بالشویک انقلاب نے دنیا بھر کے آزادی پسند لوگوں کی طرح بلوچستان اور سندھ میں بھی برطانوی سامراج سے برسرِ پیکار آزادی کے متوالوں کی دلوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا جن میں سے کئی ایک نے تو براہ راست کمیونسٹ تحریک میں شمولیت اختیار کی جبکہ دیگرنے اس انقلاب کو اپنی آزادی کیلئے ایک روشن مثال کے طورپر اختیار کیا۔ زیرنظر مضمون میں ان علاقوں پر انقلاب کے ابتدائی پچیس سالوں(1918-1942)کے دوران ہونے والے اثرات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو 1918ء کے ابتدائی مہینوں کے دوران مغربی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے زربندی قبیلے کے افراد سردار کریم خان کی سربراہی میں انقلابی روس جاپہنچے اور ترکمانستان میں ردِ انقلاب ٹولوں کے خلاف ریڈآرمی کی کاروایوں میں شریک رہے۔ بعدازاں ان افراد کو مارو (MARV) نامی علاقے میں زمینیں الاٹ کی گئیں جہاں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کی۔ برطانوی جاسوسوں کی خفیہ رپورٹوں کے مطابق صفرخان بلوچ نے بھی اس ضمن میں سوویت حکومت اور سرخ فوج کی مدد کی۔انہی دنوں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک اوربلوچ نوجوان تارا چند بھی روس پہنچ گئے۔ انہوں نے بعدازاں ہندستان میں کمیونسٹ تحریک کی بنیاد اور پر چار میں کلیدی کردار ادا کیا۔
کمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب سے آذربائیجانی شہر باکو میں ستمبر 1920ء کے دوران منعقدہ ’’مشرقی ؑ عوام کی کانگریس‘‘کی اسٹینوگرافک کے رپورٹ کے مطابق کانگریس میں 14ہندستانیوں نے شرکت کی جبکہ اس کانگریس کے پانچ رکنی بلوچ وفد کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے ۔مصری خان کھیتران نے اس بلوچ وفد کی قیادت کی۔کانگریس نے دیگر مشرقی زبانوں کے علاوہ بلوچی زبان میں بھی کمیونسٹ لٹریچر کے ترجمے اور اشاعت کی منظوری دی۔
کانگریس کی جانب سے ہندستان میں کمیونسٹ تحریک کی بنیاد رکھنے کی غرض سے ہندستانی مندوبین کو اپنی کوششیں تیز کرنے کی اپیل کے بعد ہندستانی وفد کے سربراہ آچاریہ نے مصری خان کھیتران سے تفصیلی گفتگو کی۔ ابتداء میں کھیتران اس بنیاد پر ہندستان کی کمیونسٹ تحریک کی تشکیل کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھے کہ وہ بلوچستان کو ہندستان کا حصہ نہیں سمجھتے تھے تاہم تفصیلی بحث ومباحثہ کے بعد بلوچ وفد نے کابل جاکر اولین ہندستانی کمیونسٹ گروپ کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کی۔
۔1928ء میں اپنے سیاسی نظریات کو پروان چڑھانے کیلئے قلات ریاست کے کچھ تعلیم یافتہ سرکاری افسران مل بیٹھے اور ایک خفیہ گروپ تشکیل دیا۔ ریاست میں سیاسی سرگرمیوں پر ممانعت کے باعث انہوں نے کسی مناسب موقعہ کا انتظار کیا جو انہیں میر یوسف علی خان مگسی کی آمد کی صورت میں میسر ہوا۔جنہوں نے لاہور میں حصولِ تعلیم کے دوران برصغیر کی سیاست کا انتہائی قریبی مشاہدہ کیا تھا۔
۔17 نومبر 1929ء کو لاہورکے جریدے ھمدردمیں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’’فریادِ بلوچستان‘‘ میں انھوں نے اپنے لوگوں کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے برطانوی سامراج کو خوب لتاڑا اور بلوچوں کے اتحاد و تنظیم کو ان مصائب سے آزادی کاراستہ تجویز کیا۔لاہور سے واپسی پر ریاست قلات نے 17جولائی 1930ء کو انہیں سبی کے مقام سے گرفتار کرلیا اور ایک قبائلی جرگے کے ذریعے مقدمہ چلاکر ایک سال قید اور بیس ہزار روپے جرمانے کی سزا دیکر انہیں مستونگ جیل بھیج دیاگیا۔ 1931ء میں اپنی رہائی کے بعد ایک سال تک انہیں سرکاری جاسوسوں کی نگرانی میں رکھا گیا۔
اپنی آزادی کے کچھ عرصے بعد یوسف مگسی نے میر عبدالعزیز کرد، ملک فیض محمد ، محمد حسین عنقا ، نسیم تلوی، عبدالکریم شورش اور میر محمد اعظم شھوانی کے ساتھ مل کر مقامی سرکاری ملازمین کے حقوق کے تحفظ کیلئے 1920ء میں قائم شدہ تنظیم ’’ینگ بلوچ آرگنائزیشن‘‘ کو’’ انجمن اتحاد بلوچاں‘‘میں تبدیل کیا۔ سیکولر اور غیر قبائلی بنیادوں پر قائم ہونے والی اس پہلی منظم بلوچ سیاسی جماعت نے 20نومبر 1931ء کو ریاست قلات کے وزیر اعظم سرشمس شاہ کے مظالم کا کچا چٹھا ’’شمس گردی ‘‘ کے عنوان سے شائع کردہ ایک پمفلٹ کے ذریعے عالم آشکار کیا۔ یہ پمفلٹ میر عزیز کرد نے تحریر کیا تھا جنہیں گرفتار کرکے تین سال قید کی سزادی گئی ۔ حال ہی میں کوئٹہ سے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے یہ پمفلٹ ازسرِ نو شائع کیا ہے اور قارئین کو ستر اور اسی کی دھائیوں کے دوران مختلف کمیونسٹ گروپوں کے شائع کردہ پمفلٹوں کی یاد دلاتا ہے۔
اُسی سال یوسف مگسی اپنے قبیلے کے سردار بن گئے اور اپنے قبائلی وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ بلوچ قوم کی تنظیم سازی ، استحصالی طبقات کے خلاف آگہی اور تعلیم جیسی سماجی خدمات پر خرچ کرنے لگے۔یوسف مگسی نے اس دوران کئی ایک مطبوعات کراچی سے شائع کرائیں۔ 30اور 31مئی 1935ء کی درمیانی شب کوئٹہ میں آنے والے ہولناک زلزلے میں یوسف مگسی کی ہلاکت نے خطے سے ایک روشن خیال رہنما چھین لیا۔
انجمن اتحادِ بلوچاں نے 28تا30دسمبر 1932ء کو جیکب آباد میں ایک ’’بلوچستان اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘‘ منعقد کی، جسکی روئداد حال ہی میں ماہنامہ ’’سنگت‘‘ کوئٹہ اور بلوچستان یونیورسٹی میں قائم میریوسف مگسی چیئرنے دوبارہ شائع کی ہے۔ ایک سال بعد اسی نوعیت کی ایک اور کانفرنس حیدرآباد میں منعقد کی گئی۔ ان دونوں کانفرنسوں نے برطانوی سامراج سے آزادی کے ساتھ اپنے مقامی ایجنٹ سرداروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک مستقل مزاج جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا۔
اول الذکر کانفرنس کے دوران ہردن کے اختتام پر مختلف قراردادیں بھی منظور کی گئیں جنکی کل تعداد 49ہے۔ اس کانفرنس میں عورتوں کے حقوق سے متعلق بھی کئی ایک قراردادیں منظورکی گئیں جن میں کسی مرد کی جانب سے جرم کے ارتکاب کے ازالے کے طورپر رشتہ دار خاتون کو رشتے میں دینے کے عمل کو قابلِ نفرت اور قابلِ توہین قرار دینا بھی شامل ہے۔ کانفرنس نے عصمت فروشی کے مراکز بند کرنے اور عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کو عام کرنے کی بھی اپیل کی۔ کانفرنس نے خواتین کو ملکیتی اثاثوں میں جائز حصہ دینے کا مطالبہ کیا۔ اس کانفرنس نے سندھ میں مقیم بلوچوں کی تعلیم کیلئے سندھ حکومت سے خصوصی اقدامات کی بھی درخواست کی۔ کانفرنس نے قبل از پیدائش لڑکیوں کے رشتے طے کرنے کے خلاف حکومتی سطح پر قوانین بنانے کا مطالبہ کیا۔ کانفرنس نے زرعی محصولات میں 50فیصد تخفیف کا مطالبہ کیا۔ کانفرنس نے سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر فرنٹیئر ریگولیشن کا اطلاق منسوخ کرنے اور مقامی افراد کو ملازمتیں دینے کا مطالبہ دیا۔ کانفرنس نے بلوچستان میں صحت کی سہولیات میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔
بالشویک انقلاب ابتداء ہی سے سندھ کے سیاسی کارکنوں ، مزدور اور کسان طبقات اور دانشوروں کیلئے ایک مشعلِ راہ بن گیا۔ اسکی ایک ابتدائی جھلک ہمیں 1919ء میں روزنامہ ’’ہندو/ہندواسی‘‘ کے ایڈیٹر جیٹھمل پرسرام کی بغاوت کے مقدمے میں چار سال قید کے دوران تحریر کی گئی جیل ڈائری ’’ترنگ جوتیرتھ‘‘ میں جابجا ملتی ہے ،جس میں مصنف روس کے مظلوم مزدوروں اور کسانوں کی بغاوت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ، بعدازانقلاب مختلف اقوام کی آزادی کو ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
حیدرآباد سندھ سے شائع ہونے والے اس روزنامے میں 14جولائی 1920ء کو ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا جس میں کراچی میں بالشویک ازم کے اثرات کو ایک خواب کے ذریعے بیان کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس مضمون کے گمنام مصنف تحریر کرتے ہیں کہ اس خواب سے قبل انہوں نے کبھی بھی بالشویکوں سے متعلق نہ سُنا تھا اور نہ ہی پڑھا تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ حکومت اِن خراب لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے انکی مخالفت کررہی ہے تو وہ خوفزدہ ہوگیا۔ بالشویک حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کا کوئی تریاق حاصل کرنے کیلئے وہ کراچی کی جانب محو سفر ہوا۔
کنٹونمنٹ ریلوئے اسٹیشن پر میں نے ریل گاڑی کے پرانے ڈبوں، پٹریوں اور انجنوں کا ایک بہت بڑا انبار دیکھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شمالی مغربی ریلوے کی ملکیت ہے، جسے پیش قدمی کرنے والے بالشویکوں کے مصرف میں آنے سے روک تھام کی غرض سے ضائع کیا جارہا ہے۔ اگرچہ لفظ ’’بالشویک‘‘نے مجھے مضطرب کردیا تھا تاہم اس دانش مندانہ حکومتی اقدام سے مطمئن رہا۔ اسی وقت ایک ہوائی جہاز کی گنگھناہٹ سنائی دی، مجھے بتایا گیا کہ بالشویک فضائی راستے سے آرہے ہیں اور ہمارے جہاز فضاؤں میں ہی انہیں دبوچ لیں گے، میں نے مارے خوشی کے نعرہ تحسین بلند کیا اور کنٹونمنٹ کی جانب چل پڑا جہاں انتہائی سرگرمی دیکھنے میں آئی۔ دکانوں پر آویزاں اشتہاری بورڈوں پر تبدیلی کی جارہی تھی اور اِن پر جلی حروف میں تحریر کیا جارہا تھا کہ ’’یہاں پر اشیا لاگت کی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں ‘‘۔ ’’منافع کیا ہے؟ ہمیں کیا معلوم ‘‘ ۔’’یہ دکانیں افراد کی نہیں، ریاست کی ملکیت ہیں‘‘۔
اشیا انتہائی ارزاں قیمت پر فروخت ہورہی تھیں اور الفنسٹن اسٹریٹ کی آسمان چھونے والی قیمتیں غائب ہوچکی تھیں۔ لوگ کسی ریل پیل کے بغیر لاگت کی قیمت پر ایشا خرید رہے تھے۔ دیگر تبدیلیاں بھی واضح تھیں، میلے کچیلے کپڑوں میں نظریں جھکائے زندگی گزارنے والے ملازمین نئے کپڑوں میں ملبوس بااعتمادمٹرگشت کررہے تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انکے مالکان نے انہیں اپنے کپڑے دیتے ہوئے اعلانیہ کہا ہے کہ اب وہ انکے ملازمین نہیں بلکہ شراکت دار ہوں گے اور انکے ساتھ تعظیم سے برتاؤ کیا جائے گا۔ اسکول پہنچنے پر میں نے خاکروب، جولاھے اور مزدور بچوں کا ہجوم دیکھا جنہیں مفت تعلیم دی جارہی تھی، اور پڑھنے کو کتابیں اور پینے کو دودھ سرکارکی جانب سے فراہم کیے جارہے تھے۔ میں نے کئی لوگوں کو سینما گھرجاتے ہوئے دیکھا جن سے کوئی بھی ٹکٹ طلب نہیں کررہا تھا۔ محکمہ پولیس ختم کردیا گیا تھا اور تمام تراہلکاروں کو گھرروانہ کردیا گیا تھا ۔ شہر میں کسی کو درج کرانے کیلئے کوئی شکایت نہیں تھی۔ میں ایک ریل گاڑی میں سوار ہوا، جس پر مجھ سے کوئی ٹکٹ نہیں لیا گیا۔ بندرگاہ پر میں ایک کشتی میں سوار ہوا، جس پر ڈیلی گزیٹ اور سچائی کا عملہ بھی سوار تھا۔ ڈیلی گزٹ کے ایڈیٹر مجھے دیکھ کر چیخ اُٹھے کہ بالشویک آگئے ہیں اور وہ میرے لئے تکلیف کا باعث بنیں گے۔۔۔ کشتی نے سیٹی بجائی تو میری آنکھ کھل گئی‘‘۔
مصنف کے خواب، کی ایک تاریخی تبدیلی کا وعدہ یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوتا بلکہ اسکے حصول کیلئے آنے والے دنوں میں انگنت لوگوں کی محنت اور قربانیاں اس میں حصہ دار بنیں ۔
کچھ محققین کے مطابق نومبر 1919ء میں حکومتِ ہند کے محکمہ داخلہ کی جانب سے ہندستان بھر میں بالشویک نظریات کے پرچار کی روک تھام کیلئے جاری کئے گئے احکامات کی ایک بنیادی وجہ اس نوعیت کے مضامین کی اشاعت تھی ۔ مذکورہ حکم نامے کے تحت مرکزی حکومت نے بالشویک لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم پر پابندی عائد کی جبکہ اندرونِ اور بیرونِ ہند بالشویک سرگرمیوں پر نظررکھنے کی غرض سے خفیہ پولیس کو سیاسی برانچ میں خصوصی عملہ بھی بھرتی کیا گیا۔
جیٹھمل پرسرام نے 1926ء میں ’’سوشلزم -سامیہ واد‘‘ اور 1927ء میں ’’کارل مارکس کی سوانح عمری‘‘ کتابی صورت میں تحریرکئے اور حیدرآباد سے شائع کرائے۔
کارل مارکس کی سوانح عمری میں وہ قبل از مارکس سوشلسٹ تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے پیرس کمیون کی تعریف کرتے ہیں اور مارکس کی معرکۃ العلیٰ کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو کا مختصر تعارف بھی کراتے ہیں۔ وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی تعلیمات کے عین مطابق دنیا سے ایک دن دولتمند طبقے کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ وہ کارل مارکس کو ’’حیرت انگیز انسان ‘‘قراردیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انکی کئی ایک باتیں درست ثابت ہوچکی ہیں ، جن میں لینن کی قیادت میں روس کا حالیہ انقلاب بھی شامل ہے۔ معتدل مذہبی لوگوں کی طرح جیٹھمل پرسرام بھی دہرم کو سامیہ وار(سوشلزم) کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
اپنی کتاب ’’سوشلزم _سامیہ واد‘‘ کاذیلی عنوان ’’مل کرکھاؤ_سکھ پاؤ‘‘ تحریر کرتے ہوئے جیٹھمل پرسرام سوشلزم کا بنیادی ماخذ سنگت /اجتماع/مشترکہ بتاتے ہیں۔ خود کو سوشلسٹ بتاتے ہوئے وہ اپنے سوشلزم کی بنیاد مغرب کے بجائے پراچین یورب و دیامیں تلاش کرتے ہیں۔ وہ کچھ سال قبل ’’ملکیت ہے چوری ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک پمفلٹ کا ذکر کرتے ہیں جس پر رابندرناتھ ٹئگور کے علاوہ ایچ جی ویلس ، جارج برنارڈ شا، رومین رولینڈ نے بھی دستخط کیے تھے۔ وہ اس پمفلٹ کی تائید کرتے ہوئے شاہ لطیف سمیت دیگر ہندستانی صوفی شعرا کے حوالوں سے استحصال اور ملکیت کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں۔ اپنی کتاب میں مذہب کی جاری روش کو افیون قرار دیئے جانے کی تائید کرتے ہوئے وہ ملکیت پر ہرایک کے حق کی حمائت کرتے ہیں۔
سکھر بیراج کی تعمیر کے نتیجے میں زمین اور بالخصوص اس سے متعلقہ لوگوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سندھ کے کچھ تعلیم یافتہ اور سیاسی سوچ رکھنے والے افراد نے 12جوالائی 1930ء کو میرپورخاص میں ایک اجلاس منعقد کیا۔ جی ایم سید استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین تھے جبکہ جمشید مھتانے اس اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس نے ’’سندھ ھاری (کسان) ایسوسی ایشن ‘‘ قائم کی اور این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی کے مراٹھاپرنسپل گوکھلے کو صدر اور جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی اور جیٹھمل پر سرام کو سیکریٹری منتخب کیا۔
اجتماع کے دوسرے دن 6 قراردادیں منظورکی گئیں، جوکہ سندھ میں اُبھرنے والے طبقاتی شعور کی عکاس ہیں۔ انکے تحت(۱)سکھر بیراج کے تحت تمام ترسرکاری زمینیں آسان اقساط پر کسانوں کو الاٹ کی جائیں۔(۲)زمینداروں کے ہاں کام کرنے والے کسانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ٹیننسی ایکٹ نافذ کیا جائے۔(۳) بے زمین کسانوں کو ووٹ کا حق دیا جائے ۔(۴)حکومت دیہی علاقوں میں مفت اور لازمی تعلیم کا انتظام کرے جبکہ ان علاقوں میں تعلیم بالغان کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے ۔ (۵) کوآپریٹو ایکٹ اور اسکے ضوابط میں ترامیم کی جائیں تاکہ کسان آسانی کے ساتھ کوآپریٹو سوسائیٹیوں سے قرضہ جات حاصل کرسکیں اور (۶)سندھ میں ایک رھن(Mortgage)بنک قائم کیا جائے۔
فقیرمحمد منگریو، مولوی عبداللہ خان لغاری، حاجی خمیسو خاصخیلی اور کچھ دیگر کارکنان ایسوسی ایشن کے سرگرم کارکن کے طورپر سامنے آئے جنہوں نے اپنا تنظیمی پروگرام سندھ کے ہر کونے تک پہنچایا ۔ ایسوسی ایشن کے بانی اراکین اور سرگرم کارکنوں کی زیادہ ترتعداد براہ راست کسان طبقے سے نہیں تھی اور ابتدائی دورمیں انکی زیادہ تر توجہ جبری بے دخلی کے معاملے پررہی اور اکثروہ زمینداروں سے مذاکرات کے نتیجے میں بے دخل کیے گئے کسانوں کی بحالی میں کامیاب ہوجاتے تھے۔
تاہم جلدہی ایسوسی ایشن غیرسرگرم ہوگئی۔ مارکسی کارکن قادربخش نظامانی لکھتے ہیں کہ تین ہزار کسانوں کے رکنیت حاصل کرنے اور انکی جانب سے تقریباً پندرہ ہزارروپیہ فنڈ دیئے جانے کے باوجود ، ایسوسی ایشن کا زیادہ تر اثر رسوخ صحرائے تھر کے علاقے میں رہا۔ ایسوسی ایشن کا ایک بنیادی مقصد بیراج کی وجہ سے قابلِ کاشت ہونے والی زمین بہتر شرائط پر کسانوں کیلئے حاصل کرنا تھا تاہم کچھ چھوٹے زمیندار تنظیم میں شامل ہوگئے اور اس مہم کی قیادت کرتے ہوئے اپنے نام پر زمین الاٹ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
سکھر بیراج کی تعمیر کے نتیجے میں، 75لاکھ ایکٹر نئی زمین قابلِ کاشت ہوگئی اور آئندہ دس برسوں کے دوران اس نئی حاصل شدہ قابلِ کاشت زمین میں سے 15لاکھ ایکٹر زمین سندھ کے بڑے زمینداروں اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے کاشت کاروں کو ارزاں نرخوں پر فروخت کی گئی ۔ اگرچہ 93ہزارایکڑ زمین کسانوں کے لئے مختص تھی تاہم سخت ضوابط اور شرائط کی وجہ سے اس کا ایک انتہائی قلیل حصہ ہی کسانوں کو مل سکا اُن میں سے کئی ایک تو اقساط کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اپنی الاٹ شدہ زمین سے محروم ہوگئے اور انکی ادا شدہ رقومات بھی بحق سرکار ضبط کردی گئیں۔سکھر بیراج کی زمینیں بڑے زمینداروں کو الاٹ کیے جانے کے خلاف سندھ ھاری ایسوسی ایشن کے کچھ رہنماؤں بالخصوص قادر بخش نظامانی اور نور محمد پلیجو نے شدید احتجاج کیا جس کے ردعمل میں جی ایم سید اور انکے حمائتی ایسوسی ایشن سے مستعفی ہوگئے۔
بنیادی اھداف و مقاصد کی بنیاد پر ایسوسی ایشن کی از سر نو تنظیم سازی کی غرض سے جیٹھمل پرسرام اور کامریڈ غلام قادر نے 1936ء کے اواخر میں حیدرآباد کے قریب ٹنڈو جام میں ایک اجلاس منعقد کیا ۔ اس کانفرنس میں تنظیم کا نام تبدیل کرکے سندھ ھاری کمیٹی کرنے کے علاوہ کسانوں کی جانب سے دس مطالبات پیش کیے گئے جن میں سے سات اصلاح پسند تھے، دوکا تعلق کسان دشمن قوانین کے خاتمے اور جاگیرداری کے خاتمے سے متعلق تھا جبکہ آخری مطالبہ تمام سیاسی قیدیوں کی آزادی سے متعلق تھا ۔اسی سال سندھ ھاری کمیٹی نے اپنا تنظیمی ھیڈکواٹر سندھ کے مرکزی شہر حیدرآباد میں قائم کیا۔
سندھ میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی باضابطہ اتبدا ء 1919ء میں ہوئی جب کراچی اور سکھر میں پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف کا رکن اور ریلوے مزدور یونینوں /ایسوسی ایشنوں کے ذریعے منظم ہونا شروع ہوئے۔
انڈین نیشنل کانگریس کی تجویز پر اکتوبر 1920ء میں آل انڈیا ٹریڈیونین کانگریس (AITUC)کاتاسیسی اجلاس بمبئی میں منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والی ہندستان بھر کی کُل 107ٹریڈیونین تنظیموں میں سے کچھ کا تعلق سندھ سے تھا۔
سیاسی کارکنوں بالخصوص ٹریڈ یونین کارکنوں کے ایجی ٹیشن کے نتیجے میں حکومت نے مئی 1921سے صنعتی امور کا تمام تر ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا، جس کے تحت سندھ کے طول و عرض میں ہونے والی مزدور بے چینی ، احتجاج اور ہڑتالوں وغیرہ کے تفاصیل بمبئی لیبرگزٹ میں شائع ہونا شروع ہوئے۔ اس دوران لیبر ڈپارٹمنٹ نے24گھنٹے سے زائد کسی فیکٹری کی بندش اور دس سے زائد افراد کے اس میں فریق ہونے کو قانونی طورپر صنعتی تنازعہ قرار دیا تاہم تالہ بندی اور ہڑتال میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی، جس نے مزدور تنظیموں/یونینوں کو احتجاج پر مجبور کیا اور کراچی ، حیدرآباد ،کوٹری اور سکھر میں احتجاج ،مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔
اس دوران ہونے والی زیادہ تر مزدور ہڑتالیں سیاسی مطالبات کے گرد تھیں ۔ محنت کش طبقات کی سیاسی سرگرمیوں میں انتہائی تیزی براہ راست سوشلسٹ نظریات کے پھیلاؤ ، ابتدائی کمیونسٹ گروپوں کی تشکیل اور برطانوی تسلط کے خلاف عوامی جدوجہد سے جڑی ہوئی تھی ۔ ہندوستانی جلاوطنوں کی جانب سے 1920ء کی دھائی میں تاشقند میں قائم کردہ پہلے کمیونسٹ گروپ میں سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے جوکہ ابتدائی نظریاتی تربیت کے بعد واپس آ نا شروع ہوئے تو ان میں سے کئی ایک کو گرفتار کرلیا گیا تاہم کئی دیگر گرفتاری سے بچ کرروپوشی میں نظریے کی پرچار میں مصروف ہوگئے۔
۔1924ء میں کامریڈ جمال الدین بخاری کی کوششوں سے کراچی سی مین یونین قائم کی گئی ، بعدازاں یونین کی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کی غرض سے کامریڈ بخاری ھنسالائن شپنگ کمپنی میں بھرتی ہوگئے۔ کامریڈ بخاری 1925ء میں نارتھ ویسٹرن ریلویز ورکرز یونین کراچی ڈویژنل سیکریٹری منتخب ہوئے جبکہ کراچی ڈاکیارڈ اور کراچی ٹرام وے ورکرز یونین کی تشکیل میں بھی انکا کلیدی کردار رہا۔ کامریڈ جمال الدین بخاری بعدازاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیاسندھ برانچ کے سیکریٹری بھی رہے۔
مئی 1927ء کے دوران بمبئی میں منعقدہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی دوسری کانگریس کے فیصلوں کی روشنی میں سندھ ورکرز ایسوسی ایشن اور کراچی پورٹ ورکرز یونین قائم کی گئیں۔1920ء کے عشرے کے دوران سندھ میں اصلاحات پسند ٹریڈ یونین قیادت سامنے آئی تاہم فروری 1928ء میں سائمن کمیشن کی ہندستان آمد کے خلاف کراچی، سکھر، حیدرآباد،شکارپور اور دیگر شہروں میں احتجاج نے مزدور قیادت مکمل طورپر کمیونسٹوں کے سپرد کردی۔
۔30 مارچ 1931ء کوترقی پسند آل انڈیا مزدور کسان پارٹی کا ایک کُل ہنداجلاس کراچی میں دسوندا سنگھ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں بمبئی اور بنگال کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔
کمیونسٹ قیادت کے زیراثرسندھ کے محنت کشوں نے 1934ء میں غیر ملکی ملکیت کے تحت فیکٹریوں کو قومی ملکیت میں لینے کے مطالبے پرایک تحریک شروع کی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے