عالیہ زندگی روٹی، کپڑا، مکان کے بغیر تو گزر جاتی ہے مگر عزتِ نفس مجروح ہو جائے تو یہی زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ کیا اب بھی تم سمجھتی ہو کہ تمھاری عزت باقی رہ گئی ہے؟ چھوڑ دو اس شخص کے پیچھے بھاگنا جو تمھیں روندتا ہے۔ تمھاری انا کو اپنے زیرِ اثر لانا چاہتا ہے۔ تم کو تومنافقت سے نفرت تھی نا؟اور اب یہ شخص اسی چہرے پر طمانچے مارتا ہے اور اسی پہ بوسے بھی؟ ٹوٹ جاؤ گی مگر ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔تم کیا سمجھتی ہو تم اس شخص کو زیر کر لوگی۔ یہ تمھارے آنسو محبت کے نہیں غصے کے ہیں جو تمھارے اندر ہی اندر آتش فشاں بنا ئے ہوئے ہیں۔ تم لاچارگی اور بے بسی کے باعث رو رہی ہو۔اگر تم اس شخص سے بدلہ لینے پر قادر ہوتی تو شاید تم کبھی بھی نا روتی۔
رومان کا تعلق جنس سے ہر گز نہیں ہے۔ مرد کے نزدیک محبت اور مہربانی کا تعلق چیزوں سے ہے۔ عالیہ تم نے کبھی minimum possible facilities پہ غور کیا ہے؟جنھیں عام اصطلاح میں فرائض کہتے ہیں۔ یہ شخص جس کے ساتھ تم رہتی ہویہ تم کو روٹی ، کپڑا اور مکان دیتا ہے۔روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ تو ایک حاکم ہی لگاتا ہے نا۔۔۔ رعایا کی اکثریت جیتنے کے لئے ۔۔۔؟! سمجھوتے کی زندگی، پچھتاوے کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔
عالیہ تم کمزور نہیں ہو۔ ہمیشہ تمھیں ایک مرد کے نام کی ضرورت کیوں رہتی ہے۔ کیا روٹی، کپڑا اور مکان کے لئے تم اپنی انا، اپنی عزتِ نفس بھی داؤ پر لگا دوگی۔ یہ معاشرہ ستر فیصد اپاہج ہے اور اس کی بے ساکھی مرد بنا ہوا ہے۔وہ زبردستی بے ساکھی بننے کو تیار ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ عورت کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤ ں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ جس دن عورت کو یہ معلوم ہو گیا ، سوچو، اس بے ساکھی کی جگہ باقی کہاں رہے گی۔ ہر موڑ پر، ہر چوراہے پربے ساکھی بننے کو تیار۔۔۔کبھی باپ کی صورت میں، کبھی بھائی ،کبھی بیٹے اور سب سے زیادہ شوہر کی صورت میں۔ اپاہج عورت ، اپاہج معاشرے کو جنم دیتی ہے۔ عورت کو ذہنی، جسمانی، معاشی، روحانی طور پر اپاہج بنا دیا گیا ہے تاکہ حاکم کی حاکمیت قائم رہے۔
بظاہر تو یہ منافقت زدہ معاشرہ مرد اور عورت کو گاڑی کے دو پہیے سمجھتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ ترازو کے دونو ں پلڑے بظاہر ایک سے نظر آتے ہیں مگر جب اس پر وزن رکھ دیا جائے تب اس کا تضاد سامنے آتا ہے۔ زندگی Balance ہوتی ہے اور جب زندگی میں کچھ رشتوں کا وزن شامل ہو جاتا ہے تو پلڑا اوپر نیچے ہو جاتا ہے اور وہی اصل حقیقت ہوتی ہے۔
عالیہ کیا تم سمجھتی ہو کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ اسے عزت ہی دے رہا ہوتا ہے یا ساری عمر کے لئے بے عزتی ہوتی رہتی ہے۔ تم کیا جواب دے سکتی ہو؟ ایک لاش آخر کیا جواب دے سکتی ہے؟ تم خود سے خفا ہو گئی ہو اور خود سے خفا ہونا پچھتاوا ہے۔ اور پچھتاوا موت ہے۔جب عالیہ گھر کی دہلیز پار کرنے لگی تو اس نے دیکھا کہ دنیا میں تو صرف دو ہی چیزیں بچی تھیں۔ وہ اور آنکھیں۔۔۔بھوکی ننگی ہوس زدہ آنکھیں۔۔۔کھوجتی کریدتی سوال کرتی آنکھیں۔۔۔ آنکھیں دعوت دیتی ہوئی۔۔۔ تحقیر زدہ۔۔۔چبھتی ہوئی۔۔۔ ٹٹولتی ہوئی۔۔۔ہر سمت آنکھیں ہی آنکھیں۔۔۔بے شمار آنکھیں۔۔۔اب وہ مصلوب تھی آنکھوں کی سُولی پر۔۔۔!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے