ایسا لگتا ہے کہ کانفرنس کے منتظمین ،سرداروں کی شرکت کے بارے میں حتمی طور پرمایوس ہوتے جارہے تھے۔ اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ذرا سا کسی نے آنے کا عندیہ دیا تو کانفرنس والوں نے جھٹ اُسے اپنے اخبار ’’البلوچ‘‘ میں چھاپ دیا: ’’آج سردار بہادر سردار محمد بہرام خان تمندار ہڑی(لہڑی؟) آف بلوچستان کا مراسلہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی تائید وشمولیت کے لیے موصول ہو کر باعث بلند حوصلگی ہوا ۔ سردار بہادر کے یہ الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں کہ :
’’خدا وند تعالی سے التجا ہے کہ اس قوم کو جوتا ریکی میں ہے ، نیک راستہ پر لا کر اُن کو آئندہ حیات سے متمتع کرے ۔ کیونکہ آج کل ہماری قوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ امید ہے کہ ایک عمدہ راستہ نکل آئے گا۔ خدا اپنے بندوں کو توفیق دے‘‘
ہم امید کرتے ہیں کہ باقی سرداران وتمنداران بھی جلد تر اپنی شمولیت کا اعلان فرما کر اپنے آپ کو زندہ دل ثابت کریں گے‘‘ ۔
(جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس)‘‘
بلوچ کا کارواں کن کن مصائب میں رواں دواں رہاہے!!۔اب کونسا فرق آگیا ہے؟۔ وہی عوام الناس کا جہاں الگ اور سردار کانشیمن الگ۔

***
اگر آپ غور کریں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ صرف بلوچ نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لوگوں کے لیے آل انڈیا بلوچ کانفرنس ایک نعمت تھی ۔ جی ہاں عوامی اکٹھ اجتماع تو ہمیشہ سے ایک نعمت رہا ہے۔ اور آل انڈیا سطح کا چار دن تک چلنے والا ایک اجتماع تو واقعتا ایک نعمت تھی۔ بلوچ قاری اور محقق کی رسائی سے اب تک یہ ’’کانفرنس‘‘ دور تھی اس لیے اُسے اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ اس کی تاریخ کے بڑے بکسے میں اس کے لیے کیا کیا لعل وموتی موجود ہیں۔ جب علمی تحقیق اپنی بلوغت پہ پہنچے گی تو ہی معلوم ہوگا کہ بلوچ کانفرنس ہمارے افتخارات میں شاید سب سے بڑا افتخار ہے۔ یہ ایک مہذب وشائستہ جمہوری تحریک کا آغاز تھی ۔ جس میں وقتی معاملات کے ساتھ ساتھ عالمگیر ابدی سچائیوں کو ہمارے لیے جمع کردیا گیا تھا ۔
مثلاً یہ ہمیشہ سے ایک اہم سوال رہا ہے کہ ’’بلوچ عمومی قومی عوامی تحریک میں عورت کا سٹیٹس کیا ہو؟‘‘ ۔ہماری پوری نسل اس بحث میں کھپتی رہی۔ تقریباًایک صدی گزر گئی یہ بحثیں کرتے کرتے۔ مگر کاش ہماری قوم کو1932کی بلوچ کانفرنس کی روداد پہلے مل جاتی تو اس پوری بحث میں جانے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ ہمارے باصلاحیت اکابرین اُس زمانے میں یہ معاملہ ہمارے لیے طے کرگئے تھے۔’’البلوچ‘‘ کے4دسمبر 1932کے شمارے میں ایک خاتون کی طرف سے دوسری خواتین کے لیے یہ اپیل شائع ہوئی ہے :
’’میری محترم ہمشیرو ۔ آپ آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد کے انعقاد کی نسبت مختلف اخبارات میں اعلانات ملاحظہ فرما چکی ہو۔ اس وقت جبکہ ہم اس اصول تعاون کو جس پر کاربند رہنے کے لیے ہمارے پاک مذہب کے بانی بابرکت قبلہ دوجہاں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، چھوڑ چکی ہیں ۔ اور تغافل میں رہ کر دائرہ تہذیب نسواں سے گر کر تنزل میں پڑ گئی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی ہمسایہ قوموں کی ترقی پر غور کریں اور اپنی بہبودی کی جدوجہد کرتے ہوئے دائرہ تہذیب میں رہ کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیویں۔ اس وقت جبکہ دنیا سے تاریکی کا پردہ اٹھ چکا ہے اور ہر جاروشنی کا علم ہے ۔ اور تمام قومیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میدانِ ترقی میں نہایت سرعت سے گامزن ہیں۔ ہمارے محترم برادران زعمائے بلوچستان نے اپنی قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے مردہ قوم کی فلاح وبہبودی اور راہِ مستقیم سوچنے کے لیے ’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس ‘‘کا اعلان فرمایا ہے۔ اور ہماری استدعا پر محترم ہمشیرگانِ وطن کو بھی مدعو کیا ہے اور بغیر فیس داخلہ کے شمولیت منظور فرمائی ہے ۔ نیز پردہ کا خاطر خواہ انتظام کیا ہے ۔ ان کی اس فراخدلی کے لیے ہم ممنون ہیں۔ اس لیے میں اپنی ہمشیرگانِ وطن مسلم وغیر مسلم کو اپنی ان پستیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا بیدار ہوجاؤ اور وقت کی قدر کرو۔ اس موقع کو غنیمت جان کر آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شمولیت فرما کر اپنی پستیوں کا علاج سوچ نکالو اور ہمسایہ قوم کی خواتین کی طرح اپنے بھائیوں کے دوش بہ دوش ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرو۔
مسز غلام حیدر مغل ، جیکب آباد‘‘
***
لیکن اس کانفرنس کی تیاریوں کی روداد دیکھتے جائیے تو جابجا مایوسیاں، انکاریں ، استرداد اور خجالتیں منتظمین کا استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک رکاوٹ عبور کرو تو دوسری پھیل پھول کر سامنے موجود ہوتی ۔ ماوشما ہوتے تو کبھی کا تھک کر مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ۔ مگر یوسف مگسی تو کسی اور مٹی کا بنا ہوا تھا ۔ مایوسیاں ہم سے سوگنا زیادہ محسوس کرتا تھا، مگر آخر میں امید کی کوئی بات کہہ کر خود کو رواں رکھتا ۔ ایسا دل پسیج کررکھنے والا ایک مضمون ’’البلوچ ‘‘(4دسمبر 1932)میں مندرجہ ذیل عنوان کے ساتھ شائع ہوا:
نواب زادہ میر یوسف علی خان بلوچ کا اعلان
آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا مقصد
’’پرسوں شام کو یہاں پہنچا ہوں اور آج 3بجے جارہا ہوں۔ یہاں کے چالیس گھنٹوں کے قیام نے جو تاثرات مجھ پر ڈالے افسوس کہ وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔تین چار معزز بلوچ زمینداروں سے میری ملاقات ہوئی ۔ اور بلوچ کانفرنس کے متعلق گفتگو بھی ہوئی۔ مگر نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ۔ کہ یہ:
درمسلماں شان محبوبی نماند
خالدو فاروق وایوبی نماند
ان حضرات نے کانفرنس میں شرکت اور مدد کیلئے ایک ایسی مذموم شرط لگادی ہے جس کا قبول کرنا کسی اسلام کے نام لیوا کیلئے تقریباً نا ممکن ہے ۔ اور اگر مصلحت اور ضرورت اُس کو ممکن بھی بنادے تو میرے اُس قسم کے بلوچ بھائیوں کی شرکت اور مددان کیلئے مذہبی اور سیاسی نقط نگاہ سے فائدہ مند بات نہیں ہوگی!۔
مجھ سے کہا گیا ہے کہ صاحب ڈپٹی کمشنر جیکب آباد جب تک کانفرنس کی معصومیت پر مہر تصدیق ثبت نہ کریں تب تک کمزور عقیدہ کے بلوچ زمیندار اس میں شریک ہونے سے اغراض کرتے رہیں گے ۔ کم ازکم میرے لیے تو یہ بالکل ایک نوکھی وغیر فطری سوال کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیا صاحب موصوف اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟۔
اس کانفرنس کا ایک اجلاس اس سے قبل ڈیرہ غازی خان میں ہوچکا ہے ۔ مگر وہاں نہ تو بلوچ بھائیوں نے شرکت کیلئے ایسی لایعنی شرط پیش کی تھی۔ اور نہ صاحبِ ضلع نے ایسی پوزیشن اختیار کرلی تھی جس سے پبلک کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوگیا ہو کہ افسرِ مجاز کانفرنس کے انعقاد کے حق میں نہیں۔ مگر میں حیران ہوں کہ یہاں ایسی حالت کیوں پیدا کی گئی ہے ۔ اُن چند معزز بلوچ زمینداروں کی حرکات اور گفتگو سے یہی پایا جاتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کانفرنس کے حق میں نہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کس حدتک واقعیت ہے ۔ بہر حال اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ صاحب ڈپٹی کمشنر نے صراحتاًکسی کو شرکت کانفرنس سے نہیں روکا۔تاہم یہ امر تو صاف روشن معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی حکومت کی پالیسی اس قدر سخت اور لرزہ انگیز ہے کہ ایک سوشل اور مذہبی کانفرنس میں شرکت کرنا بھی عوام کیلئے ناممکن ہوگیا ہے ۔ جب تک انہیں حکومت سے تسلی نہ ہو۔
اب میں جہاں صاحب ڈپٹی کمشنر سے اپنی پوزیشن نمایاں کرنے کو درخواست کروں گا وہاں بلوچ بھائیوں اور ان بھائیوں جن کے حقوق بلوچوں سے مشترک ہیں (یعنی بلوچ علاقوں کے تمام باشندوں) کے نام بھی میرا یہ پیغام ہے کہ۔
درست ہوجاؤ یا مٹ جاؤ
اس کے علاوہ اور کوئی بھی راہ نہیں ۔اگر تمہاری قوت ایمانی اور طاقت تمیز اس قدر پست ترین مقام پر پہنچ گئی ہے اور اس کا علاج ناممکن ہوگیا ہے تو تمہیں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اعتدال اور معقولیت کے ساتھ میدان میں آکر اپنے جائز اور فطری حق کا مطالبہ کرنا بھی صاحب ڈپٹی کمشنر کی اجازت شرط رکھتاہے اور ایسا نہ کرنا بغاوت میں داخل ہے ۔
بلوچو! اور بلوچستانیو! ۔اگر تم اس رشتہ کو جو تمہیں تمہارے خالق اور اُس کے رسول سے وابستہ کئے ہوئے ہے اور جس کا نام اسلام ہے ، توڑنا نہیں چاہیے ۔اور اگر تمہارے قلوب میں محمدؐ عربی ۔۔۔۔ کی غصہ میں ڈوبی ہوئی نگاہ کا ذرہ بھر بھی خوف ہے ۔ اور اگر تم دنیا کو اپنی ۔۔پست فطرتی کا مظاہرہ کر کے اپنے اوپر ہنسانا نہیں چاہتے تو تمہیں اس اجتماعی حیات کی دعوت پر لبیک کہنا ہوگا اور خود ساختہ تو ہم کی بے حقیقت زنجیروں کو توڑنا ہوگا۔ ہمارا مقصد صاف اور واضح ہے، یعنی معقولیت اور اعتدال کے ساتھ اپنی داخلی اصلاح کی سعی کرنا،رسومات قبیحہ کو ترک کرنا۔ اقتصادی بدحالی رفع کرنے کے ذرائع سوچنا ۔ بلوچوں کی تعلیمِ عام کی اشاعت کرنا۔ بلوچستان کو ہندوستان کے دیگر صوبجات کی سی آئینی حکومت دلانا ،گورنمنٹ کے قوانین کا (اسلام کے اندر رہ کر) احترام کرنا ۔اور اپنی پرانی روایات کے مطابق گورنمنٹ برطانیہ کا ہر حالت میں وفادار رہنا بشرطیکہ وہ وفاداری ہمارے اسلامی عقائد کے ساتھ متصادم نہ ہوتی ہو۔
اب اس کے بعد بھی اگر کوئی جاری تحریک کو خطرناک سمجھ کر شرکت سے احتراز کرے تو ہمیں ہمارے اللہ پر بھروسہ ہے اور وہ ہی بہترین رفیق ومدد گار ہے اور اُس کے بھروسہ پر ہی ہم اپنے مختصر مگر مضبوط دل کا رواں کو جادہ پیما کریں گے:
انماولی کم اللہ ورسولہ
تاتو بیدار شوی تاکہ کشید م ورنہ
عشق کاری است کہ بے آہ وفغاں نیز کنند‘‘

میں نے یوسف عزیز مگسی کی تحریروں کا جتنا بھی مطالعہ کیا ہے ، مجھے اس مضمون میں اُس کی ’’قطعیت‘‘ نے بہت متوجہ کیا ہے۔ جبراور حبس کے خلاف اس کا احتجاج پہلی بار اس قدر بلند آھنگ ہوا ہے ۔ شمس گردی کے بعد وہ عموماً سرکار اور اس کے اقدامات کا تذکرہ کیے بغیر اپنے عوام سے بات کرنے والا مصلح رہاتھا۔ ترازو کے سرکاری پلڑے کو سوتا چھوڑ کر عوام والے پلڑے کو بھاری بناتے رہنے کے سست رو اور تساہل النتائج کے غیر محسوس راستے پر چلتا جاتا۔
مگر یہاں اِس مضمون میں احتجاج احتیاط پر غلبہ پانے کی سعی کرتا نظر آتا ہے ۔ مضمون کے اندر ہی اسے اس کا خود احساس ہوجاتا ہے اور وہ آخری دوپیراگرافوں میں کفارے کے کچھ فقرے ڈال دیتا ہے ۔ جو کہ داؤ پیچ کے ماہر یوسف کی فن کار ی کی عظیم خاصیت ہے ۔ یہ خاصیت اُس کی فکری اولاد کو ورثے میں ملی ہے ۔ کاش کبھی بدل جائے معروض اور اس ورثے سے ہمیں نجات دلا دے ۔ اور ہم اپنی بات بلاواسطہ کہہ سکیں!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے