گوہر ملک 28فروری 2000میں ہم سے جدا ہوگئیں۔ لیکن وہ اپنے افسانوں میں اپنی یادوں میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ گوہر ملک 1938میں بلوچی زبان کے ملک الشعرا میر گل خان نصیر کے ہاں پیدا ہوئی ۔ گل خان نصیر کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ وہ دوسال کی عمر میں ہی پولیو جیسے موذی مرض کا شکار ہوگئی۔ جسمانی طور پر ہمیشہ کیلئے معذور ہوگئیں لیکن یہ بیماری ان کے ارادوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ وہ ایک نارمل انسان کی طرح جیتی رہیں۔
چونکہ میر گل خان نصیر تعلیم نسواں کے حق میں تھے ۔ انہوں نے اپنی بچیوں کو خود تعلیم دی۔
گوہر ملک اپنے والد کی طرح ذہین تھیں۔ ادب تخلیق کرتی رہیں۔
گوکہ انہوں نے صرف سات افسانے لکھے لیکن ان میں ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کی ایک تاریخ نظر آتی ہے ۔ بلوچی محاوروں کے ساتھ ساتھ طنزکی کاٹ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے افسانوں میں بلوچامنا تیلانک انت ،جنک ، سنٹ، بزور گوشدار، شامل ہیں جنہیں شاہ محمد مری نے اردو ترجمہ کر کے ان کی وفات کے بعد 2006میں کتابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
گوہر ملک نے جو تراجم کیے بلوچی میں ان میں آزاد تبیں غلام ،پیرانی، ناروائیں نواب شامل ہے ۔دو مضمون جن میں گوتم بدھ ، اور اپنے والد کی یادیں شامل ہیں لکھے۔گوہر ملک کو اپنے والد سے بے پناہ محبت تھی۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ ان کے مسودوں کو سینے سے لگائے رکھتی تھی۔ مجھے یاد ہے ۔ جب بولان میڈیکل کالج میں میرا ایڈمیشن ہوا میں کوئٹہ آئی ۔اور پھر ہاسٹل شفٹ ہوئی۔ ایک ویک اینڈ پہ گوہر ملک نے ہمیں گھر بلایا ۔ میں اور میری بڑی بہن جو BMCمیں ہی سیکنڈ ائیر کی طالبہ تھی۔ ان کے گھر گئے کھانے پینے کا دور چلا پھر باتوں ہی باتوں میں میر گل خان نصیر کی شاعری کی بات چلی ۔گوہر ملک کہنے لگی۔
’’ابو کے سارے رجسٹر اور ڈائریاں میں سینے سے لگائے رکھتی ہوں ۔ جو کچھ انہوں نے جیل میں لکھا ہے ۔ وہ سب ان کی اپنی لکھائی میں ہے۔ مجھے بہت پسند ہے ۔‘‘
ایک میں نے عبداللہ جان جمالدینی جنہیں میں ’’ناکو‘‘ کہتی ہوں ان کو انکار نہیں کرسکتی ۔ اُن کے بیٹے جیند خان کو دیا ہے ۔ اب ایک تمہیں دے رہی ہوں۔ کیونکہ تم بھی لکھاری ہو۔ میں نے کہا مجھے صرف اردو شاعری چاہیے ۔باقی سب تو میری والدہ کے پاس ہے۔ گوہر ملک نے اردو شاعری والی رجسٹر مجھے دیتے ہوئے کہا۔’’ دیکھو گمانا نہیں ہاسٹل میں خیال رکھنا ‘‘۔ میرے والد کی اپنی لکھائی ہے ۔ میرا خزانہ ہے ۔ اس کا خیال رکھنا خیر ان کو تسلی دے کر میں شام کو ہاسٹل آئی۔
تین دن بعد ڈاکٹر عطااللہ بزنجو ہاسٹل آیا۔ کہنے لگا کہ میں دادا ملک جان سے ملنے گیا تھا۔ انہوں نے تمہارے لیے پیغام دیا ہے ۔’’ مجھے رات کو نیند نہیں آتی اس رجسٹر کے بغیر ۔وہ جلدی لے آنا۔ بھول نہیں جانا‘‘۔
خیر اگلے ویک اینڈ پہ جب میں وہ رجسٹر لے گئی توگوہر ملک کی جاں میں جان آگئی۔
گوہر ملک ان کے والد پیار سے ملک جان کہتے تھے ۔ بعد میں وہ سب کی دادا ملک جان بن گئیں۔
اس دور میں ہمارے ہاں لڑکی کو گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ کشیدہ کاری بھی ضرور سکھائی جاتی۔ گوہر ملک جسمانی معذوری کی وجہ سے گھر کے کام کاج نہیں کرسکتی تھی۔ لیکن کشیدہ کاری میں اپنی مثال آپ تھیں۔ بہت خوبصورت اور نفیس کشیدہ کاری کرتی تھیں۔
سردیوں میں جب نوشکی آتے تھے۔ تو ہمارے خاندان کی ساری عورتیں ہر رات کو کھانے کے بعد ملک جان کی مجلس میں ان کے گھر جمع ہوتیں۔ دیر تک گپ شپ کی محفل جمتی رہتی۔ چلم (حُقہ) کادور چلتا ساتھ میں سبز چائے اور سیاہ چائے کی۔ دوپہر کو اگر ٹھنڈی ہوا نہ چلتی تو گوہر ملک اپنی لاٹھی سے سہارے لیے آہستہ آہستہ آتی اور میر عاقل خان کے گھر کے برآمدے میں چونکہ اچھی دھوپ پڑتی تھی۔ آکر وہاں بیٹھ جاتی۔ میری پھوپھی اور دوسری عورتیں آکر بیٹھ جاتیں۔کشیدہ کاری کرتیں کشیدہ کے مختلف ناموں دھاگوں کے رنگ اور قسموں پر بحث چلتی ۔ اکثر دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھاتے۔ جیسے ہی خنکی بڑھ جاتی۔ گوہر ملک پھر اپنی لاٹھی لے کر اپنے کمرے میں چلی جاتی اور کھانے کے بعد پھر عورتوں کے ساتھ محفل رہتی ۔
آج گوہر ملک بے غم والد کے رجسٹروں کے گم ہونے کے خوف سے آزاد ، والد کے پہلومیں سورہی ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے