عاصمہ! آج تمہارے لاہور شہر کی فصیل میں دراڑ پڑ گئی ہے
مفسد وعیار، بربریت کے پروردہ
آج تمہارے جانے پہ خوش نظر آرہے ہیں
یہ تو اُس دن بھی خوش تھے
جب حسن ناصر، فیض اور بھٹو خاندان کو
اللہ میاں کے پاس بھیج دیا گیا تھا
اللہ میاں نے پھر دیکھا، پھر وہی شیطان
کبھی مشال ، کبھی نقیب
اور کبھی نوجوان بچیوں کو ٹکڑے ٹکڑے
کرنے والوں کو ، عزت بچانے کی
مبارکباد دے رہے تھے۔
مگر اللہ بے انصاف نہیں ہے
امن کی شہزادی عاصمہ!۔
تمہیں کتنی کالی ہواؤں کے تھپیڑ ے لگے
کتنی زہر بھری گولیاں چلائی گئیں
مگر تم اس لیے بچ گئیں
کہ نگر نگر سسکتے چہرے
تمہاری بے ریامسکراہٹ کے
انتظار میں چشم براہ تھے
کہتے ہیں روحیں آواگون کے ذریعہ
حرکت میں رہتی ہیں
یہاں تک کہ وہ پاک ہوجاتی ہیں
تمہارے بے چین، مگر پاک روح عاصمہ!۔
تمام خاک بسر لوگوں کے چہروں کی خراشیں
سبک ، نرم رو ، تازہ شگوفوں میں بدل دے گی
سب اجاڑ بستیوں میں
ہر روز تمہارے قدموں کی چاپ سن کے
آزردہ اور بے نور آنکھیں بھی
جگمگا اٹھیں گی
اذیت پرستی کے سارے ناخدا
نابود ہوجائیں گے
مگر تمہاری روح!۔
کبھی کیا، اکثر چڑیا کی آواز کے ساتھ
اور سارے عالم میں
بادلوں کی گرج کے ساتھ
ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی!۔
0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے