مار دو !۔
اور یونہی مارتے جاؤ تم
پھونک دو اپنی حرمت کی ساری حدیں
نوچتے جاؤ آنکھوں سے خوابوں کی ساری نسیں
چاٹ لو رستے زخموں کا عریاں نمک
اوراٹھا لو زمیں پر پڑی کرچی کرچی کھنک
سونگھتے جاؤ !۔
خوابوں کے بستر پہ نوچی ہوئی زندگی
سانس کے ساتھ اْگلو ،
زرا دیر پہلے وہ نگلی ہوئی چاشنی
پھر بجاؤ وہی ماتمی ڈگڈگی!
آہ و زاری کرو بے تحاشا کرو
جتنا جی چاہے اتنا تماشا کرو
سوچنا کچھ نہیں!
کہ ابھی سوچ لینے سے ہوگا بھی کیا
یہ جو اب کہ ہوا
نہ تو پہلا تھا اور نہ ہی تھا آخری حادثہ
کیا پتہ پھر اسی موڑ پر
خواب جھلسا ہوا
پھول مسلا ہوا
کوئی رشتہ کسی خوف کے خوں میں لتھڑا ہوا
بھنبھناتے تعفن زدہ ڈسٹ بن پر ملے!۔
پر اسے دیکھ کر نہ تو امبر پھٹے اور نہ دھرتی ہلے
ہاں اسی موڑ پر عین ممکن ہے ایسا کوئی تو ملے
جس کی چیخیں کسی نظم میں دفن ہوں
جس کا پرسہ یہی چند ہی حرف ہوں
خود کو دھتکارتی بد دعا کی طرح
بین کرتی ہوئی التجا کی طرح
جانے کتنی بلاؤں سے لڑتی ہوئی
خود سے ڈرتی ہوئی ،روز مرتی ہوئی
نظم سستی سہی
آخری تو نہیں!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے