بادشاہی قصہ

ایک تھابادشاہ۔ اصل بادشاہ تو خدا کی ذات ہے باقی تو محض اپنی زمین کے ٹکڑے کی بادشاہی کرتے ہیں ۔بادشاہ کی صرف ایک بیٹی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ بادشاہ اس سے بہت پیار کرتا تھا۔۔۔۔ روز بہت روز کم۔ بات ہوتی ہے لمحے میں ۔ وقت گزرتے ہیں دیرسے۔۔۔۔
خدا کے کام ایسے کہ بادشاہ کی بیٹی بہت بیمار پڑ گئی۔ حکیم ہوئے‘ طبیب ہوئے ‘پیر ہوئے‘فقیر ہوئے مگر وہ دوشیزہ بچی صحت یاب نہ ہوسکی۔ پورا ملک مایوسی کی تاریکی میں ڈوب گیا۔ بادشاہ زادی ہلدی کی طرح زرد پڑتی جاتی تھی۔ بادشاہ بہت افسردہ تھا۔ کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تھی ۔۔۔روز بہت روز کم۔ بات ہوتی ہے لمحے میں۔ وقت گزرتے ہیں دیرسے۔۔۔۔
قدرت رب کی کہ ایک سنیاسی راہ گیر شہر میں داخل ہوا۔ لوگوں سے اسے شہزادی کی بیماری کا معلوم ہوا۔ بادشاہ نے اسے تکریم سے طلب کیا اور شہزادی کا علاج کرنے کی درخواست کی۔۔۔ روز بہت روز کم ۔ بات ہو تی ہے لمحہ میں وقت گزرتے ہیں دیر سے۔۔۔۔
حکیم نے غور سے مریضہ کا معائنہ کیا ۔ اس نے بادشاہ کو بتایا کہ ’’ شہزادی کی بیماری بہت خطرناک ہے اور اس کا علاج ایک پھول ہے جس کے سونگھنے سے وہ تندرست ہوجائے گی ۔ یہ پھول جنوب کی جانب مل سکتا ہے‘‘۔ بہت خوش ہوا بادشاہ۔ حکیم کی جھولی بھر دی سونے چاندی سے اور منادی کرادی شہر میں کہ جو بھی مذکورہ پھول لاوے گا۔ شہزادی اسی سے بیاہ دی جائے گی۔۔۔۔ روز بہت روز کم ۔بات ہوتی ہے لمحے میں وقت گزرتے ہیں دیر سے۔
بے شمار نوجوان پھول لانے نکل پڑے۔ سب نے شہزادی کے حسن کا سن رکھا تھا۔ بادشاہ پر امید تھا۔ رعایا دعاگو تھی۔ خود شہزادی روز بروز کمزور ہوتی جارہی تھی۔ روز خدا کے گزرتے گئے۔ پھول لے کر کوئی نہ لوٹا۔۔۔ ۔ روز بہت روز کم۔ بات ہوتی ہے لمحے میں وقت گزرتے ہیں دیر سے ۔
ایک نوجوان چرواہا شہزادی کے حصول کی تمنا لئے سمت جنوب کے روانہ ہوا گیا۔ منزلیں چیرتا ہوا ۔ نہ دن آرام نہ رات چین۔ پری چہرہ شہزادی کے حصول کی آرزو لئے تین دن تین راتیں مسلسل چلتا گیا۔ چوتھے روز چرواہا کیا دیکھتا ہے کہ سبحان تیری قدرت!۔ پہاڑ کے دامن میں ایک آگ جل رہی ہے جس کا ایک سرا ہے آسمان تک اور دوسرا زمین پہ۔ آگ کے قریب ایک بوڑھا بیٹھا تھا۔ آنکھیں جس کی بند تھیں۔ تسبیح اس کی ٹک ٹک کرتی جاتی تھی۔ اس کی داڑھی زمین کو چھورہی تھی۔ چرواہے نے قریب آکر ادب سے کہا’’ سلامالیک پخیر بابو‘‘ فقیر نے کہا’’ اگر بابو نہ کہتا تو تیری بوٹیاں بھی نہ ملتیں۔ بابو کہہ کر جاں بخشی کمالی تو نے ۔مانگ کیا مانگتا ہے؟ ‘‘۔چرواہے نے ماجرا سنایا تو فقیر نے اپنی داڑھی کا ایک بال اکھاڑ کر اسے دے دیا اور مزید جنوب کی طرف جانے کی ہدایت کی:’’ وہاں میرا بھائی ملے گا۔ اسے میری داڑھی کا یہ بال دینا ۔ وہ تمہاری مدد کرے گا‘‘۔۔۔۔ روز بہت روز کم ۔ بات ہوتی ہے لمحے میں وقت گزرتے ہیں دیر سے ۔
چرواہا سلام کرکے چل پڑا ۔ دن رات منزلیں کاٹتا ہوا تیسرے دن ایک پہاڑ کے قریب پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ اسی طرح کی ایک آگ کے قریب ایک بوڑھا درویش ذکرِ خدا میں مصروف ہے۔ چروانے نے ادب سے کہا ’’ سلاما لیک پخیر بابو‘‘ فقیر نے کہا ’’ اگر بابو نہ کہتا تو تیری بوٹیاں بھی نہ ملتیں۔ مانگ کیا مانگتا ہے ؟‘‘۔ چرواہے نے درویش کے بھائی کی داڑھی کا بال اسے دیا اور اپنی بپتا سنائی۔ اس درویش نے بھی اپنی داڑھی سے ایک بال اکھاڑ کر اسے جنوب کی طرف تیسرے بھائی کے پاس بھیج دیا۔ ۔۔۔روز بہت روز کم۔ بات ہوتی ہے لمحے میں وقت گزرتے ہیں دیر سے۔
چرواہا پھر روانہ ہوا اور تین دن تین راتوں کے سفر کے بعد ایک پہاڑ کے دامن میں ذکر میں مصروف درویش کے پاس پہنچا۔ چرواہے نے ادب سے کہا’’ سلاما لیک پخیر بابو‘‘ فقیر نے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ہاتھ سے اپنے بھائی کی داڑھی کا بال لیا اور پوچھا’’ تم بھی پھول لینے آئے ہو؟‘‘ چرواہے نے اثبات میں جواب دیا تو فقیر بولا’’ بیٹا ۔ بہت سے نوجوان پھول لانے کی ضد میں اس غارمیں چلے تو گئے مگر واپس کوئی بھی لوٹ نہ سکا۔ تم اصرار نہ کرو۔ واپس چلے جاؤ ۔یہ کام بہت مشکل ہے۔ یہ بہت استقامت طلب مہم ہے۔ بہت توجہ بہت ریاضت چاہئیے اس کام میں‘‘ ۔چرواہا نہیں مانا۔ وہ فقیر کے پاؤں پڑ اورمدد کی التجا کی۔ ۔۔۔روز بہت روز کم۔ بات ہوتی ہے ‘ لمحے میں وقت گزرتے ہیں دیر سے ۔
فقیر اس کی بات ٹال نہ سکا۔ اسے غار کے دھانے لے جاکر اس سے کہا ’’ تمہار مطلوبہ پھول اسی غار کے آخر میں ہے۔ یہ تمہیں جلتے چراغ کی صورت نظر آئے گا ۔ مگر اس تک پہنچے میں کئی امتحانات سے گزرنا ہوگا۔ تمہیں جان کی بازی لگانی ہوگی۔ پہلی احتیاط تو کرنی ہوگی کہ تمہاری نظریں اسی منور شمع پر ہی مرکوز رہنی چاہئیں ۔ اگر اس پھول سے نظریں ہٹاؤ گے جان سے جاؤ گے۔ خود کو ڈھیلا چھوڑ کر‘ مزاج کو ٹھنڈا رکھ کر چلتے جانا۔ اس لئے کہ سو گز جانے کے بعد تم پہ یلغار کردیں گے بھیڑیے ‘خونخوار بھیڑیے۔ اگر تم ڈر گئے یا تمہاری توجہ روشنی پر سے ہٹ گئی تو پھر یہ تمہاری تکا بوٹی کریں گے۔ اور اگر تم ثابت قدم رہے ۔ خوفزدہ نہ ہوئے تویہ جادوئی مخلوق تمہیں کچھ نہ کہہ سکے گی۔ لیکن ان سے بخیر و عافیت گزر جانے کے بعد تم پر سانپ حملہ آور ہوں گے۔ یہ وحشتناک سانپ ہونگے۔ انکی پھنکار دل ہلا دیتی ہے اور بڑے بڑے بہادروں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے۔ تم نے اسی طرح روشنی پر توجہ اور نظر رکھنی ہوگی۔ وہاں سے آگے بڑھو گے تو اچانک شیر دھاڑے گا۔ وہ تم پہ حملہ آور ہوگا مگر تمہیں اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔اگر تم وہاں سے بھی بچ کر نکلے تو آگے تمہیں بہت حسین ‘ گل اندام اور پری چہرہ لڑکیاں ملیں گی۔ ہنستی گاتی اور ناچتی ہوئی لڑکیاں ۔ وہ روشنی سے تمہاری توجہ ہٹانے اور اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کریں گی۔ نازو ادا سے تمہاری توجہ اپنی طرف کرنے کے ہزار جتن کریں گی ۔ وہ اس فن میں بہت ماہر ہوں گی۔ مگر خبردار ان کی طرف متوجہ نہ ہونا ۔ جو نوجوان بھی اپنی حسین منزل کو ان حسیناؤں کی خاطر ایک لمحے کے لئے بھول جاتا ہے موت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ تم بس اس روشنی کو دیکھتے جاؤ۔اسی پر توجہ مرکوز رکھو۔ آنکھیں روشنی پر ٹکائے چلتے جاؤ ۔ چلتے جاؤ۔ جو نہی تم اس روشنی کو چھوؤگے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ تو وہی پھول ہے جس کی تمہیں تلاش تھی۔ جس کے حصول ہی سے تم اپنے ارمانوں کی مرکز اور اپنی محبوبہ کو حاصل کر پاؤگے۔۔۔۔ روز بہت روز کم ۔ بات ہوتی ہے لمحے میں ۔ وقت گزرتے ہیں دیر سے۔
چرواہے نے درویش کے پیر چھولئے اور اللہ کا نام لے کر غارمیں داخل ہوا۔ اسے واقعی بہت دور روشنی نظر آئی اور وہ اس پہ نظریں جمائے‘ توجہ مرکوز کئے۔ استقلال سے اس کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ ابھی وہ سو گز ہی چلاہوگا کہ اسے محسوس ہوا جیسے پوری دنیا کے بھیڑیے اس پہ جھپٹ پڑے ہوں مگراس نے اُن پرتوجہ نہ دی۔ روشنی کی تلاش ۔ لہٰذا اسی پہ آنکھیں مرکوز کئے وہ آگے بڑھتا گیا۔ ذرا آگے گیا ہو گا کہ زہریلے ناگ اس پر جھپٹ پڑے ۔ انکی پھنکار رونگھٹے کھڑے کردیتی تھی۔ مگر چرواہا درویش کی ہدایت کے مطابق ان سے خوفزدہ نہ ہوا‘ آگے ہی بڑھتا گیا۔ ذرا آگے گیا تو زہریلے ناگ اس پر جھپٹ پڑے ۔ اُن کی پھنکار رونگھٹے کھڑے کر دیتی تھی ۔ مگر چرواہا درویش کی ہدایت کے مطابق ان سے خوفزدہ نہ ہوا اور آگے ہی بڑھتا گیا۔ چرواہا کچھ دور گیا ہو گا کہ شیر کی ہیبت ناک آواز سے سارا ماحول لرز اٹھا ۔ لگتا تھا جیسے ببر شیر اسے زندہ نگل لے گا۔ خاموشی اور گھپ اندھیرے میں اس کی دھاڑ کی گونجیں دل ہلا کر رکھتی تھیں۔ مگر چرواہا تو جیسے کچھ دیکھ اور سن نہ سکتا ہو۔ آنکھیں اپنے حسین مستقبل پر‘ اور قدم اعتماد سے بڑھاتے ہوئے چلتا رہا۔ شہزادی کے حصول کی آرزو میں یہاں آنے والے دیگر ہزاروں جوانوں کی لاشوں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا وہ اپنی منزل کے قریب ہوتا گیا۔ تب اسے گھنگھروؤں کی جھنکار‘ چوڑیوں کی کھنک سنائی دی۔ نوجوانی کی مہک حواس پہ قبضہ کیے جاتی تھی۔ حسن کی دیویاں تھیں جو چاروں طرف سے ناچتی ‘ گاتی نوجوان چرواہے پر یلغار کررہی تھیں مگر یہ ناچتی۔ قہقہے لگاتی اور گاتی ہوئی جوانیاں اس کی منزل تو نہ تھیں۔ اس کی منزل تو وہ پری پیکر تھی جس کے سامنے ساری وقتی خوشیاں ‘ سارا بناوٹی حسن اور ساری جادوئی نعمتیں ھیچ تھیں۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر، روشنی کی جانب بڑھتا گیا۔بڑھتا گیا اور پھر جھپٹ کر روشنی پکڑ لی۔ یہی وہ پھول تھا جو چراغ کی طرح روشنی بکھیرتا رہا۔ اسی پھول سے اسکے ہم وطنوں کی خوشیاں بندھی تھیں۔ پھول کو ہاتھ میں لیتے ہی سارا جادو ٹوٹا۔ خونخوار بھیڑیے‘ وحشتناک ناگ، مردم خور شیر، اور پری چہرہ حسینائیں ، سب کچھ غائب ہوچکا تھا۔ چرواہا پھول لے کر اپنے دیس آگیا ۔ شہزادی کو پھول سنگھایا گیا تووہ پھر سے کھِل اٹھی۔ اُس کی توانائی ‘ سارا حسن اور رعنائی لوٹ گئی ۔ وہ اپنے محسن کی بانہوں میں آگئی ۔ مسرور بادشاہ نے دھوم دھام سے انکی شادی کرائی۔ اور چرواہا اپنے ہنستے مسکراتے عوام کے بیچ دولہا بنے بیٹھا تھا۔
قصہ گیا آگ میں ۔ میں رہا باہر۔ کل صبح سویرے سرخ کپڑوں میں ملبوس خانہ بدوشوں کا قافلہ گزرے گا۔ تمہیں دکھاؤں گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے