یوسف عزیز مگسی کی نظر میں

بلوچوں میں بے شمار مدبر پیدا ہوئے ہیں۔ بہت روشن فکر، دوراندیش اور وژنری راہنما۔ اِن سب کا سرخیل یوسف عزیز مگسی تھا۔اُسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ بلوچستان کے اندر موجود آدھی آبادی کو انسانوں والے حقوق حاصل نہیں ہیں اور یہ 50فیصد آبادی اپاہج وناکارہ رکھی گئی ہے ۔وہ حیران تھا کہ ایک ایسی سرزمین کی ترقی کیسے ممکن ہو گی جہاں آبادی کا اتنا بڑا حصہ بے کارو بے فائدہ پڑا ہواہو۔
اُس نے دیکھا کہ بلوچ وبلوچستانی خاتون نہ صرف یہ نا کارہ کردی گئی ہے بلکہ اُس کو تو فیوڈل اور نیم فیوڈل نظام میں انسانوں میں ہی شمار نہیں کیا جاتا۔ وہ طبقاتی نظام اورپدرسری، ڈبل ظلم کی شکار ہے ۔ اُس کے حال سے تو اُس کا ماضی اچھا تھا جہاں ایک ابتدائی اور فرسودہ سا کمیونزم رائج تھا۔ مادرسری کے اُس نظام میں عورت کام کرتی تھی ۔ سماج اُسے عزت دیتا تھا۔ وہ انسانوں میں شمار تھی ۔ فیصلوں اجتماعوں اورجنگوں میں حصہ لیتی تھی، بطور سپاہی بھی اور بطور کمانڈر بھی ۔ وہ جنگیں رکوا دیتی تھی ۔خوراک و آمدن کی تقسیم کار تھی ۔ بلوچی کلاسیکی شاعری بھری پڑی ہے ایسے تذکروں سے ۔
بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ رسم سیاہ کاری(کاروکاری) کا بلوچ قبائل میں کوئی رواج نہ تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قبائل جاگیرداری نظام کے زیر اثر آئے تو عورت ،جائیداد کی طرح مرد کی ملکیت قرار پائی۔ معمولی شک پہ، یا اُس سے چھٹکاراپانے کے لیے یا اُس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے ،اُس پر سیاہ کاری کا الزام لگا یاجاتارہا۔
ماضی قریب میں درجنوں عورتیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں بلکہ بلوچی دستور کے تحت اس ظلم سے بچنے کے لیے جب انہوں نے سرداروں کے ہاں پناہ لی تو ان خواتین کو بلوچی دستور کے خلاف سرداروں نے بیچ ڈالا۔
عورتوں کے حقوق کے بارے میں یوسف عزیز مگسی کی بے چینی اولین بار ہمیں بلوچ کانفرنس جیکب آبادمیں نظر آتی ہے ۔ یہ چار روزہ کانفرنس دسمبر1932کو منعقد ہوئی تھی۔ بلوچ تاریخ کی اس اولین آل انڈیا سطح کی بلوچ کانفرنس میں عورتوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی سے متعلق مندرجہ ذیل ٹکڑا پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
’’چنانچہ ورکنگ کمیٹی نے اپنی محترم ہمشیر گانِ وطن کی درخواست کا خیر مقدم کرتے ہوئے نہایت خوشی سے اُن کی استدعا کو منظور کرلیا۔اورمستورات کے لیے باقاعدہ پردہ کا انتظام کیا جائے اور بغیر فیس داخلہ کے شامل کیا جاوے ۔ ہم اپنی محترم خواتین کی خدمت میں التجا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کو جو عموماً تعلیم سے بے بہرہ اور مردوں سے کئی گنا زیادہ جہالت میں ہیں، بیدار کریں اور اپنی جیکب آباد کی بہنوں کی تقلید کرتے ہوئے کانفرنس میں شمولیت فرماویں۔ اور دیگر بہنوں کوبھی اغراض و مقاصد سے واقف کرتے ہوئے مستقبل کے روشن پہلو سے آگاہ کریں۔
جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد ،سندھ‘‘۔
صرف بلوچ نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لوگوں کے لیے’’ آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘‘ ایک نعمت تھی ۔ یہ ہمارے قومی افتخارات میں شاید سب سے بڑا افتخار ہے۔ یہ ایک مہذب وشائستہ انسانی تحریک کا آغاز تھی ۔ اس میں وقتی معاملات کے ساتھ ساتھ عالمگیر ابدی سچائیوں کو ہمارے لیے جمع کردیا گیا تھا ۔مثلاً یہ ہمیشہ سے ایک اہم سوال رہا ہے کہ ’’بلوچ قومی عوامی تحریک میں عورت کا سٹیٹس کیا ہو؟‘‘ ۔
ہماری پوری نسل اس بحث میں کھپتی رہی۔ تقریباًایک صدی گزر گئی یہ بحثیں کرتے کرتے۔ کاش ہماری قوم کو1932کی بلوچ کانفرنس کی روداد پہلے مل جاتی تو اس پوری بحث میں جانے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ ہمارے باصلاحیت اکابرین اُس زمانے میں ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے یہ معاملہ طے کرگئے تھے۔
’’البلوچ کے‘‘4دسمبر 1932کے شمارے میں ایک خاتون کی طرف سے دوسری خواتین کے لیے یہ اپیل شائع ہوئی ہے : ’’میری محترم ہمشیرو ۔ آپ آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد کے انعقاد کی نسبت مختلف اخبارات میں اعلانات ملاحظہ فرما چکی ہو۔ اس وقت جبکہ ہم اس اصول تعاون کو جس پر کاربند رہنے کے لیے ہمارے پاک مذہب کے بانی بابرکت قبلہ دوجہاں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، چھوڑ چکی ہیں ۔ اور تغافل میں رہ کر دائرہ تہذیب نسواں سے گر کر تنزل میں پڑ گئی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی ہمسایہ قوموں کی ترقی پر غور کریں اور اپنی بہبودی کی جدوجہد کرتے ہوئے دائرہ تہذیب میں رہ کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیویں۔ اس وقت جبکہ دنیا سے تاریکی کا پردہ اٹھ چکا ہے اور ہر جاروشنی کا علم ہے ۔ اور تمام قومیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میدانِ ترقی میں نہایت سرعت سے گامزن ہیں۔ ہمارے محترم برادران زعمائے بلوچستان نے اپنی قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے مردہ قوم کی فلاح وبہبودی اور راہِ مستقیم سوچنے کے لیے ’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس ‘‘کا اعلان فرمایا ہے۔ اور ہماری استدعا پر محترم ہمشیرگانِ وطن کو بھی مدعو کیا ہے اور بغیر فیس داخلہ کے شمولیت منظور فرمائی ہے ۔ نیز پردہ کا خاطر خواہ انتظام کیا ہے ۔ ان کی اس فراخدلی کے لیے ہم ممنون ہیں۔ اس لیے میں اپنی ہمشیرگانِ وطن مسلم وغیر مسلم کو اپنی ان پستیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا بیدار ہوجاؤ اور وقت کی قدر کرو۔ اس موقع کو غنیمت جان کر آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شمولیت فرما کر اپنی پستیوں کا علاج سوچ نکالو اور ہمسایہ قوم کی خواتین کی طرح اپنے بھائیوں کے دوش بہ دوش ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرو۔
مسز غلام حیدر مغل ، جیکب آباد

27دسمبر کو یہ کانفرنس منعقد ہوئی ۔ ہمیں اس میں کی جانے والی تقریریں تو نہ مل سکیں مگر اس میں منظور کردہ قرار دادیں ملیں۔
قرار دادیں کسی بھی جلسے اجلاس ، سمینار وغیرہ کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ سے لے کر کسی مقامی اجلاس تک یہی روایت ہے کہ قرار دادوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ چنانچہ خوش قسمتی ہے کہ ہماری قوم قرار دادوں جیسی بڑی دولت کی مالک ہے ۔ وہ بھی کسی عام اجلاس کی نہیں بلکہ ’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس ‘‘ کی قراردادوں کی۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچ کے قومی اعزازات میں 1932کی آل انڈیا کانفرنس کی قرار دادیں مہر گڑھ ، پرنسیس آف ہوپ، عظیم الشان بلوچ ساحل ، معدنی دولت اور آزادی کی جنگوں جتنی اہم ہیں۔اس چار روزہ کانفرنس کے اختتام پر جو 28قرار دادیں منظور ہوئی تھیں وہ سب کے سب مرد وزن دونوں کے لیے تھیں۔ البتہ اُن میں سے چھ تو الگ اور مخصوص طور پر عورتوں کے بارے میں تھیں ۔ ملا حظہ ہوں:
1۔یہ کانفرنس سیاہ کاری کے اس رواج کو بنظرِ نفرت دیکھتی ہے جس کے ذریعہ سے سیہ کار آدمی اور قاتل سے ان کی لڑکی یا بہن جبراً نکاح میں لی جاتی ہے۔لہذا یہ کانفرنس گورنمنٹ بلوچستان اور ریاستی کانفیڈریشن آف بلوچستان سے انسانیت کے مقدس نام پر اپیل کرتی ہے کہ آئندہ کسی معصوم لڑکی کو کسی فاحش آدمی کے جرائم کا شکارنہ بنایا جائے۔
2۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ سے استدعا کرتی ہے کہ وہ بلوچستان میں قحبہ خانہ (چکلہ) کو جو شرعاً اور اخلاقاً ایک سنگین اور مجرمانہ رواج ہے ، بند کیا جائے ۔
3۔یہ کانفرنس رسمِ لب اور ولور کو نہایت ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے بلوچ، افغان و بروہی وغیرہ اقوام بلوچستان سے امید کرتی ہے کہ اس حقیرو ذلیل رسم کو جتنی جلد ہوسکے منسوخ کردیں اور گورنمنٹ سے امید رکھتی ہے کہ وہ اس مذموم رسم کی انسداد کی تدابیر جلد از جلد عمل میں لائے گی۔
4۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ برٹش بلوچستان اور ریاستی کنفیڈریشن آف بلوچستان سے التجا کرتی ہے کہ وہ مہر بانی کرکے تعلیمِ نسواں کو اپنے اپنے علاقوں میں ترقی دیں اور ساتھ ہی قوم سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس طرف خاص توجہ مبذول فرمائے۔
5۔ یہ کانفرنس حکومت ہائے بلوچستان سے استدعا کرتی ہے کہ وہ عورتوں اور بیواؤں کو بطورِ ورثہ اشیائے خانگی کی طرح ایک شخص کی موت کے بعد اُس کے وارثوں کے حوالے کیے جانے کو قانوناً ممنوع قرار دے اور عورتوں کے حقوق زنا شوئی ، وراثت اور ترکہ بروئے شرعِ انور قائم کیے جائیں۔
6۔یہ کانفرنس ریاستہائے بلوچستان ، سندھ اور پنجاب سے درخواست کرتی ہے کہ بلوچوں کی اِس مذموم مراسم کو بند کرا دے جس کی رو سے لڑکیوں کی نسبت اُن کی پیدائش سے قبل قرار پائی ہے ۔

ٹھنڈے دل سے ذرا دوبارہ اِن قرار دادوں کو دیکھیے۔ اور پھر آپ بلوچوں کے آج کے کسی جلسے سمینار وغیرہ کی قرار دادیں بھی دیکھیے ۔ آپ حیران ہوں گے وہ لوگ ہم سے زیادہ روشن فکر اور جرات مند تھے ۔انہیں معروض کا کوئی بہانہ درپیش نہ تھا۔ وہ اپنے قومی فریضے کی ادائیگی میں کسی طرح کا پس وپیش نہیں کرتے تھے ۔
1932کانفرنس کے بعد بھی یوسف عزیز مگسی اور اُس کے ساتھی اپنے شعور کوارتقا دلاتے رہے ۔ یہ لوگ حتمی طور پر عورتوں کے انسانی جمہوری حقوق کے داعی تھے ۔ لندن سے اوائل 1935میںیوسف عزیز مگسی نے اپنے دوست اور سیاسی رفیق محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں یوں لکھا:
’’۔۔۔تمہاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ریش مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کو دنیا کا بدترین کھلونا بنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کرڈالا۔ خدا اُن سے سمجھے۔۔۔
’’حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے دماغوں کو ان امتیازوں( یعنی مرد وزن کے درمیان )کا اسیر دیکھتا ہوں۔۔۔
’’مگر امین ۔ یورپ کے متعلق آپ کے علمائے دین کی تمام رائیں غلط ،بخدا کہ غلط۔ یورپ بہت آزاد ہے ۔ آپ سے بازار میں ریسٹورینٹوں میں ،پارٹیوں میں آزادانہ عورتیں ملیں گی، باتیں کریں گی، کھیلیں گی، سنائیں گی اور رشتہ دار کوئی بھی دخل نہیں دیں گے۔ مگر اخلاقی لحاظ سے وہ برائی جو آگے درازریش حضرات اُس سے منسوب کرتے ہیں، ایک فیصد ی پائی جائے گی۔ یہاں کی عورت اپنی عصمت کی حفاظت آپ کے رسم ورواج کے مطابق پردہ اور تلوار بندوق کے ڈر کے ذریعہ نہیں کرتی ۔ اُن کا معیار کچھ اور ہے ۔ کاش کہ اس خط میں تفصیلات لکھ سکتا۔یہاں کی کنواری عورتیں اور وہ عورتیں جو شادی شدہ ہیں، عصمت کے معاملہ میں انتہائی بلند معیار پر ہیں‘‘۔
یوسف عزیز مگسی اس تقابلی جائزہ کے بعد یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے جائیں جو اُن کو بطورِ انسان ملنے چاہییں۔
’’ باقی رہا آپ کی ہندوستانی معاشرت کے مطابق وہ طبقہ جو ساز وسرود کے ساتھ اعلانیہ بازاروں میں عصمت فروشی کرتا ہے ، یہاں وہ ہے مگر مختلف رنگ میں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اُس رنگ میں جس سے دوسروں کو برائی کی ترغیب نہ مل سکے ۔ مگر بہت کم ، بہت کم ۔
’’ آپ حیران ہوں گے ، جب ایک کنواری یورپین لڑکی ایک دو بجے تک گھر سے باہر آپ کے ساتھ کسی پارک میں تنہا بیٹھی ہوئی ہے اور مختلف موضوعات پر بحث ہورہی ہے۔۔ ۔ ممکن ہے شعر و شاعری یا محبت وغیرہ پر ہی بحث ہو، ممکن ہے وہ آپ کے ساتھ اقرارِ محبت بھی کرے ۔ مگر کیا مجال ہے کہ ایسی رومانٹک فضا میں، یورپ کی زندہ کن فضامیں ، تنہائی ، نیم شب کا وقت، ایسے وقت میں بھی اس کا خیال ایک لمحے کے لیے بھی عصمت فروشی کی طرف منتقل ہو۔ اگر بیوقوفی سے آپ کا خیال اس طرف منتقل ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اپنا وقار، اپنی اخلاقی حالت کو اس کی نظروں میں مجروح کردیا ۔ یہ ہے یہاں کی اخلاقی حالت ۔ آپ کے مولویوں کی بنائی ہوئی عورت پردے میں رہے گی ، مرد کی شکل نہ دیکھ کر محض نظر کی جبریت پر عامل ہوگی، وہ مذہبی ، دیندار، نمازن کہلائے گی، مگر معاف فرمائیے گا کہ پچاس فیصدی ، جب ورثا کی غیر حاضری میںآ نکھ کا کوئی اشارہ ملے گا ، تو ہمہ تن خون ہو کربہہ جائے گی:
نکو رو تابِ مستوری ندارد
چودر بندی سراز روزن برآرد
’’ یہ ہے نتیجہ پابندیوں کا۔ جذبات و خیالات ، جو رسم و رواج کی پابندی سے راہ نہیں پاتے ، وہ عورت کو باغی ، عیاشی کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ وہ Day Dreamingمیں اوقات بسر کرتی ہے اور یہ دماغی عیاشی اس کے کیر کٹر کو بہت نازک او رناپائیدار بنا دیتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے کی، یا ذارا سی ترغیب کی دیر ہوتی ہے اور ورثا کی غیر حاضری کا موقع‘ بس پھر آپ جانتے ہیں۔
’’یہاں کی عورتیں ہر قسم کی آزادی سے بہرہ ور ہیں۔ مردوں سے کھیلتی ہیں، ننگی ٹانگیں رکھتے ہوئے بازار میں پھرتی ہیں ، دریاؤں میں تیرتی ہیں ، جس چیز کو اچھا سمجھتی ہیں ، انہیں خوف نہیں ہوتا کہ والدین مزاحم ہوں گے ، آزادانہ تعارف پیدا کر کے سیر کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں دماغی عیاشی کی اُس بد ترین شکل سے واسطہ نہیں پڑتا جیسا آپ کے علاقے میں، سمجھتی ہیں۔ عصمت کو صرف اُس کے لیے سمجھتی ہیں جوکہ ان کی زندگی کارفیق ہو، وہ بھی باقاعدہ نکاح کے بعد، پہلے نہیں۔ شاذ ونادر۔۔۔ ہاں! میں نے شاذ ونادرکہا اس لیے کہ محض نا تجربہ کار، مردوں کے وعدہِ شادی میں آکر عصمت پہلے ضائع کرتی ہیں ، مگر یہ معاملہ بہت کم ہے اور کم ہو رہا ہے ‘‘۔(1) ۔
یہ محض زور بیاں ، خالی خولی تقریریں نہ تھیں بلکہ اپنے نظریات پہ مصمم و مستحکم یوسف عزیز مگسی نے توحتی کہ اپنے وصیت نامے میں لکھا:
’’میری تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا نصف حصہ مساوی طریق پر میرے بھائی والدہ، بیوی ،اور منے سیف اللہ پر تقسیم ہونا چاہیے‘‘ (2)۔ مجھے اُس کے استعمال کردہ لفظ ’’مساوی ‘‘ پر زور دینا ہے۔۔۔اور مجھے یوسف عزیز مگسی کے 1935میں انتقال کے بعد سے آج تک اُن لوگوں کی لسٹ مرتب کرنی ہے جنہوں نے ایسی وصیت کی ہو۔ بھلا وہ کتنی طویل لسٹ ہوگی؟۔

حوالہ جات
۔1۔یوسف عزیز مگسی کے خطوط ۔ازیوسف عزیز مگسی چیئر 2017۔صفحہ 115تا118
۔2۔ یوسف عزیز مگسی کے خطوط ۔۔ صفحہ59

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے