محوِسفر جنون کے ہیں ہم قدم سے ہم
اس طرح سْرخرو ہیں وفا کے عَلَم سے ہم

ہوتا ہے جانثاروں میں اپنا شمار بھی
پہنچے ہیں اس مقام پہ اپنے ہی دم سے ہم

تو لاکھ تفرقوں میں ہمیں بانٹ سْن مگر
انسانیت شعار ہیں اپنے دھرم سے ہم

آؤ کہ اب شروع کریں جنگ آخری
ہتھیار تم اٹھاؤ، زبان و قلم سے ہم

اب اس کی ایک راہ ہے راہِ انقلاب
تنگ آچْکے زمانے کے جو ر و ستم سے ہم

ہو جائیں جس سے اپنے دل و جان مطمئن
مانگیں گے کچھ نہ کچھ تو خدا یا صنم سے ہم

آتی نہیں ہے ہاتھ یونہی منزلِ مراد
بچ کر چلے زمانے کے نقشِ قدم سے ہم

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے