ہمارے دوست شاہد اقبال نے معاشرے میں اٹھائے جانے والا سب سے آسان سوال پوچھا ہے کہ ایک عام پاکستانی گھرانہ جس کی آمدنی 18000 روپے ہے، اپنی روزمرہ گزر اوقات کس طرح کرتا ہے. انہوں نے کچھ حساب جوڑا ہے۔ روزمرہ کا گھی، ایندھن، سبزی، گوشت کا خرچہ اور مجموعی آمد و خرچ کا فرق نکالا ہے اور آخر میں کہتے ہیں آمد خرچ سے بہت کم ہے. پھر عام آدمی کیسے جیتا ہے؟
لگتا ہے ہمارے دوست نے نویں درجے کے ملازم کی تنخواہ کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے.ایم فِل پاس کرنے والا جوان جو حکومت کے سکولوں میں علم کی دولت بانٹنے چلا ہے ایک ریاستی ملازم یا نوکر نہیں بلکہ غلام ہے. چونکہ ٹیچر اور معلم کے ساتھ احترام عزت اور وقار جڑا ہوتا ہے جسے ایک میٹرک پاس کے سامنے جوابدہی کے لئے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے اسے غلام کہتے ہیں معلم نہیں. معلمی درجوں میں نہیں تولی جاتی.۔
مگر اب تعلیمی اداروں میں تو روزانہ مارشل لاہے.ریٹائرڈ اہلکار کیمرہ لیے ٹیب اٹھائے صبح سویرے موجود.
خود کو معلمی کی خوش فہمی میں لپٹائے جو بشر پہنچتا ہے تو کیمرہ لہراتے ٹیب گھماتے سپاہی کو موجود پاتا ہے.
اوئے توں لیٹ کیوں.۔
تو ہانپ کیوں رہا ہے
تیرے جوتے صاف نہیں
کمرے خراب کیوں ہیں
لڑکوں نے منہ کیوں نہیں دھویا.۔
بچوں سمیت سب قطار میں کھڑے کر دئیے جاتے ہیں اور معلمی کے بخار میں مبتلا آدم جایا آدھ گھنٹے کی دیری کی وضاحت کرنے دفاتر کی پیشیاں بھگتا ہے.۔
آپ اسے ٹیچری کی سند دیں آپ اسے معلمی کے اعزاز بخشیں لیکن تہذیب یافتہ دنیا میں اسے غلام کہتے ہیں.۔
شاہد صاحب!۔
آپ نے اس کی آمدنی کا غلط حساب لگایا ہے اس کی آمدنی اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہے آپ کو غلط بتایا گیا ہے۔ یہ پرلے درجے کا جھوٹا ہے.۔
میں آپ کو بتاتا ہوں اس کے ذرائع آمد اور کیسے یہ گزر بسر کرتا ہے۔ علم کے خزانے لٹانے والے اس ریاستی غلام نے اس سال ماں کا جو زیور بیچا ہے اس رقم کو اس کی آمد میں شامل کیوں نہیں کیا. شام کو اڈے پہ آئس کریم بیچنے سے جو کماتا ہے وہ بھی اس کی آمدنی ہے. ہر مہینے کے پہلے ہفتے یہ دو راتیں گھر سے غائب ہوتا ہے. معلوم ہے آپ کو یہ کہاں جاتا ہے ؟ یہ یاروں کے ساتھ جوا کھیلنے جاتا ہے اس کمائی کو آمدنی نہیں کہیں گے کیا ؟۔ آپ کو یاد تو ہو گا دو سال پہلے ماں کے گردوں کے علاج کے لئے جب ساری جمع پونجی ختم ہو گئی تو اس نے اپنا گردہ بیچ کر جو لاکھوں لئے وہ بھی کسی شمار قطار میں آئیں گے . اور ہاں پچھلے مہینے باپ کے دل کے دورے پر ڈاکٹروں نے کہا بائی پاس آپریشن کرانا ہو گا تو پتہ ہے آپ کو اس آپریشن کے لئے اس کی جیب کس نے بھاری کی تھی وہ اس کی جوان بیوہ بہن نے اپنی خون پسینے کی کمائی دی تھی اسے.۔
شاہد صاحب آپ بہت سادہ ہیں
مکان کے رہن سے جو لاکھوں ملے اور اس رقم سے شادی رچائی تھی اس نے یہ آمدنی نہیں تھی کیا ؟ اگر اس کا چھوٹا بھائی ٹرک کلینری کرتے چھاپے میں پکڑا گیا ہے تو اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں اس کا نصیب ایسا تھا. اس کے ٹرک کا ڈرائیور سمگلروں کا سامان نہ اٹھاتا تو نہ پکڑا جاتا. مالک اسے چھڑا لیں گے. آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔
اس کے مقدر کا لکھا ہوا ہے رب کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے ۔
یہ کس نے کہا تیرے وطن میں بھوک ہے غربت ہے۔
ارے بھائی میرے!۔
یہ جو آپ کو سڑکوں پر کاغذ چنتے بچے نظر آتے ہیں یہ بھوکے بنگالیوں کے ہیں. گندگی کے ڈھیر پر جھونپڑیوں میں آباد یہ برما کے لوگ ہیں. یہ بھیک مانگنے والی افغان عورتیں ہیں.
پاکستان تو خوشحال اور سر سبز و شاداب ملک ہے۔ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے لوگ آسمان سے اترے ہیں کیا؟
یہیں کے لوگ ہیں یہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے