پاکستان میں کلچر کا محکمہ اب مرکز سے صوبوں کے پاس ہے۔ مگر بلوچستان کی صوبائی حکومت کے پاس کلچرل پالیسی نہیں ہے۔ جی ہاں،اُس چیز کے بارے میں حکومتِ بلوچستان کے پاس کوئی پالیسی نہیں جو زندگانی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
اوریہی حال ہماری سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے ۔
کلچر محض لباس کا نام نہیں ہے ، محض داڑھی مونچھ کی مخصوص ساخت وبرید نہیں ہے ۔ کلچر محض تفریح تک بھی محدود نہیں ۔ یہ فعلِ عیاشی کا نام بھی نہیں ہے ۔ کلچر سے مراد افزائشِ حسن یا عروجِ فن بھی نہیں ہے۔بلکہ یہ کسی قوم کی تشکیل وتعمیر کا بنیادی جزو ہے۔یہ قوم کی زندگی کا جوہراور اس کا سب سے اہم ذریعہ اظہار ہے ۔
کلچر قومی زندگی کا کوئی الگ تھلگ شعبہ نہیں ہے ۔بلکہ یہ معاشرے کے بودوباش کے ’’کُل ‘‘ کا نام ہے ۔ اس میں رہن سہن ، رسم ورواج ، آداب واخلاقیات ، لباس و زبان ، برتن وباورچی خانہ ، آلہ واوزار، الغرض معاشرے کی زندگانی کا سب ہی کاروبار شامل ہے ۔ دوسری طرف فن اورجمالیات کی ساری صورتیں بھی اس کا حصہ ہیں ۔مثلاًلٹریچر، ڈرامہ ،شاعری ، ٹی وی ، میوزک ، رقص ، فائن آرٹس ، فوٹوگرافی ، کیلی گرافی، ایکرو بیٹکس ، بیلے سنگنگ ، قصہ گوئی، فوک آرٹس اور ہر نوع کی ہنر مندی ۔
کلچر مکمل طور پرایک دنیاوی چیز ہے ۔ یہ کسی قوم سے مخصوص ہوتا ہے ۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کا کوئی کلچر نہ ہو، اور نہ ہی کوئی ایسا کلچر ملے گا جس کی کوئی قوم نہ ہو۔
کلچر شاونزم کی طرف جانے نہیں دیتا اِس لیے کہ سارے انسانوں اور ساری قوموں کے کلچر زمیں مندرجہ بالا چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ ہر قوم میں البتہ ،ان کی صورتیں اور تناسب الگ الگ ہوتا ہے ۔لہذا ہر کلچر میں ایسے اجزاموجود ہوتے ہیں جو بین الاقوامی ہیں اور ایسے بھی جو قومی ہیں۔
کلچر کوئی فطری اور پیدائشی صفت نہیں ہے بلکہ یہ ارادی اور تخلیقی عمل ہے ۔یہ یکایک وجود میں نہیں آتا۔ قوم کی مائتھالوجی سے کراکیسویں صدی تک کے ترقی یافتہ سماج تک کلچر کے پنپنے کے لیے ایک طویل تاریخی عمل درکار ہوتا ہے ۔ اس عمل کے دوران گروہ ،اور قبیلے، لسانی ،نسلی ،مذہبی یا جغرافیائی اشتراک واختلاط کے سبب سے، معتقدات اور تعلقات کے رشتے قبول کر لیتے ہیں۔
کلچر سارے جانداروں میں صرف انسان کا خاصہ ہے ۔جانوروں کا کوئی کلچر نہیں ہوتا۔اوریہی انسانی کلچرل ضرورتیں ہی انسانوں اور جانوروں میں فرق کرتی ہیں۔
انسانوں ہی کی طرح اُن کے کلچر کی بھی تاریخ ہوتی ہے۔ سائنس کی دریافتوں کی برکت سے اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اِس وقت تک دریافت شدہ سب سے قدیم کلچر مہر گڑھ کا تھا۔ اور چونکہ وہ سولائزیشن تباہ نہیں ہوئی تھی اس لیے آج کی ہماری نسل اُسی مہر گڑھ کی اولاد ہے ۔چنانچہ ’’مہر گڑھ کلچر ‘‘کے تسلسل میں معاشی اور اوزاری ارتقا کے ساتھ ساتھ جو فطری تبدیلیاں آنی تھیں وہ ہمارے کلچر میں بھی آتی گئیں۔ مگر چوکھاٹ، زمین، جڑ، اور بنیاد ، وہی مہر گڑھ کا رہا۔جی ہاں کلچر ایک زندہ جاندار کی طرح خود کو بدلتا ، ڈھالتا اور فروغ دیتا رہتا ہے ۔ یہ کبھی جامد ساکت نہیں رہتا۔ ہردم ارتقاپذیر۔۔۔ اپنی گوڈی اور شاخ تراشی کرتا ہوا۔ خود کو ’’بہتر ‘‘ کے جذب کرنے کو تیار رکھتا ہوا، اور ناکارہ شدہ کو خود سے الگ کرتا ہوا۔
یوں ہمیں بلوچ کلچرکے گیارہ ہزار برس قبل تک کی ہسٹری کامعلوم ہے ۔ جی ہاں، مہر گڑھ جدید پتھریعنی neolithic کا عہد تھا۔وہ آبادی جب پیرک منتقل ہوئی توہم کانسی کے دور میں داخل ہوئے، اور پھر پیرک سے موہن جودڑو تک جاتے جاتے مہر گڑھ سولائزیشن لوہے کے دورمیں داخل ہوگئی ۔ اُس چھ ہزار سال میں پچھلے پیداواری رشتوں کے کئی کار آمد عناصر تو ساتھ ساتھ رہے مگر بے کار شدہ اشیا، الفاظ ، اور فائن آرٹس متروک ہوتی گئیں اور نئی تشکیل پاتی رہیں۔ اس درمیان میں اِدھرسے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر مہاجرتیں بھی ہوتی رہیں، حملہ آوروں اور تاجروں کی آمداوررفت بھی رہی۔ یوں اثرات کا لین دین ہوتا رہا۔اوریہی لین دین توکلچر کا آکسیجن ہوتا ہے۔کلچرل لین دین بند ہو تو صرف ایک سٹیٹ منٹ دی جاسکتی ہے :’’وہ آبادی تباہ ہوجاتی ہے‘‘۔یوں آج اکیسویں صدی کے پوسٹ ٹکنالوجی عہد میں دنیا بھر کے کلچر ز باہم بہت ہی قریب آگئیں ۔ مگر اس کے باوجود ہر کلچراپنی قومی خصوصیات کے فریم کے اندر سلامت وموجود ہے۔
بلوچ اپنے کلچر کا بالخصوص بھوکا ہے ۔اس کے کلچرل مظاہر میں ہر انسانی گروہ کی طرح زبان اور بولی سب سے اہم مظہر ہے ۔اور بلوچی زبان میں بھی سب سے ابتدائی ،سب سے نمایاں اور فنکارانہ کلچرل اظہار شاعری رہی ہے ۔بلوچ کو اپنی زبان اور شاعری سے بے حد محبت ہے۔ ہر قوم کی ساری شاعری سیاسی اور معاشی رہی ہے ۔ سبی اور گنداواہ کی برادر کشی کی ساری شاعری سیاسی اور معاشی ہے ۔ چاکر کے سبی سے نکلنے اور ست گھرا آباد ہونے تک کی ساری شاعری سیاسی اور معاشی ہے ۔ جام درک سے لے کر توکلی مست تک،اور پھر رحم علی سے لے کر مبارک قاضی تک ہماری ساری شاعری سیاسی ومعاشی ہے ۔اسی شاعری میں بلوچ تاریخ موجود ہوگی، قدرتی مناظر وواقعات ہیں، نیچرکی بشر دوستی کا تذکرہ ہے،اور اسی نیچر میں موجود حیات دشمنی ہے ۔حسن کے راحت بخش قصے قضیے ہیں ۔قبائلی معاملات وطبقاتی حقائق کا اظہار ہے۔ضرب الامثال واستعارات ہیں ۔ ۔ اور شعور وفکر کے بہتے چشمے ہیں۔ بلوچی شاعری زندگی سے وابستہ ہے ۔اور زندگی توایک سنجیدہ مظہر ہے ۔اس لیے بلوچی شاعری کبھی ہلکی ، بازاری اور ہوائی نہیں رہی ہے ۔
بلوچ اپنے ہر اکٹھ میں موسیقی کے ساتھ یا پھر بغیر موسیقی کے شاعری سناتے سنتے آرہے ہیں۔ نڑ سُر، بین یادونلی ، سریندا اورد مبیرو جہاں بھی چہکیں سمجھو بلوچی شاعری وہاں ضرور مہک رہی ہو گی ۔
شاعری ہے تو موسیقی ہے ، موسیقی ہو تور قص کیسے نہ ہوگا۔ میرا دعویٰ ہے کہ بلوچوں کا کوئی گاؤں ایسا نہ ہوگا۔ جہاں دور دراز سے ڈھول کی آواز سنائی دے اور ایک آدھ نوجوان پیدل ، گھوڑے پر ،یا موٹر سائیکل کے ذریعے اپنے تھر کتے پیروں کو شانت کرنے وہاں نہ پہنچیں۔
اسی مویشی بانی کے کلچر میں’’حال حوال‘‘ سننے سنانے کا باقاعدہ ادارہ موجود رہا ہے ۔راستے پر سفر کرنے والا مسافر ،دوسری طرف سے آنے والے مسافر یا پھر راستے کے قریب موجود خیمے یا چرتے ہوئے ریوڑ وں کے چرواہوں جیسے درجنوں لوگوں سے حال حوال کے تبادلے کا پابند ہوتاہے۔ اس طرح بارشوں، ٹڈی دل ، مال مویشی کی بیماریوں اور اُن کے نرخ وغیرہ کے علاوہ سردار، سرکار ، قبائلی جنگوں ،حادثوں اور دیگر سماجی سیاسی اور معاشی معاملات کے بارے میں طرفین ہمہ وقت باخبر رہتے ہیں۔چنانچہ کلچر عوامی معاشی سماجی سرگرمیوں کے مجموعے ہی کا نام ہے ۔
کلچر بذاتِ خوب آبادی وخوشحالی کا ذریعہ تو نہیں، مگر اِس کے بغیر ایک قوم کے قومی خزانے میں دولت بے لذت ہی رہتی ہے، زرمبادلہ برکت سے خالی ہوگا ، اور فصل کی پیداوار بڑھنے کا ایک اہم ترین جواز ختم ہوجائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کلچر کا صحیح مقصود قومی دل ودماغ کی تربیت اور شائستگی ،قوم ہونے کا بنیادی احساس ، اُس کی ’’روحِ رواں‘‘ کی بیداری اور آبیاری ہے۔
کوئی بدقسمت گھرانہ ہی رہا ہوگا جہاں کابزرگ اپنے گھرانے کی نئی نسل کو اپنا کلچر منتقل نہ کرتا ہو۔اور یہی روایت بلوچ کو اپنی زندگی گزارنے کی راہ منتخب کرنے کو خوراک مہیا کرتی ہے۔ ہمارے کلچر نے ہماری قوم کی فطرت اور قومی کردار کو مخصوص عظمت عطا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ ہمارے قومی مزاج اور قومی نفسیات پر ہمارے کلچر کا انتہائی گہرا اثر رہا ہے ۔
یہ دلچسپ ہے کہ طبقاتی سماج والے بلوچ کے ہاں شاعر توولی ہوتا ہے ، اوراُس کی تکریم ہر حال میں ضروری ہوتی ہے ۔ مگر کلچرل زندگانی کے دوسرے شعبوں سے وابستگان کا مقام اتنا بلند نہیں ہوتا۔(ایک بہت ہی منفی رجحان!)۔
بلوچی کلچر میں بلوچ زندگانی کی نصف یعنی عورت کے لئے قابل احترام جذبات نظر آتے تھے۔عورت ایک کامل فرد ہوا کرتی تھی ۔کوئی شکوہ ، شکایت ، کوئی تعصب اور کوئی اونچ نیچ نہیں رہتی تھی۔( آج معاملہ البتہ مختلف ہے )۔
زندگی کے گرد رقصاں ہمارے کلچر کا مزاج ہمارے بارانی اورخشکا بہ وطن کی مطابقت میں ہوتا ہے ۔ بارشیں ہوں توہم دنیا کے رنگین ترین تخلیقی لوگ بن جاتے ہیں ۔ بارشیں نہ ہوں توہماراپورا لہجہ قحط کے غم کی سیا ہ چادر تان لیتا جاتا ہے ۔ ایک کسان اور لائیوسٹاک والے معاشرے کا کلچر!۔
مگر جب آپ اکیسویں صدی میں ایک ریاست کے اندر رہتے ہیں تو وہ ریاست اپنے شہریوں کے لیے ’’ کلچرل پالیسی ‘‘بناتی ہے ۔ یہ کلچرل پالیسی اُس ریاست کے شہریوں کے کلچر کو محفوظ رکھنے، اُس کے ارتقا کے امکانات کو وسعت دینے اور اُس میں انسانی، حیاتیاتی اور ماحولیاتی بقا کے اجزا شامل ہوتے رہنے کی خصوصیات کو سہولتیں دینے کے لیے راہنمائی مہیا کرتی ہے ۔ آج دنیا کی کوئی ریاست ایسی نہیں جس کی کوئی کلچرل پالیسی نہ ہو۔
پاکستان کے اندر آئینی طور پر کلچر کا محکمہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ لہذا صوبے ہی اپنے عوام کی کلچرل سرگرمیوں اور اس کے مستقبل کو فطری اور مثبت سمت میں رواں رکھنے کی پالیسی بنانے کے ذمے دار ہیں۔ بلوچستان کی حکومت ابھی تک ایسا نہ کرسکی ۔ نہ ہی حکومت سے باہر سیاسی پارٹیاں ، ثقافتی یاادبی ادارے اس طرف توجہ دے سکے ہیں۔
اس لیے بلوچستان کے معاشرے کو اکیسویں صدی میں کلچر کے ہر شعبے سے متعلق بہت بحث شدہ متفقہ پایسی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں وژوئل آرٹس ، میوزک و دیگر پرفارمنگ آرٹس ، فولکور اور روایتی کلچر کو ترقی دینے کی پالیسی ڈرافٹ کرنی ہوگی۔ ہمیں آرکیالوجی کے مقامات کی حفاظت اور پروموشن کی پالیسی بنانی ہوگی۔ ہر ہر شعبے سے متعلق ڈاکو منٹیشن کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ہمیں دستیاب ہرا شاعتی ونشریاتی اوزار سے کلچر کی diversityکی اہمیت اجاگر کرنے کی پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں کرافٹس ، زبانوں ،کلچرل جگہوں کی ہمہ وقت حفاظت وآرائش پہ مبنی پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں انسان دوست اور زندگی کو بقا بخشنے کی کلچرل پالیسی تشکیل دینی ہوگی ۔ ہم اپنے دانشوروں،کلچرل تنظیموں ،اداروں سے اس طرف پہل کاری کرنے کی اپیل کرتے ہیں ۔ کلچرل پالیسی کی تشکیل ایک سنجیدہ اور وسیع البنیاد کاوش کا تقاضا کرتی ہے ۔ اِسے ایک فرد، ایک ڈائریکٹر ،یا چند بابوؤں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے