موسم کو یاد حرفِ دعا رہ گیا میرا
دستِ خزان پھول کِھلا رہ گیا میرا

کیا بند کر کے آیا ہوں میں کچھ خبر نہیں
دروازہ پھر سے گھر کا کْھلا رہ گیا میرا

باہر میں آگیا ہوں خدوخال کے بغیر
چہرا اک آئینے میں رکھا رہ گیا میرا

دریا کی بوند بوند میں آنکھوں سے پی گیا
وہ پیاس تھی کہ کوزہ دھرا رہ گیا میرا

برگد کا ایک پیڑ تھا جو کٹ کہ گر گیا
کہنے کو اور شہر میں کیا رہ گیا میرا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے