یہ جیکب آباد ضلع کے کھوسہ بلوچوں میں ریش دراز ، عابد، صاحبِ دل، بلند ہمت ، معاملہ فہم، نصف گوشہ نشین ، مخلص قومی کارکن ہے ۔ جس کا حال اور قال ، گفتگو اور فکر ، سیاسی نظریہ اور عمل اس قدر پراز معمہ اور مطلب بھرے ہوتے ہیں جس کے سمجھنے اور سلجھانے کا کام کم ہی کو پتہ ہوتا ہے ۔ گفتگو زیادہ ، پلے پڑنے ولا۔ معنے مختصر ،پہنچ کم ، دعویٰ بلند۔ اس کے کردار کی ایسی باتیں ہیں۔ جو مصروف لوگ، صاحبِ ثروت و اقتدار ، ترقی پسند نوجوانوں اور دقیانوسی مُلاؤں کو اس کی قربت سے مستفید ہونے سے مانع ہے ۔
میری اس سے واقفیت 1938سے ہوئی ۔ جب وہ میر زین الدین خان سُندرانڑیں کی وفات کی وجہ سے خالی اسمبلی نشست پر سردار شیر محمد بجارانڑیں کی مقابلہ میں کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر آیا تھا۔ اس نے 29مارچ 1938کو اسمبلی میں حلفِ وفاداری اٹھایا ۔ مرحوم اللہ بخش سومرو کا دورِ وزارت شروع ہوچکا تھا۔ یہ بھی جذباتی تھا اور میں بھی اس تپش میں جُھلسا ہوا تھا۔ اس کو بلوچ ہونے کے ناطے سید اور پیروں کے لیے عزت تھی ، لیکن بقول عبداللہ سندھی مرحوم ’’سید روحانیت اور سعادت کی وجہ سے بیشک عزت کے لائق تھے مگر سیاسی معاملہ فہمی میں ہمیشہ قاصر رہے ‘‘۔ چنانچہ اسے میرے سیاسی پختہ خیالی پر ابتداہی سے شکوک وشہبات تھے ۔
اتحاد پارٹی ،کانگریس اور ہندو انڈیپنڈنٹ پارٹی نے مشرکہ طور اللہ بخش وزارت قائم کی ۔ ان سب نے اپنے اپنے مقاصد اور مفاد کے لیے ان کی مدد کی تھی ۔ مجھے اللہ بخش کی گذشتہ روایات سے پوری واقفیت تھی ۔ لیکن باوجود ان کے میں نے اسے اسی جوانی میں وزارت کے لیے اس کی قابلیت ، پارلیمنٹری تجربے، غیر فرقہ وارانہ ذہنیت ، خوش اخلاقی اور ملنساری کی صفات کی وجہ سے منتخب کیا تھا۔میاں محمد امین نے کنِ صفات کی وجہ سے اُس کی مدد کی اُس کا اُسے پتہ ہوگا۔ اللہ بخش وزارت کو مسلمان ممبران کی اکثریت کی مخالف کا سامنا تھا۔ وہ مسلم پریس اور طبقے کے زیرِِ ِعتاب تھا۔ اس کے باوجود میں نے اس کے لیے یہ رائے قائم کی تھی کہ ملک اور قوم کی بھلائی کے کام جو پہلے کی وزارتیں سرانجام نہیں دے سکیں وہ کام اس کے ذریعے پورے کیے جائیں۔ میں انتہا پسند آئیڈ یلسٹ تھا۔ انتظامی دشواریوں اتحادیوں کے متضاد مفادات ، افسر شاہی کی سُستی اور قدامت پسند طریقوں، مسلم عوام کی خوابِ غفلت اور ان کے نمائندوں کی خود غرضی، حکومت پرستی اور بے اصولی کا مجھے کوئی پتہ نہیں تھا۔ ہندو آفیسر اور بھائی بند کلاس کے طبقاتی مفاد اور مسلم آفیسر اور عوام کے مفاد کے متضاد ہونے کا پورا احساس نہیں ہوا تھا ۔ میں نے اللہ بخش وزارت سے بلاتا خیر کے اس پروگرام پر عمل کروانا چاہا۔ جس کو سرانجام دینے میں درج بالا رکاوٹیں موجود تھیں۔ اللہ بخش کی ہو بہو یہ حالت تھی کہ :
میرے محبوب نے میرے ہاتھ باندھ کر پانی
میں پھینکا اور حکم یہ کہ ایک پلّوبھی گیلا نہ ہو (شاہ)۔
میں نے سخت گیری سے کام کیا ۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ آخر کار دومستقل مزاج طبیعتوں کا ٹکراؤ ہوگیا۔ میں وزارت کے انقلابی اصلاحی اقدامات کے جلد انجام دہی پہ بضد تھا۔ اللہ بخش مذکورہ بالا محدود دائر ے اور نامنا سب حالات کی وجہ سے میری مرضی کے موافق مقرر کیے پروگرام پر عمل نہ کرسکا۔ ایک طرف تجربے کی کمی دوسری طرف حالات کی مجبوری نمایاں طور پر نمودار ہوئیں۔ مزید مالیے کو ’’سلائیڈنگ سکیل‘‘کی بنیاد پر پارٹی کی اجازت کے بغیر نا فذ کر نے سے اُن ابتدائی اختلافات کو بڑھا کر نئی مخالفت کی صورت اختیار کرائی ۔ اُس نے مجھے غیر تجربہ کار اور ہوا میں اڑنے والا آئیڈیلسٹ سمجھ کر کانگریس، ہندو انڈ ینپڈنٹ پارٹی، مسلمان جاگیرداروں اور حکومتی طاقت کے بھروسے پر نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ مجھے اپنی جوش جوانی، جذبہ ایمانداری اور بے انتہا قوتِ عمل پر بھروسہ تھا۔ یہ حالت دیکھ کر رجعت پسند گروہ اور افراد جن کو وہ نکال کرنیا دور لایا تھا وہ واپس آکر میرے پشت پناہ ہوگئے ۔
باوجود اس کے، پہلے میں نے کانگریس ہائی کمان کو حالات درست کرنے کے لیے اپیل کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد ، سردار پٹیل کانگریس پارلیمنٹری بورڈ کے ممبر سندھ پہنچ گئے ۔
کانگریسی کارکن دو آراء میں بٹ گئے ۔ ایک میرے خیال کے ہوئے کہ مالیے کا سوال پارٹیوں کے منظوری تک ملتوی کیا جائے ۔ جاری احکامات منسوخ کیے جائیں۔ یا وزارت کو استعفیٰ دینا چاہیے ۔ سندھ سے مرحوم ڈاکٹر چوئت رام کادھڑا اور مولانا عبدالکلام آزاد اس رائے کے تھے۔دوسرا گروہ مرحوم رستم سدھوا اور محمد امین کھوسہ کا تھا جس کو سردار پٹیل کی حمایت حاصل تھی ۔ اس گروہ کا خیال تھاکہ میرے یوٹو پین پروگرام نا ممکن العمل تھے ۔ مالیے کے پاس کیے گئے احکامات منسوخ نہ ہوسکے ۔ اور اللہ بخش کی وزارت کا قیام آل انڈیا سیاسی مصلحتوں کی خاطر ضروری تھا۔ اختلافات بڑھتے گئے ۔ جوش اورغصے کی حالت میں دماغی توازن اعتدال پر نہیں رہ سکتا ۔ میں نے حالات کو درست کرنے کے خاطر نتائج کی پروا نہیں کی ۔ انہوں نے ایک ایماندار، با عمل اور اصول کے مجذوب کو مختلف وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا۔ حالات بگڑ تے گئے ۔سرزمین سندھ کا نگریس اور مسلم لیگ کے سیاسی اختلافات کا اکھاڑ ابنتاگیا ۔ کانگریسی گروہ کو عارضی کامیابی مل گئی ۔ اللہ بخش وزارت کو کچھ عرصہ کے لیے مہلت ملی ۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا ۔انہی اختلافات کی آڑ میں خلافِ توقع رجعت پسند، فرقہ پرست ، نفرت آمیز طاقتوں نے آکر ڈیرہ ڈالا۔ آخر میں حالات ہماری بس سے باہر نکل گئے ۔
نیک ارادوں کے باوجود غیر تجربہ کاری اور حالات کا صحیح اندازہ نہ کرنے کی وجہ سے سمجھ اور جذبہ کی قوتوں کا ٹکراؤ ہوگیا۔ جذبہ کامیاب ہوگیا۔ عقل کو شکست ہوئی ۔کانگریس کی جڑیں سندھ سے اکھڑ گئیں۔ الگ الگ راستے اور تقسیم کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
ان تمام گناہ ثواب کا کتنا حصہ مجھ پر اور برادرم محمد امین کھوسہ پر پڑے گا یہ فیصلہ مستقبل کے مورخین کو کرنا ہے ۔ یہ تاریخی حقائق اور حالات ہیں جس کے پس منظر میں مستقبل کے سوالات پر غور اور فکر کرنا ہے ۔
اُس وقت کھوسہ صاحب کے درج ذیل کارنامے اور سیاسی عقائد تھے :۔
۔1۔ مغربی سندھ اور بلوچستان کے پس ماندہ خطے میں سیاسی بیداری اور آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے دوسرے قومی کارکنان کے ساتھ اس نے محبِ وطن یوسف علی خان مگسی کے ساتھ مل کر کوشش کی ۔
۔2۔مسلم لیگ کے نظریے کو اتحاد اور آزادی ہند کے خلاف سمجھ کر اُس کی مخالفت کی۔
۔3۔ اس نے مرحوم اللہ بخش کو سندھ کی مقامی خود اختیاری کا علمبردار، فرقہ وارانہ اور نفرت والی پالیسی کا مخالف اور آل انڈیا سیاسی جھگڑوں کو سندھ کی سیاست میں گھسیٹنے کا مخالف سمجھ کر بے چون و چرا ، اس کی مدد کرنی شروع کی۔
۔4۔ اس نے سرزمین سندھ کواتحاد، امن اور ترقی انسانی کا پیغام رساں اور مشینری سمجھا ۔
۔5۔ اسی پیغام کی آخری اشاعت گاہ اس نے پیر صاحب بھر چونڈی کی درگاہ کو سمجھا تھا جس نے مولانا تاج محمد امروٹی اور مولانا عبیداللہ سندھی جیسے حریت کے دلدادے اور مستقل سیاسی کارکن پیدا کئے تھے ۔
۔6۔وہ خود کو مولانا عبیداللہ سندھی کی سیاسی اور مذہبی فکر کا صحیح وارث اور پورا ترجمان سمجھتا تھا ۔اس کے سوچ میں تعجب انگیز بات یہ تھی کہ اس نے بیک وقت مولانا عبدالکلام آزاد ، مولانا عبیداللہ سندھی اور علامہ شیخ محمد اقبال کے مختلف خیالات اور متضاد سوچوں میں یک رنگی دیکھی تھی۔بہر حال ، تقسیمِ برصغیر کے بعد کے حالات جو پیدا ہوئے ان حالات نے میاں محمد امین اور ہمیں پسِ پشت پھینک دیا۔ لیکن سیاسی حالات کی ناساز گاری کے باوجود قوتِ فکر اور جذبات کمزور نہیں ہوئے تھے ۔ میں نے ۔۔سیاسی میدان میں بقول شاہ عبدالطیف ؒ :۔
اکیلے ہی جاؤں گی اس برس پنھوں کی طرف
جستجو جاری رکھی ۔ اس نے زیادہ توجہ نئے حالات کا جائزہ لے کر کسی مستقل فکر کو حاصل کرنے پر دی ۔
۔تقسیم برصغیراور قیامِ پاکستان کے بعد کچھ واقعات رُونما ہوئے تھے مثلاً :۔
۔1۔ کراچی کو سندھ سے جُدا کر کے مرکزی حکومت کے ماتحت کیا گیا ۔ سندھیوں نے ا س کو موروثی ملکیت کے چھیننے اور غصب ہونے کے برابر سمجھا اور اس کی مخالفت کی۔ مجھے اس تحریک کا محرک سمجھ کر گاؤں میں نظر بند کیا گیا۔
۔2۔سندھ کی ہزاروں سالہ روایات ، اپنی سیاسی حیثیت ، اقتصادی مفاد اور ثقافتی ورثے کے باوجود زبردستی کچھ مخصوص مفادات اور طبقاتی ضروریات کی خاطر ختم کرکے اس کو ون یونٹ میں اٹکاتے وقت، پھر مجھے قید اور نظر بندی کے لیے منتخب کیا گیا۔
۔3۔ مارشل لاء لگنے کے بعد کچھ خُسروانہ مصلحت کے سبب پھر مجھے ساڑھے سات سال تک نظر بند کیا گیا۔
ان باتوں نے دور گاؤں میں بیٹھے گوشہ نشین ، سیاسی مخالف دوست کو جس طرح بے چین کیا اور صدمہ پہنچایا اس کا اظہار اس کے پانچ سو خطوط اور ڈھائی ہزار فل سکیپ اوراق کی صورت میں میرے پاس موجود ہے ، یہ خطوط اس کا میرے لیے جذبہِ محبت، اس کے سیاسی شعور اور احساس کا بین ثبوت ہیں۔
ان تمام خطوط میں اس نے جس عقیدت کا اظہار کیا ہے ۔ جن لفظوں سے ہمت افزائی کی ہے ۔ مجھے جس درجے پہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان کا ذرے برابر ، اپنے عیبوں ، خامیوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اظہار کرنا اپنے لیے ندامت ، شرمندگی اور خودثنائی کا باعث سمجھتے ہوئے گوشہ اختیار کرتاہوں۔ اور اسے غلوِ محبت میں مجذوبی گفتگو کے طعنے سے بچانے کے خاطر بیان نہیں کرتا ہوں۔ لیکن اس کا یہ جوش مجھ پر اثر کیے بغیر رہ نہیں سکا ہے ۔
دل ہے یہ سنگ وخشت تو نہیں، درد سے بھرنہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
میں نے اپنے ایام سیاست میں ناپختہ دماغی اور غیر معاملہ فہمی سے کئی غلطیاں کی ہوں گی۔ جب ایامِ رفتہ کی کارکردگی پر نظر کرتا ہوں تو سرندامت سے جھک جاتا ہے ۔
’’سچ کو دامن میں لیے ، شرم سے مرے جارہے ہیں‘‘جیسا حال ہے ۔ مگر اس سارے معاملے میں مجھے اگر کوئی بات حوصلہ دیتی تھی تو یہ تھی کہ میری ساری کارکردگی ، ہر موقع پر خود مطلبی، جاہ طلبی ،قوم فروشی، بزدلی اور بک جانے کی گند سے دُور ہی رہی ۔ اجتہادی اور معاملہ فہمی کی خطائیں کافی ہونگی۔ ممکن ہے ایسی غلطیاں کئی بزرگان دین اور اعلیٰ سیاستدانوں سے بھی سرز دہوئی ہوں ۔ مگر ان کی پاداش میں غیروں کو چھوڑ کر اپنوں کی سرد مہری کا غیر التفاتی برتاؤ اختیار ہوا، اس سزا کا حقدار نہیں تھا۔
خونے نہ کردہ ایم ، کسے رانہ کشتہ ایم
جرم ماہمیں است کہ عاشقِ تو گشتہ ایم!۔
اس تمام عرصہ کے دوران نہ کسی سندھی اخبار کو جرات ہوئی جو میرا نام لیں نہ جلسے میں میری نظر بندی پر قرار داد پاس کرنے کا کسی کو خیال پیدا ہوا۔ کافی جان پہچان والے دوست مجھ سے ملاقات کرنے ، بیماری کے وقت طبیعت پرسی کیلئے آنے، والدہ اور عزیزوں کے انتقال پر تعزیت کرنے کی جرات بھی نہیں کرسکے۔ کہیں حکمران طبقہ خبر ہونے پر ناراض نہ ہوجائے۔ سندھی میں کہاوت ہے۔’’ جس کے لیے مرے۔ اس نے جنازہ کو کاندھا نہیں دیا‘‘۔ کیا قصے بیان کروں ۔ ایک عزیز عملدار جو میر ذریعے ڈپٹی کلیکٹر کے درجے پر پہنچا تھا وہ ساڑھے سات سالوں میں، باوجود قریب ہونے کی بیماری کی حالت میں بھی طبیعت پُرسی کے لیے اس لیے نہیں آیا کہیں اس کا افسر ناراض نہ ہو۔ایک سندھی ضلعی آفسر نے غیر واجبی ڈھل (مالیہ ) لگادی ۔ اسے سبب دیکر اپیل کی گئی وہ بھی رد کردی ۔کمشنر کو اپیل کی گئی۔ جب تک فیصلہ ہو اس دوران مختیار کار کو بلا کر کہا ضبطی کی جائے ۔ ہماری حالت کا اسے معلوم تھا۔’’ آنیوں سے چاڑھیوں ڈتھ ڈیھانی سومرا‘‘۔
ایک دفعہ ڈاکٹر کی اجازت سے علاج کے لیے کراچی گیا۔ عین بیماری کے دوران چھٹی رد کر کے اسی عملدار نے گاؤں واپس آنے کے لیے مجبور کیا۔ صرف اس لیے کہ حکمران طبقے کے سامنے سُرخرو ہو۔ ایک سندھی ڈاکٹر نے میری والدہ کے علاج کے لیے آدھا گھنٹے کے لیے ہزار روپیہ فیس کا تقاضا کیا ۔ ان حالات میں جب ایک غیر سندھی ڈاکٹر سینکڑوں مرتبہ بنا اجرت کے خدمت کرنے کے لیے تیار ہو۔ ایک پیر طریقت نے باوجود اظہارِ محبت وعقیدت کے ، طبیعت پرسی کے لیے اس لیے میری پاس آنے سے انکار کیا کہ کہیں سی آئی ڈی رپورٹ کر کے اس کا سیاسی مستقبل خراب نہ کرے ۔
کیا بیان کریں ۔اس انتیسویں اندھیرے کے وقت میں ایک گوشہ نشین، سیاست میں ہمیشہ مخالف ، دور دراز فاصلے سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار میں، سیاست میں ہمیشہ مخالف ، دور دراز فاصلے سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار میں ہزار صفحات سیاہ کر کے بارگاہ الہٰی میں رو کر اپنی نیم شبی دعاؤں میں بھیجتا رہے۔نیند اور آرام خراب کر کے مجنوں والی آہیں بھرے ، کوئی معمولی بات تو نہیں۔ آج کل جب چاروں طرف خود مطلبی ، بزدلی ، فرض ناشناسی اور قوم فروشی کا بازار گرم ہے ۔ اس وقت ایک مخلص، بے لوث دوست کی دعا اور ہمت افزائی کوئی کم قیمت چیز تو نہیں۔ آج کل وفااور محبت نایاب ہوگئی ہیں اسی اثر، وفاداری اور اظہار عقیدت نے بمصداق’’ دلڑی ، گھر تہ گھراں ئے ‘‘کے مجھے اس کے طرف رجوع کیا تو اس میں کیا خطا تھی!۔
جز محبت ہر چہ بد دم ، سود در محشر نداشت
دین ودانش عرض کردم، کس بہ نیم جو نحواست
قیمتی چشم ترم را، قیمت کو ثر نداشت
اسی پس منظر سے اس وفادار دوست کی زندگی کا ذکر لکھ رہا ہوں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے