سخن
ابھی تو سحرِ سُخن ہوا ہے
جو پھیلتے فاصلوں کی خوشبو سمیٹتا ہے
جو دل میں انجانی چاہتوں کی پھوار اتارے
خمار جان بن کے میری سوچوں میں سرسرائے
ابھی تو سحرِ سخن ہوا ہے
اگر کبھی اس کے قرب کے شبنمی شفق کے گلاب پھوٹیں
میری ہستی پگھل رہی ہو
اگر کبھی اس کا لمس لذت طراز
وصلِ طویل
قطرہ قطرہ
مرے رگ و پے میں نشہ بن کر نُچڑ رہا ہو
تو اس سمے ، آتشیں طلب کا طلسم کیاہو
تو اس حلاوت کا اسم کیا ہو
ابھی تو سحرِ سخن ہوا ہے
’’عطا ؔ شناسی ‘‘ کی اہم اور گہری ترکیب مرے مد نظر نہیں ہے یا شاید میں اس کے تقاضوں پر یہ بات جان لیں کہ اس وقت پورا نہیں اتر سکتا لیکن عطاشادؔ سے عقیدت مندی ان کی ظاہری جدائی کے بعد ان کی شاعری ، باتوں ، یادوں اور اداؤں کو یاد رکھنا اسے عام کرنا میری ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ۔وقت کے فیتے سے نانپتے ہوئے ہم انہیں یکم نومبر 1939ء تا 13 فروری 1997ء کے درمیان دیکھتے ہیں تو عمر کے اس مختصر عرصے میں عطا بھائی نے ہمیں صدیوں کا سفر کر وایا ۔ ان کی تخلیقی اپج او ر تحقیقی مزاج نے ہمیں اس خطے کی تہذیب و تاریخ ، ثقافت و سماج ، سیاست و ادب کے بڑے دائرے سے متعارف کرایا ۔ خطہ بولان کے فطرت کے رنگوں سے آشنائی دی موسموں کے ذائقوں سے قریب تر کیا ۔ دوسری طرف ایک بلوچ کے کردار کو نبھاتے ہوئے اس بدلتی دنیا کے اختراعی منظر نامے کے دائرے میں رہنے والوں کو موضوعی ، تخلیقی ، لسانی اور جمالیاتی اظہار کی جدت سے آشنا کیا ۔ ان کی شاعری اپنے ارد گرد کے حالات کو بدلنے کا خواب لے کر ہمارے سامنے آتی ہے ۔۔۔۔ ان کی نظم لوری دیکھیں ۔
زندگی کے جنگل میں
سوء روں کا غوغا ہے
جانے کتنی مدت سے
میرے شیر بچوں کو
نیند بھی نہیں آئی
شب کی حبس گاہوں میں
زخم زخم آہوں میں
مرہمی کراہوں میں
چُپ کی دھند ھنا ہٹ ہے
خوف خوف آہٹ ہے
او ر وقت کی لوری
تیرگی کی راہوں کی
ان کمین گاہوں کی
سوچ بن کے رہتی ہے
چوٹ بن کے کہتی ہے

سؤروں کے غوغا میں
سہمے سہمے بچوں کے
ننھے ننھے پنجوں میں
سرخ سرخ نیزوں کی
برق کڑ کڑا اُٹھے
صبح کو جگا اٹھے
عاقبت کی سانسوں میں
گرم گرم کرنوں کی
روشنی کے جھرنوں کی
شبنمی صبا پھوٹے
درد کی صدا ٹوٹے

میرے شیر بچے جب
صبحدم جواں ہوں گے
زندگی کے جنگل پر
کتنے مہرباں ہوں گے

عطا شادؔ کی زندگی کے بہت سے پہلو لا جواب کارکردگی اور ہنر مندی کی مثال ہیں۔ ان کا ریڈیو پاکستان کے بوسیدہ در و دیوار میں شاعری ، موسیقی اور ڈرامہ کی مضبوط حوالہ تلاش کرنا ، آرٹس کونسل کو فنون لطیفہ کی آماہ گاہ بنانا ، ٹیلی ویژن میں کمپیئرنگ ، ڈرامہ نگاری کو ندرت سے سامنے لانا ، نئی نسل کے اہل قلم کو ایک تحریک اور تجسس فراہم کرنا اپنی نوکری کو شاعری سے دور اور شاعری کو نوکری سے دور رکھنے کی مثال بنانا ، بھابھی بچوں اور اپنے گھر سے بے انتہا محبت کرنا، دوستی میں لا زوال کردار ادا کرنا ،مگر میں ان پہلوؤں کو چھوڑ کر صرف عطا شادؔ کی شاعری کا ذکر کر رہا ہوں۔
گہری معنویت سے مزین شاعری کرنے والا دل کو موہ لینے والی شخصیت ،پر اثر آواز و انداز رکھنے والا ۔ جمال و جلال کی آمیزش سے قدیم ترین تمدن کے تاریخی ، تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی رجحانات کو فنون لطیفہ کے ذریعے لسانی ، علمی اور روحانی تجربے سے گزارکر اپنے قاری تک پہنچانے کا ہنر جاننے والا عطا شادؔ کہتا ہے ۔
کوہ کا کرب
یہ چشمے کے پانی میں کیسا غبار آگیا ہے
گزرتے ہوئے کار روانوں کی یادیں
جلے پتھروں پر
ٹھہرتی شبوں کی ، یہ کیا راکھ لکھ کر گئی ہیں
شکستہ طنابوں پر خیموں کی تحریر کیا تھی
پڑھی بھی نہ جائے سنی بھی نہ جائے
وہ بوڑھی زبانوں کی مشفق کہانی تھی کیا
نقش جن کے ہواؤں نے کمہلا دیئے ہیں
یہ جب میں نے سوچا
تو ایسے لگا
جیسے وادی کے سب سرد پتھر پگھلنے لگے ہیں
عطاشادؔ مجسم حسن تھے ۔وہ اپنے چاہنے والوں میں اس قدر گھرے رہے ان کے قرب میں اتنے کھوئے رہے کہ انہیں ایک زمانے بعد یہ احساس ہوا کہ
پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی او ر ہمیں رسوا سر بازار کیا
لیکن عاشادؔ ان بد خیوں اور رسوائیوں کو محبت کرنے والا مقدر جانتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور ذرا سا منظر بدلنے پر فطرت سے ہم کلام ہوتے ہوئے کہتے ہیں ۔
مجھ شاخ برہنہ پر سجا برف کی کلیاں
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے
عطا بھائی کی گفت گو ، شگفتہ مزاجی ، محفلوں کی جان اور یاروں پر مہربان طبیعت ، منفرد انداز و اسلوب کی شاعری تازہ فکر و احساس کی نمائندگی اور جدید و قدیم رجحانات کی جڑت سے تخلیق پانے والی شاعری نے انہیں ستر کی دہائی سے سخن کی دنیا کا شہزادہ بنادیا تھا ۔ بولان اور بلوچستان کا شعری حوالہ عطا شادؔ کے بغیر نا مکمل ہوتا۔ ان کی طبیعت میں محبت کی چاشنی اور چاہتوں کی بے تحاشا وارفتگی نے ایک بڑے طبقے کو عطا کے ساتھ تعلق اور قربت پر مجبور کر دیا تھا ۔ بلند پایہ شاعر فیض احمد فیض سے حبیب جالب تک ، احمد فراز سے افتخار عارف تک ، کشور ناہید سے پروین شاکر تک ، دلیپ کمار سے معین اختر تک ، اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے غیر معمولی شخصیات کا عطا شادؔ کی میزبانی اور مہمان نوازی کے تذکرے ایک طویل مضمون کے اشاریئے بنتے ہیں ۔
محبتوں کو ان معاشروں میں رواج دینا جہاں ابھی تک محبتوں کے معنی پوری طرح عیاں نہیں ہوئے جہاں، روایتوں کے امین پر کھوں کی دوستی ، دشمنی ا ور سیالی کو نبھائے چلے جارہے ہوں ۔ وہاں سب کچھ بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف محبت کے گیت الاپنا محبت کو وقت کے سروں کی مالا بنانے کا ہنر ہماری شاعری کی شان اور سب سے بڑا موضوع رہا ہے ۔ اسی تسلسل کو نبھاتے ہوئے عطا شاد ؔ کہتے ہیں ۔
میری زمین پر ایک کٹورا پانی کی
قیمت سوسال وفا ہے
آؤ ہم بھی پیاس بجھالیں
زندگیوں کا سودا کر لیں
نفرت سے نفرت کرنے والا محبتوں کو رواج دینے والا ایک عالمی سماج کا نمائندہ عطا شادؔ کہتا ہے ۔
کہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات سوجائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے
عطا شادؔ نے اساطیری حوالوں ، لسانی تشکیلات اور کلاسیکی رجحانات و موضوعات کو نئے پیراہن کے ساتھ اپنی شاعری میں نمایاں کیا ۔ ان کی تخلیقی توانائی نے ایک نئے طرز احساس کو جنم دیا جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ عصری شعراء کے ہاں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرنے لگا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کا شاعر عطا شاد ؔ کی شاعری ان کے طرز احساس ، الفاظ و تراکیب کی ندر ت کو کس طرح سے قبول کرتا ہے ۔ فارسی ، بلوچی اور اردو کے مشترکہ آہنگ کو کہاں تک ساتھ لئے جاتا ہے ۔
عطا شادؔ بنیادی طور پر ڈرامے کے آدمی تھے۔ ان کو ڈرامے کی صنف سے بے انتہا محبت تھی ۔ انہوں نے اس حوالے سے غیر ممالک میں ڈرامہ پروڈکشن اور خصوصاً ٹیلی پروڈکشن کے موضوع پر ٹریننگ بھی حاصل کی تھی ۔ اس لئے ڈرامائی رجحان اور ڈرامائی کیفیت ان کی شاعری میں دلچسپ انداز میں دکھائی دیتا ہے ۔ خاص طور پر بلوچی فوک شاعری کی داستانوں میں کرداروں کی گفت گو ان کی بلند آہنگی اور رومانی داستانوں میں محبت کے جلتے دیئے ان کی شاعری کو اس تہذب و تمدن سے جوڑتے ہیں جو ہمارا اثاثہ رہا ہے ۔ عطا بھائی ان داستانوں کے ذریعے ہمیں محبت کے سفر کی کہانی سناتے جاتے ہیں اور اس سفر کو خوبصورت مشعل کی صورت آگے بڑھانے کا سامان کرتے ہیں ۔ ذرا یہ نظم دیکھیں ۔

صلہ
لڑکی۔۔۔ ذرا رُک ، مجھے اس بلندی سے نیچے اتار آکے ، اے جانے والے
لڑکا ۔۔۔ تجھے میں اتار وں ، یہ منظور ، اے شعلہ پوشاک ! لیکن مجھے اس کے بدلے میں کیامل سکے گا
لڑکی ۔۔۔ تجھے اپنا یہ ہار یا اپنے ہاتھوں کا سنگہ ہی میں دے سکوں گی
لڑ کا۔۔۔مجھے ہار یا تیرے ہاتھوں کے سنگھے سے کیا واسطہ
میں تو شیدا ہوں نازک کٹار ایسی ناک اور پھنکارتے گیسوؤں کا
لڑکی ۔۔۔ کٹار ایسی ناک اور لہراتی زلفوں کا بانااس قدر کیوں ہے آسان جانا
میں ترے ہاتھ کب آؤں گی
میں تو چھپ جاؤں گی اونچی ٹہنی کے پتوں میں بن کر ترنج
لڑکا ۔۔۔ چاٹ جاؤں گا بن کر پہاڑی ملخ، سبز پتوں کا جھنڈ
لڑکی ۔۔۔ اور اگر میں برسنے لگوں دامن کوہ میں بن کے ہلکی پھوار ؟
لڑکا ۔۔۔ اک پہاڑ ی ہرن بن کے پی جاؤں گا آب شیریں ترا
بلوچی زبان میں لوک شاعری میں جو طرز یں مقبول و معروف تھیں ان کو عطا بھائی نے اردو زبان کو اس خوبصورتی کے ساتھ دان دیا ہے کہ اس پر آنے والے دور کا محقق یقیناً فخر کرے گا ۔ لیئکو ، شتر بانوں اور چرواہوں کا یہ گیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بڑا مقبول ہے ۔اس جدائی ، دوری اور ہجر کی کیفیت اور وصال کے امکانی لمحوں کو شاعر ایک خاص انداز سے بیان کرتا ہے ۔
مرا اونٹ
بلند آسماں پر
یہ بادل کا ٹکڑا
جو دیکھا
مجھے یاد آیا
بیابان میں اونٹ اپنا
مرے اونٹ کا نام ہے چار گوش
اور زینت ہے اس کی
جواں سال بی بی
نئے سرخ جوڑے میں ملبوس
مرا اونٹ ہے چاق چوبند
پھرتیلا
اب میری منزل مرے سامنے ہے
مرے اور ترے درمیان
یہ بلند او ر مشکل پہاڑ
کیسے دو دل ملیں ، کیسے پہنچے سلام و پیام
یہ چاہی کبوتر سرآب جُو
جو خراماں ہے
جب دیکھتا ہوں
تو دل تیری یادوں کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہے
مری محبوبہ سرو قد
آج کس شان سے
اسپ رفتار اشتر کی محمل کی زینت بنی ہے
عطا شادؔ کی شاعری کادور ایک ابتلا کا دور تھا ۔وہ اپنے محکمانہ ذمہ داریوں اور پابندیوں کے باوجود اپنی شعلہ بیانی کو جاری رکھے ہوئے تھے ۔ مے و ساغر نے انہیں جلوہ آرائی اور بلند آہنگی کا حوصلہ دیا ۔ یہ الگ بات کہ آخری عمر میں اس تعلق نے انہیں ہم سے جدا کر دیا ۔لیکن جسمانی طور پر جدائی کے باوجود عطا بھائی آج بھی ہمارے درمیان اپنی خوبصورت شاعری ،منفر د انداز و اسلوب اور دل پذیر یادوں کے ساتھ موجود ہیں ۔آج ان کی بلوچی شاعری نے نوجوان شعراء کو ایک جداگانہ اسلوب دیا ہے ۔موضوعات کا تنوع اور تفکر کے نئے پہلو بخشے ہیں۔ ان کی جدید شاعری اور تجریدی اسلوب کو آج فیشن کے طور پر نہیں بلکہ عصری موضوعات پر بنیادی اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔آج ان کی شخصیت اور شاعری پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کئے جارہے ہی۔ بہت مقبول اور فکر انگیز نظموں کااردو اور انگریزی میں ترجمہ سامنے آرہا ہے ۔عطا شاد ؔ کی اردو شاعری آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے بولان کے دشت داماں چشموں ،صحراؤں اور کہساروں کے فطرتی مناظر کے درمیان بسنے والی زندگی کا منظر نامہ پیش کیا تو دوسری طرف اردو زبان کو ایک نئے اسلوب اور تراکیب کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرلیا ۔عطا شادؔ اب صرف ہمارا نہیں بلکہ سب کی عطا ہے ۔اپنے اظہار یے کی خشکی کو مٹانے کے لئے عطا بھائی کے چند اشعار پیش کر رہا ہوں ۔
دروازہ کھلا رکھا تھا ، برسات سے پہلے
ہم ، تم سے شناسا تھے ملاقا ت سے پہلے
*
ہاں ! شفق کے شعلوں سے ، راکھ ہوگیا ، سورج
تیرگی کی بارش میں چاند بجھ گیا ، اچھا
*
عمر بھر کی قربت کا ، کس نے خواب دیکھا ہے
وصل نا میسر ہے ، حرف دلکشا ، اچھا
*
پھر وہی شام تماشا ہے ، سحر کے بعد بھی
پھر وہی بے منزلی ، ختم سفر کے بعد بھی
*
اور اک دن ، کیا دیکھا تھا ، اس نگر کا رستہ
اس کے بعد نظر نہیں آیا ، گھر کا رستہ
*
یک لمحہ سہی عمر کاارمان ہی رہ جائے
اس خلوت یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے
قربت میں شب گرم کا موسم ہے ترا جسم
اب خطہ جاں وقف زمستان ہی رہ جائے
مجھ شاخ برہنہ پر سجا برف کی کلیاں
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے
*
گھر کے باہر ہے زمستان بہت سردی ہے
یہیں رہ جاؤ مری جان ! بہت سردی ہے
نہ کہیں حرف ، نہ آواز ، نہ صورت ، نہ صدا
گرم ! اے دیدہ ء ویران ، بہت سردی ہے
ٹہنیاں بھیگتی جاتی ہیں ، دھواں اٹھتا ہے
جب سے سلگا ہے گلستان ، بہت سردی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے