’’سنگت ‘‘ سدا سے ایک بہت ہی ناگفتہ صورت حال میں تاریکی میں مسافت طے کرتی آرہی ہے ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ روشنی پھیلانے کے عمل سے کبھی اجتناب کرتی دکھائی نہیں دی ہے۔ ایسی تاریکی کے بطن اور باطن میں قاتلوں کا منفرد فرقہ (Assasins creed) بھی اس کے Parallelبے لغام پھرتا اپنی مذموم وانسان کش سرگرمیوں میں صاف نظر آتا رہا ہے ۔ ساتویں آٹھویں صدیوں میں مشرق وسطیٰ کے اندر، گیارہویں بارہویں تیرہویں صدیوں میں یورپ کے اندر، اور بیسویں اکیسویں صدیوں میں ہمارا پورا خطہ اس سفاک فرقہ کا آستھان رہاہے۔ اسی فرقہ کی ماہیت ونام لبادے ان گنت ہیں۔ لیکن خصوصیت وسبھاؤ انسان کش ، آزادی کش ،کلچر کش ۔۔ وغیرہ ہے ۔ بھوتوں کی مانند اس کا بسیرا سدا سے تاریکی، دھند، غبار وکہرمیں رہا ہے ۔ اس لیے وہ خود بھی بُھوت لگتے ہیں۔
جو انسان زندگی کو جہد گردانتا ہے ، جوتا ریکی کی قوت سے جہد،شبہ مایوسی نا امیدی ، جوروستم اور اس قسم کے دیگر بیمار عناصر سے جہد میں ایمان وایقان رکھتا ہے وہی اِس مشتبہ سوچ کے ذریعہ ان علامتوں کی صحیح پہچان و تشخیص کر سکنے کا اہل ہے ۔ اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ علامات جسم وروح دونوں کو نابود کرسکتی ہیں۔ اس لیے وہ اس تقدیسی اور Survival۔ (بقا) کے جہد سے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ مختلف اقسام کے غلامانہ ذہنیت اور دیدہ دانستہ ٹھگی پر قائم اکثر ادارے ، قانونی پلیٹ فارم ، درسگاہیں، اژدھاتی بھوت ‘ پارلیمان ، انتخابات ، عدلیاتی نظام، بورژوازی سائنس ، مسلم شدہ نصابی سسٹم اور ترقی کا مصنوعی ، ڈھانچہ وغیرہ انسانی حقوق، صوبائی خود مختاری ، قومیتی اور قومی آزادی کے حصول میں کبھی بھی مثبت ذریعہ ثابت نہیں ہو پائیں گے۔ کوئی بھی ایسی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جو دوسروں کے قومی وقومیتی حقوق کا استحصال کرتی رہے۔
یہاں ماریوپوزو کے گاڈ فادر ، اور گزشتہ صدی کی تیس کی دہائی کے لیجنڈری امریکی وار لارڈ الکپُون کی دیوہیکل صورتیں سامنے ایستادہ ہیں، ان کی اصطلاح میں غیر مقدسی تثلیث کو مافیاسے معنون کیا گیا ہے۔ میں اس کو Fratenityکے نام سے بھی جانتا ہوں ۔ تینوں بے حد ڈراونے زہریلے اور مہلک غیر انسانی بھوت ہیں: جسم کے ساتھ ! ان میں سے کسی ایک کی نابودی لکھو کھا انسانوں کی زندگی ہے ، کیونکہ یہ تینوں بھیڑیوں کے راج کے نمائندے ہیں۔یہ بھیڑوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ان کے نمائندہ راج میں خارجہ و داخلہ پالیسی ودیگر اہم معاہدات ان ہی کی منظوری سے روبعمل آتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی ان کے کئی نام : میری اسٹون کرافٹ کا فرنکسٹیں ،اسٹیونس کا ڈاکٹر جیکل ائنڈ مسٹر نہائڈ ، بوم کاڈراکولا، ایچ جی ویلز کا انوزیبل مئن ، فلم سکرین ہر دکھایا جانے والا ھالومئن ۔ یا تقدیسی mythکے بموجب زردشتی اھرمن ،یہ زمان ومکاں کی پابندی سے آزاد ہیں۔
یہاں پر غیر تقدیسی تثلیث کے حوالہ سے قدیم عہد کے دو زمان ومکان دور یاد آرہے ہیں۔ جن میں’’ سنگت ‘‘اس ڈراکولائی شبیہ سے نبرد آزما رہی تھی۔ تاریخ کے پنوں پر اس عہد ساز پنجہ آزمائی کی چھاپ اور ساتھ ساتھ لافانی تخلیقی اُپج رہتی دنیا تک انسان کی عظمت وبیش قیمت ورثہ کے طور پر جاودان رہے گی۔
یورپ ، خاص طور اٹلی کا یہ’’ سنگتی دور ‘‘ چودھویں صدی سے سولہویں صدی کے آخر تک نور کی مانند لافانی تھا۔ اس 250سالہ عظیم ثقافتی ، ادبی تحریک کو رناسان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اِس سے پیشتر قرونِ وسطیٰ کا تمام یورپ جہالت تاریکی ، توہم پرستی ، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اندھیروں میں ڈوبا اور تاریک دور (Darkages) سے یاد کیا جاتا ہے رناسان کو دانشورانہ فریم ورک کے بمو جب انسانیت (Humanity) کے ارتقا کا عہد بھی کہتے ہیں۔
بعد میں اِسی عہد نے روشنی یا شعوری بیداری کے دور (Age of Enlightement) اور مارکسی فکری تجزیہ کی بنیاد قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جس کی رو سے تخلیقی ، دانشوررانہ اور سیاسی زندگی کا نئے سائنسی تناظر میں احاطہ کیا جاتا رہا جو کہ ھنوز جاری ہے۔
رے نے سانی عہد فنونِ لطیفہ ،تحقیق و ادب کی لامحدود سرزمین ہر ایسے عظیم فن پاروں اور شاہکاروں کی تخلیق کا موجب بنا جس کی مثال قدامت اور جدیدیت میں شازوناذرہی ملتی ہے ۔ اس لیے میں اس اصطلاح کو سیمابی یا سنگتی ،کہہ کر اسے صرف تحریک کا لیبل قرار نہیں دیتا بلکہ یہ ایک پیہم ارتقا پذیر concertہے۔ concertکے عظیم صناعوں میں مائیکل اینجیلو (داؤد ، کنواری اور بچہ ، موسیٰ ، آخری فیصلہ ، خدا کا ہاتھ آدم کے ہاتھ میں۔۔۔ جیسی اینجیلو عظیم فن پارے )، رافائیل ۔ دمکتے رناسانی دور کا سب سے زیادہ محبوب فنکار شمار کیا جاتا ہے ۔ ہائی رناسانی ، عہدہر اس کی فنی چھاپ سب سے زیادہ گہری تصور کی جاتی ہے ،خاص طور پر پورٹریٹ ، ہیئت سازی میں اس کا مقام منفرد اور معراج پر دکھاتا ہے ۔ گیؤر گیئان ، رناسانی عہد کا وہ اُتم آرٹسٹ ہے جس نے کم عمر ی میں وہ لافانی کارنامے سرانجام دیے جیسے ادب کے میدان میں کیٹس ، شیلے، موپسان ، بادلیئر اور بائرن نے دیے تھے ۔ یہاں پر یوسف عزیز مگسی کی یاد تازہ ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ وہ عظیم شخص بھی تیس سال کی عمر میں ناگہان اجل کا شکار بنا تھا اور یہ مھان کلاکار بھی بتیس سال کی عمر میں پلیگ کے نذر ہوگیا۔ میں نے کہیں لکھا ہے نامساعد حالات اور تثلیثی ستم کے دوران کلاس کلچر و کلاس سٹر کچر ، بھی بسا اوقات اپنی سرشت میں موجود بدی کو دھتکارتے سنگتی اُٹھان اور لہر ، کا حصہ بننے میں دیر نہیں کرتا۔
جرمنی کے فلسفی بادشاہ فریڈرک دی گریٹ اور روس کی ملکہ کیتھرائن دی گریٹ (اٹھارویں صدی) ۔۔ وغیرہ کے نام بھی ترقی پسند ادب فن اور ایک حد تک انقلاب فرانس کی راہ ہموار کرنے میں بلاجھجھک لیے جاسکتے ہیں۔
مارکس آرلیئس (پہلی صدی) سلطنت رومہ کا عوام دوست دانشور وفلسفی شہنشاہ بھی دمکتے ستارے کی مانند اس نورانی قطار میں اس لیے منفرد مقام کا حامل ہے کہ وہ شہنشاہیت ختم کرکے ریپبلک قائم کرنے کا خواہشمند تھا اور اس کی تکمیل میں سردے کر سرخرو ہوا تھا۔
بہت بعد میں ہماری اپنی سرزمین پر سردار یوسف عزیز مگسی (جسے سرداری نظام سے چڑ بھی تھی) کے آزادی اور حقوق کی خاطر چومکھی لڑائی میں ان کے contribution کو عزت وتکریم نہ بخشنا گناہ کبیرہ تصور کیا جائیگا۔
زمان و مکان کی سرحدیں ڈھاکر ، مخصوص کلاس کلچر و کلاس سٹرکچر میں دراڑیں ڈالنے والی ان نیک روحوں کا ذکرِ خیر ارتقا وانقلاب و انسانی عظمت کے لیے از بس ضروری بنتا ہے ۔
اس کے علاوہ متذکرہ ڈھائی سوسالہ رے نے سانی عہد میں روشن فکری وانسانی آدرشوں کی بنیاد ڈالنے میں ۔ اور نثرو نظم کی لافانی آب ریزی کرنے میں جن دیوقامت دمکتے ستاروں نے لازوال یوگدان دیا تھا ان میں سے کچھ کے نام تحریر نہ کرنا نا انصافی اور پاپ کے مترادف ہوگا، بوکا شو ، پیٹرارک ، سیلیئی ، پیٹر وار یٹینو، گسپارا سٹمپا ، برونو، گلیلیو ، اریو سٹو، ڈانٹے۔۔ ان میں سے کچھ نے جبر واختیار (حکومتی ، مذہبی، سماجی) کے خلاف بے جگری سے مقابلہ کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور جان عزیز کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ ادب آرٹ فکر وسائنس کی ترویج میں برونوؔ کے بے دردی سے چکھیا، پر بے دردی سے زندہ جلائے جانے کے بعد، نئی قدروں ، کی طرح ڈالی گئی تھی جن کی بنیاد قدیم و جدید کے حسین امتزاج پر کھڑی کی گئی تھی۔ اس کے پیش روں میں عظیم دانٹے پیٹرارک اور بوکاشو کے نام سر فہرست ہیں۔
ہمارے یہاں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ لیکن فخر کا مقام ہے کہ سروں کے نذرانے بھی بے روک دکھتے ہیں۔
ایسے انار کی میں ادیب وفنکار صرف قلم برش موئے قلم ورنگ کینواس پر قادر نہیں ہوتا بلکہ اُس نئے کردار میں ڈھلتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے ۔ یعنی نظریہ ساز مفکر اور مدبر کی حیثیت میں بھی اور مزاحمت کار کی شکل میں بھی !۔ پلیخانوف ، لینن گور کی پیبلونرودا، جے پی سارتر پکاسو، محمود درویش ، ہرزن ، مادزے تنگ ، ایم این رائے ، جیولس فیوچک ، پینا گورس گل خان۔۔
سنگت ، اور لا سنگت کے حوالے سے اٹھارویں صدی کا فرانس ذہنی اُفق پر تمام تر جلووں سمیت دھنک کی مانند دکھ رہا ہے ۔ وہ صدی روشن فکر وبیداری کے لحاظ اور اُس کے بھیانک ۔ ردِ کے طور پر رہتی دنیا تک تاریخی پنون کے علاوہ یادوں میں بھی آباد ہوگی۔
اس صدی کا عظیم کردار والٹیئر دماغ و دلیل کی حکمرانی کا قائل تھا ۔اور یہ سوچ کا ایمانی جُز بھی تھی۔ لیکن اس کا دیرینہ فلسفی دوست روسو ایک نفیس رومان پر ست تھا (کبھی نیوپلا ٹونزم میں نہایا ہوتا محسوس لگتا تھا) اور دل کی حاکمیت پر کُلی اعتماد رکھتا تھا لیکن اس تنہادی کیفیت کے باوجود دونوں گہرے دوست بھی تھے اور انسان کی عظمت ان کا آدرش بھی تھا۔ آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بھرے انسان کش تثلیثی راج : شاہ ، کلیسا اور کرپٹ امرا جاگیردار کے تاریخی گٹھ جوڑ سے چومکھی جنگ /مزاحمت کے دوران ان کے مشترکہ سنگتیوں نہ صرف سنگت میگزین ایک منفرد نام ’’انسائکلو پیڈیا ‘‘کی صورت میں رواں وجاری تھا بلکہ اس کے ساتھ آدرشی سرفروشوں کی ایک لمبی قطار بھی موجود تھی جو بیک وقت مثالی دانش اور مزاحمت سے سرشار تھے ۔ ڈیڈرو ، روسو، ریزن ،ڈی المبرٹا۔۔۔
میرٹ اس پر ہے کہ اپنے وقت کے اور اپنے عظیم ملکوں کے مہان دانشورو فلسفی فرمانروا اور شنہشاہ جرمنی کے فریڈرک دی گریٹ اور روس کی ملکہ کیتھران دی گریٹ بھی ان کی معاونت میں اس طرح یک و جوود تھے جس طرح گزرے ہوئے کل میں اور آج کے بلوچستان میں مگسی ، مری ، بگٹی ، مینگل ، بنگلزئی سرداران نظر آتے رہے ہیں ۔ تاریخ سکھاتی ہے کہ وجود اور دھرتی کی سربلندی اور آن ومان کے تحفظ کی خاطر کلاس سٹرکچر سدا سے زمین دوز ہوتا رہاہے ۔ !
فرانس کے ان عظیم ’’انکاریت پسندوں‘‘ نے مستقبل میں رونما ہونے والے فرانسیسی انقلاب کی ، فلسفیانہ اور نظریاتی بنیاد رکھی تھی اور متذکرہ سنگت کے ’’منفرد و مبادی‘‘کردار کو بھی کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا گیا تھا۔
اس اثنا میں اٹھارویں صدی میں ہی فرانس کے بے ترس فرمانروا لوئی چہارھم کی خوش پوش ، خوبصورت اور اس سے زیادہ خوب سیرت محبوبہ اور غیر منکوحہ بیوی مادام پامپودار کی یاد تازہ ہوتی اپنی خوشبوئیں بکھیرتی دکھائی پڑتی ہے ۔ مذہبی انتہا پسندی اور شاہی جبر کے اس دور میں، جب والٹئیر اور روسو کو جلاوطن کیا گیا تھا یہ خاتون علم دانش و انسانیت ، کا منفرد گہوارہ تھی۔ اس دور میں پیرس کے طول وعرض میں SALONS’’لٹ خانے‘‘ موتیوں کی مانند بکھرے ہوئے تھے جہاں سے علم دانش فلسفہ و فکر، ادب شاعری بذلہ سنجی، تاریخی سائنس و دیگر انسانی علوم ، عشق ومحبت ،انسانیت و آزادی کے بے روک جھرنوں کا بہاؤ تھا۔ یہاں سے ہی میں دنیا کے عظیم شاہکار وفن پارے خلق ہوئے ۔ اور بلآخر یہاں سے ہی ارتقاء و انقلاب کے پودے نے تناور درخت کا روپ اختیارکیا تھا۔ یہاں سے ہی ادب وآرٹ نے ideaکی شکل بھی اختیار کی تھی۔
بقول شاعر ولیم بلیک یہاں سے ہی دنیا کا نظارہ ریت کے ذرہ میں کیا گیا اور جنت الفردوس کی solidشبیہ خود رو پھول میں نظر آتی رہی۔ کلیسائی مذہب اور شاہی سنبون تلے کُچلی ہوئی اُس دھرتی پر مادام پامپودار نے علم وانقلاب وانسانیت کے رکھوالوں: والٹیئر ، روسو ، ڈیڈرو۔ کا دفاع وخدمت دامے درمے سخنے ،کے مصداق ہر لحاظ سے کرنے میں کبھی اجتناب نہیں برتا، ڈرو خوف اس بے باک حسینہ کے سامنے آنے سے کنی کتراتے تھے ۔ والٹئیراور اس کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ ادب کا زرین خزینہ شمار کیا جاتا ہے ۔
جب گوری چلے ہنس کی چال
تب سنسار اوڑھے دھنکی شال
بلوچستان میں بھی، خصوصی طور پر، اٹھارویں صدی کے فرانس جیسی ابتر تثلیثی صورت حال موجودہے اور سنگت کا پیہم وجود بھی جاری ہے اور ڈارون کے بموجب Survival of fittestکی جہد بھی ۔ رواں ہے اور دھرتی کا باسی سب سے زیادہ fit بھی دکھائی پڑتا ہے !؟۔
صرف پیغمبر شمعوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ بُھوت بنگلہ کی کمزور دیواروں کو دھکا دے! صرف ’مزاحمت ‘ (فکری وعملی) ہی اولمپس کو گرانے کی وجہ تسمیہ بن سکتی ہے ۔ ویسے بھی تجزیہ سے درا ہٹ کر دیکھاجائے تو ہر پُرآشوب دور میں سنگت کا کردار جیسا رہا ہے ۔ اب کیونکر نہیں رہ سکتا ۔
ایک تحقیق کے بموجب اینگلو ۔ سکیسن نسل (کی خاص خصوصیت بَڑ بڑ یا بکواس کرنا ہوتی ہے ۔ دنیا کے دو ترقی یافتہ و طاقتور قوموں کا مقدمہ سدا سے ایسے لوگوں کی مُٹھی میں قابو رہا ہے ۔ جوبکواس میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ۔ ہٹلر ۔ولیم پٹ ، ایڈمنڈ برک وغیرہ۔ان کا زور صرف زبان درازی پر ہی رہا ہے ۔ وہ دائمیت کے مقابلہ میں صرف پل بھر کے تماشے کے رسیا رہے ہیں۔ ایسا فانی پل صرف آنکھ اور کان کے بھرمانے کا موجب اور مقصد ہوتا ہے ۔ مقرر کی گونجدار بھڑ ک صرف آدمی کے باطن میں موجود کھوکھلے وجود ، کی تشفی کرتی ہے ۔
اگر اس نسل کی شاعری کا بغائر مطالعہ کیا جائے تو اکثر کلام اس فانی شئے۔ اور بے بنیاد احساس کا عکس دکھائی دیگا۔
متذکرہ تماشے کے یہ بے مثل عکس ہیں ۔ ان کے وجود میں خالص بے ساختگی اور خوبصورت تخیل بالکل ناپید ہے ۔ جس ملک قوم و ادب کی باگ ڈور ایسی فصل ونسل کے ہاتھوں میں ہو اس کی کشتی ہچکولے کھاتی آخر گرداب کے نذر ہوگی۔
نہ صرف جرمنی جاپان وبرطانیہ ۔ ۔ وغیرہ کی چندمثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں بلکہ ہمارا ملک بھی دھٹائی کے ساتھ اس راہ۔ بلکہ بدراہ پر گامزن ہے۔
میں نے کلچر و قوم کی لازم ملزوم حیثیت کا ذکر اس سے پیشتر بھی کیا ہے ۔ اب اس کا اعادہ اس لیے اور لازم بنتا ہے کہ ثقافت کا سب سے اہم جُز ’’زبان ‘‘ پُرپیچ خطرات میں گھری ہوئی ہے ۔ وہ بھی غیروں سے نہیں بلکہ اپنوں کی غاصبانہ اور فاتحانہ ذہنیت سوچ اور عمل کے کارن!۔
جس طرح انسان چرند پرند ونباتات ۔۔ زندہ اور سانس لیتی حقیقتیں ہیں ۔اُسی طرح زبان بھی زندہ اور سانس لیتی غیر تکراری سچائی ہے۔ کسی قوم کا وجود صرف اُس زبان کی ترقی نشو نما اور دمکتی زندگی پرانحصار رکھتا ہے ۔ زبان کے اندر موجود الفاظ کا ذخیرہ انسانی زندگی میں دھڑکتے ، سانس لیتے مالیکیو لوت کے مترادف ہوتا ہے اور انہی کی طرح وقت کے دھارے پر ۔regenerate and degenerate ہوتے رہتے ہیں۔ اور قوم کی زندگی میں نئی روح ، ولولہ پھونک کر اسے زوال سے بچاتے ہیں۔ لیکن ، بدقسمتی سے دھرتیوں پر موجود غاصب اور فاتح عناصر گروپس اور قومیں اپنی سرشتی ، بدطنیتی کے کارن سب سے پیشتر کمزور ، شریف النفس ۔۔ قوموں کے کلچر اور اس میں سب سے زیادہ طاقتور عنصر ’’زبان‘‘ پر پینترے ، بدل کر شاطرانہ وار کرتے ہیں: نتیجہ قوم کی نابودی !۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے