میں تمہیں نہ ملوں
یہاں تک کہ تم میرا چہرہ بھول جاو
میں تمہیں ملوں پھر سے
اْسی طرح
گم ہوچکی ہوئی

تم مجھے پھر سے پہلی بار دیکھو
اور نہ پہچانو
تم وہ نظم پھر سے کہو
اور تمہیں اپنی گذشتہ کوئی بھی کیفیت یاد نہ آئے

تم مجھے کھونے کے ڈر سے لرزنے لگو
اور میں تمھاری ہونے سے خوفزدہ ہوجاوں

مگر ایک ہی پل کا شور کرتا فاصلہ طے کرنے کے بعد
میں تمھاری اکتاہٹ کی آنکھوں میں ریت ڈالنے کا سوچ کر مسکرانے لگوں

جب ریت کے ڈھیر سے مْٹھی بھروں
تو تمھاری آنکھیں بند ہوچکی ہوں
مْٹھی سے ریت اڑنے لگے
اور میں تمہیں وہیں چھوڑ کر
شمالی ہوا کے ساتھ ساتھ چل پڑوں
وہ آخری صحرا ہوگا زمین پہ جہاں میری مْٹھی ریت سے خالی ہوگی
…اور تم اکتاہٹ سے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے