تمثیل حفصہ

آؤ ڈالی کی پینٹنگ سے
وقت کی گرتی خالی گھڑیاں
گن گن گن کے رکھتے جائیں
سوکھی شاخ پہ بہتی سوئیاں
دور پہاڑوں پر ویراں میں
شام کی دستک ہو جانے پر
شیلف پہ رکھا
اک بوسیدہ ماس کا ٹکڑا
اور زمیں پر خشکابے کے سارے لمحے
ایک پلک کے سو جانے سے
ایسے سوئے جیسے کوئی
خواب ہو سویا
یا پھر ٹک ٹک، ٹک ٹک کرتی
ساری گھڑیاں
اس لمحے میں رک سی جائیں
شام کے منظر میں کھو جائیں
اور زمیں پہ سوتی جائیں
خواب کے امبر پر خوابوں میں
آنے والے سب وقتوں کی
ایسی بھی کوئی ساعت ہو
ایک صدی کے کٹ جانے پر
اب بھی جیسے وہ زندہ ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے