قدرت کی انسان پر جو عنایات ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے انسان کو حافظے اور بھول دونوں نعمتوں سے نوازا گیا ہے ۔ اگر انسان کو حافظہ نہ ہوتا تو اس کا جینا جنجال ہوجاتا۔ اسی طرح اگر اسے بھولنے کی نعمت نصیب نہ ہو تب بھی اس کی زندگی زہر ہو جائے ۔ کیونکہ انسان اپنے دکھ تکلیف اور غم بُھلانہ سکے تو ہمیشہ ہر وقت اسے دردستاتے رہیں گے ۔ بقولِ شاعر :
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
محمد امین خان نے جب یہ جہان چھوڑا تو میں کافی دِن تک صدمے میں تھا ۔ اس کی باتیں بار بار یاد آتی رہیں اور آنکھوں کے بند بار بار ٹوٹتے رہے ۔
اس سے ملاقات بھی عجیب انداز سے ہوئی۔ سندھی ادبی بورڈ کے کام سے لاہور گیا تھا اور ’’لاہور ہوٹل‘‘ میں قیام کیا تھا۔ مغرب کا وقت تھا میں شہر سے کام کر کے واپس ہوا تو ہوٹل کے دروازے پہ ایک شخص کو کھڑے دیکھا۔ اس نے لمبی پٹھانوں والی شلوار ، قمیص ، صدری اور پٹھانوں والا چپل پہنا ہوا تھا۔ بدن میں پتلا ، قد میں لمبا ، ساٹھ کے پیٹے کا لگتا تھا، سفید لمبی داڑھی ناف تک ، کسی دوسرے آدمی سے سندھی میں بات کر رہا تھا۔
میں نے آگے بڑھ کر اسے ہاتھ دیا اور بولا ۔’’آپ محمد امین خان کھوسہ تو نہیں ہیں؟‘‘
’’جی ہوں، پر آپ کون ہیں؟‘‘
’’میں ربانی ہوں ‘‘
’’آپ نے مجھے کیسے پہچانا۔‘‘
’’ میں نے پیر حسام الدین راشدی اور شاہ صاحب جی ۔ ایم ۔ سید سے آپ کی کافی باتیں سُنی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں گزدر کے نیک ٹائی میں آپ نے ہاتھ ڈالے تھے نہ؟‘‘
وہ قہقہہ لگاکے ہنسنے لگا۔
’’مگر ہم پہلے ملے تو نہیں تھے ۔‘‘
’’نہ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم نے میری تصویر بھی نہیں دیکھی ہے؟‘‘
’’نہ‘‘
پھر آپ نے پہچاننے میں کمال کردیا ہے ۔
’’کمال کی کوئی بات نہیں ۔ میں نے سنا ہے مولانا عبیداللہ سندھی ایک دفعہ ریل میں لاہور آرہا تھا ۔ مولانا مودودی نے سوچا لاہور میں سٹیشن پہ کافی لوگ اِن سے ملنے آئیں گے ۔ اس لیے ایک سٹیشن آگے جاکر ریل کا انتظار کرنے لگا۔ ریل آئی تو گارڈ سے مولانا سندھی کے ڈبے کا پوچھ کر اندر داخل ہوا تو مولانا سندھی نے بولا۔’’اسلام علیکم مودودی صاحب‘‘ یہ سن کر حیران رہ گیا ۔ وعلیکم سلام کہہ کر مولانا سندھی سے مِلا اور پوچھا۔’’ حضرت آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟‘‘۔
مولانا سندھی نے بولا آپ کے مضامین پڑھے ہیں آپ کو دیکھنے سے محسوس کیا کہ وہ شخص آپ ہیں‘‘
’’ میں نے بھی ‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’ تو پھر آج سے میرے یارہو‘‘۔
اُس دن سے محمد امین کھوسہ سے میری یاری ہوگئی۔ یاری بھی ایسی جو ایک دفعہ خط لکھا کہ ’’آج تجھے یاد کر کے آنکھوں میں آنسو آئے ، زیادہ خود جانو‘‘۔
محمد امین خان ٹھل کی طرف رہتا تھا ۔ مگر ان کی یہ عادت ہوتی تھی کہ سال میں ایک دفعہ کراچی، ایک آدھ دفعہ لاہور یا ایک آدھ دفعہ راولپنڈی چکر پہ جاتا تھا۔ کچھ زمانے کے کام کچھ سیر وتفریح ۔میں ان دنوں حیدرآباد میں ہوتا تھا۔ چنانچہ محمد امین خان کراچی پہنچتے ہی مجھے تار کر تا تھا کہ ’’جلدی آؤ‘‘ ۔ قیام ہمیشہ ہوٹل میں کرتا تھا۔ اور سواری کے لیے ٹیکسی سارے دِن کے لیے کرایہ پہ رکھ لیتا تھا۔ چاہے باہر جائے یا نہ جائے موٹر سارا دِن ہوٹل کے دروازے پہ کھڑی ہوتی تھی۔ ہوٹل میں ایئر کنڈیشنڈ تھا اور کوشش کرتا کسی کونے پر ہو۔ کمرے کے ٹیبل پر تازہ اور خشک میوہ پلیٹوں میں رکھتا ۔ ایک تو دیکھنے سے آنکھوں کو فرحت دوسرا کمرے میں قدرتی خوشبو ۔ کراچی میں وہ اُن دنوں نیشنل سٹی ہوٹل میں رہتا تھا۔ کمرے میں دوپلنگ ہوتے تھے ۔ ایک پر خود اور دوسرے پر میں ۔ سارا دِن باتیں گزرے زمانے کی۔
محمد امین خان ویسے تو شاہ صاحب جی ایم سید، پیر حسام الدین راشدی اور شیخ عبدالمجید سندھی سے محبت کرتا تھا ۔ مگر انکا عشق دو اشخاص سے تھا۔ ایک مولاناعبیداللہ سندھی اور دوسرا خان بہادر شہید اللہ بخش سومرو سے ۔مولانا سندھی نے ایک مرتبہ اسے کہا’’ ہمارا خان آج نماز کی امامت کرے گا‘‘۔محمد امین خان نے یہ سرٹیفیکیٹ ایک ہزار دفعہ مجھے باربار سُنایا ۔ ایک دن گیا تو غُصے میں تھا۔ بولنے لگا۔’’ تو اُسے سمجھاتا نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔’’کس کو ؟‘‘ بولے۔’’مولانا قاسمی کو‘‘ ۔ میں نے کہا’’ خیر ؟‘‘ بولے کہ ’’ آج اس کے پاس گیا تو لگا مولانا سندھی سے اپنی محبت بیان کرنے ، اب بھلا کوئی ان سے پوچھے بابا مولانا سندھی میرا، میں مولانا سندھی کا۔ ابھی تک جیتا جاگتا بیٹھا ہوں تم کون ہوتے ہو مولانا سندھی کی محبت کے دعویدار ؟‘‘۔
بڑی مشکل سے میں نے اُسے ٹھنڈا کیا۔
خان بہادر اللہ بخش سومرو کو جتنا محمد امین یاد کرتا تھا اتناتو اس کی اولاد بھی اسے یاد نہیں کرتا تھا ۔ کہتا تھا۔’’سندھ کے مستقبل کا دستاویز اللہ بخش سومروکی خون سے لکھا ہوا ہے ۔ جب تک اسے نہیں پڑھا گیا تب تک دوسری سب باتیں بیکاررہیں‘‘۔
ایک دفعہ خان بہادر اللہ بخش سومرو کے ایک عزیز کو سکھر کے ڈپٹی کمشنر کے پاس نوکری دلانے کیلئے گیا۔ ڈی سی غیر سندھی تھا۔ نخرے کرنے لگا۔ محمد امین خان نے اُسے ڈانٹ پلائی۔ تم اُس شخص کے عزیز کو نوکری دینے سے انکار کر رہے ہو، جس نے تم جیسے سینکڑوں لڑکوں کو روزگار سے لگایا۔ڈی سی نے اُسی وقت اُسے آرڈر دیئے۔
محمد امین خان لوگوں کو خطاب دیتا تھا ۔ شاہ صاحب جی ایم سید کو ’’سیدِ اعظم ‘‘ پیر حسام الدین صاحب کو ’’ دانائے راز ‘‘ مولانا قاسمی صاحب کو ’’علم کا سمندر ‘‘ مجھے ’’ربانی میرالیڈر ‘‘ کا خطاب دیا۔ پیر علی محمد راشدی کو تمام مشکل خطاب دیا ۔ ایک دن اس کے پاس گیا تو پریشان بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا ’’خیر تو ہے؟‘‘بولا کہ راشدی کو فون کیا۔ ملاقات کا وقت مقرر کیا مگر بولے کہ خالی ہاتھ نہیں آنا ۔ نذرانہ لے کر آنا‘‘۔
میں نے کہا ’’تو نے اسے خطاب تو اچھا دیا ہے؟
بولے کہ ’’یہ جُدا بات ہے مگر اس سے تعلقات تو پرانے ہیں ‘‘۔ شام کو ملا تو بولے ’’ دو چار ہزار نزرانہ دے کر آیا ہوں‘‘
مرحوم راشدی صاحب کو شاباش ہو جو امین خان کھوسہ کی وفات پر جنگ اخبار میں نہایت خوبصورت مضمون لکھا اور اسے پیار سے یاد کیا۔
محمد امین خان نے خود کو بھی ایک خطاب دیا تھا ۔ ’’سندھی پرستی کا امام ‘‘ اس پر ایک غیر سندھی نے سخت بحث کیا مگر اُس نے خطاب تبدیل نہیں کیا۔ سندھ سے محبت اس کے خون میں سمایا ہوا تھا ۔ ون یونٹ کے زمانے میں لاہور میں لاہور ہوٹل میں قیام پذیر تھا۔ ون یونٹ کے گورنر سے ملاقات کا وقت لیا جب سیکریٹری کے کمرے میں انتظار کر کے تھک گیا تب سیکریٹری کو بولا کہ ۔ ’’شیر آیا ہے ۔ چوہے سے ملنے‘‘۔
سیکریٹری یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ اور جاکر گورنر کو بات بتائی۔ اس نے ایک دم اندر بُلایا۔ محمد امین خان کچھ بولے ہی بولے۔ اس سے پہلے گورنر بولنے لگا۔’’سندھ کا مسئلہ کیسے حال ہوگا؟‘‘
محمد امین خان کہا’’ جی ایم سید کی معرفت‘‘
اس نے پوچھا ۔ ’’ جی ایم سید کیسے راضی ہوگا؟‘‘
محمد امین خان نے کہا‘‘میری معرفت‘‘
اس نے کہا’’ آپ کیسے راضی ہونگے ؟‘‘
محمد امین خان بولے ۔ ’’اقتدار میں حصّہ دو‘‘
گورنر نے اقتدار میں توحصّہ نہیں دیا البتہ زمین کا بقایا مالیہ معاف کردیا ۔ لاہور ہی کا دوسرا واقعہ ہے ۔ وہ بھی لاہور ہوٹل میں قیام کیا ہوا تھا اور میں بھی۔ شام کو گیا تو دیکھا ایک نوجوان بیٹھا ہوا ہے ۔ باتیں کرتے ہوئے مجھ سے ون یونٹ کے متعلق سوال کیا۔ میں نے تیز جواب دیا ۔اس نے بحث شروع کی پھر میں نے جو ا س کی حالت کی وہ عمر بھر یاد رکھے گا۔ مزے کی بات یہ کہ محمد امین خان ویسے تو سارا وقت خاموش رہا مگر رک رک کے بحث کے درمیان کہتا۔’’میں نہ ون یونٹ کا موافق ہوں نہ مخالف۔آخر وہ نوجوان رخصت ہوا اور مجھے بولا ۔ ’’میں کل اپنا بزرگ لے کے آؤں گا آپ ان سے بحث کیجیے۔وہ چلا گیا تو محمد امین خان نے مجھ سے کہا’’ بخت والا۔ مجھ سے تو پوچھتے ، ایسے ہی بحث میں شروع ہوگئے ؟‘‘۔ کیوں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔’’وہ نوجوان سی ۔ آئی ۔ ڈی والوں کا آدمی تھا ۔میں ہوٹل میں اول فول بکتا رہتا ہوں وہ مجھ پر نظر رکھنے آتا ہے‘‘۔میں نے کہا۔’’تو نے مجھے پیشگی کیوں نہیں بتایا؟‘‘ بولا کہ ’’ میں تو بار بار کہتا رہا کہ میں تو ون یونٹ کا نہ موافق نہ مخالف، پھر بھی تو نہیں سمجھا۔‘‘ یہ کہہ کر قہقہے مارنے لگا۔
ایک دفعہ کراچی میں ایک ہوٹل میں دونوں ساتھ تھے۔ بولا رات کہیں بھی نہ جانا۔ میں نے الانا اور اس کی بیوی کی دعوت کی ہے ۔
رات کو مرحوم الانا صاحب اپنی بیوی کے ساتھ آئے ۔ واہ کی کچھری ہوئی ۔ان دنوں قائداعظم پہ کتاب لکھ رہا تھامگر مس فاطمہ جناح سے اس کے اختلاف ہوگئے تھے ۔ قائداعظم کے بچپن کے کئی قصّے سنائے ۔ بولے ۔’’ جب پیدا ہوا تو اس کی والدہ نے مَنت مانی تھی، کراچی سے کاٹھیاواڑ کی طرف پانلی ریاست میں اپنے آبائی گاؤں میں مقامی پیر کی مزار پر سر کے بال (جھنڈ) اتارنے کے لیے لے گئی۔ محترمہ نے ڈھائی سومیل کے سفر میں دو سومیل کشتی پر کیے اور پچاس میل سفر بیل گاڑی میں کیا۔ کس نے جانا خاتون صاحبہ کی گود میں جو معصوم بچہ ہے۔ وہ بڑا ہوکر ہندوستان کا ملک دو حصوں میں تقسیم کرے گا‘‘۔
محمد امین خان کے آخری دنوں میں بھی الانا صاحب ہی اس کے قریب تھا۔ مجھے تب پتہ چلا جب جوگی جہاں چھوڑچکا تھا۔ الانا صاحب نے بتایا کہ گردوں کی تکلیف کی وجہ سے گاؤں سے لاکر کراچی کے انکل سریا ہسپتال میں داخل کیا گیا ۔ ڈاکٹروں نے دستوری کارروائی کی ۔ گلو کوز کی بوتلیں چڑھائیں۔ پھر انجکشن پہ انجکشن مارنے لگے۔ غریب جب یہ عذاب جھیل کر تھکا تب ایک دن موقع دیکھ کر اسپتال کو چھوڑ دیا۔ پر ملک الموت پہلے سے ہی اس کے موت کا انتظام کرچکا تھا۔
ایک دفعہ میں نے زور دیا کہ حیاتی کا احوال قلمبند کرو۔ مشکلوں سے جاکر بات مان لی۔ بولا لکھنے کے لیے آدمی بھیج ۔ میں نے مہران کے نائب ایڈیٹر ناشاد کو اس کے پاس بھیجا ۔ اس کو کہنے لگا۔ ’’لڑکے بھاگ جا۔ میں عاشق صفت اور معشوق مزاج آدمی ہوں۔‘‘
محمد امین خان کھوسہ کی وفات سے سندھ کی تاریخ کا ایک باب پورا ہوا۔ اس کے تعلقات صرف سندھ میں ہی نہیں تھے ۔ بلوچستان میں بھی اس کے تعلقات تھے ۔ بھٹو مرحوم نے بلوچ سرداروں سے گفتگو کے لیے اُسے آگے کیا تھا۔
سندھ میں شروعاتی ہاری اور مزدور تحریکوں کا محمد امین خان ایک امام تھا۔ علی گڑھ سے پڑھ کر آیا تھا۔ جیسے سندھ پہنچا انگریزوں کے خلاف قومیت کا جھنڈا بلند کیا۔ اسی وجہ سے اس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ جس میں سخت زخمی ہوا۔ حیاتی تھی سوبچ گیا۔
خان بہادر اللہ بخش سومرو کو اس سے خاص لگاؤ تھا۔ محمد امین خان سندھ کی تاریخ کے کئی اہم راز سینے میں رکھ کر چلے گئے ۔
اس کی وفات کے بعد ایک دفعہ ادبی بورڈ کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا اس کے بھائی نے موٹر آفیس کے دروازے پر آکر رو کی۔ بولے ، کراچی سے حیدر آباد جارہا تھا۔ اچانک محمد امین خان کا آواز سُنا ۔ ’’ربانی سے ملتے جاؤ‘‘۔
میں نے آفس کے کمرے کی کھڑکی کھولی۔ راستے پر تیز دھوپ کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ کھڑکی بند کی تو محمد امین خان کا قہقہہ سُنا۔’’ربانی میرا لیڈر‘‘۔
گزرا زمانہ یاد آیا اور آنکھیں نم ہوگئیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے