کتاب : ماؤزے تنگ
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 112
قیمت : 200 روپے
مبصر : عابدہ رحمان

بابا جان نے اب کی بار مجھے ایک بڑے سے خوب صورت باغ کی سیر پہ مائل کیا۔
میں اُن کے ساتھ جب اس باغ میں داخل ہوئی تو اس کا ہر منظر خیرہ کرنے دینے والا تھا۔ ہر طرف خوب صورت گھنے درخت اور پھول ہی پھول تھے۔اور ان سب کے بیچ بڑا سا گھنا برگد، جس کا گھنا سایہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔
ہم اس برگد کے نیچے بیٹھ گئے اور بابا جان نے مجھے چین کے انقلابی چیئرمین ماؤ کا قصہ سنانا شروع کیا:۔
’’1911ء میں جب بادشاہت کے خلاف بغاوت کا اعلان ہوا تو سن یات سین کی قیادت میں بادشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔تب ہی ماؤ تعلیم چھوڑ کر انقلابی فوج میں شامل ہوا تھا۔ ماؤ سٹڈی سرکلوں کا حصہ بن کر مارکسسٹ بن گیا۔ 1917ء کے روسی سوشلسٹ انقلاب سے چین کے انقلابی عوام نے مارکسزم اور لینن ازم کی روشنی لے کر1919ء کی طلبا تنظیم کی شمع جلائی اور چینی انقلاب کو روشنی بخشی جس میں ماؤ بھی شامل تھا۔پھر ماؤ نے ’ نیو پیپلز سٹڈی سوسائٹی‘ قائم کی جس میں موجود80 انقلابی طلبا بعد میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ماؤ نے ایک اورتنظیم ’ سوسائٹی فار ورک اینڈ سٹڈی‘ کے نام سے بنائی۔1919ء میں چاؤ کی خود کشی پر ماؤ نے 9 مضامین لکھے ۔ لڑکی کی خود کشی کو چینی شادی کے پدر سری نظام پر حملے کے لیے استعمال کیااور لڑکی کی موت کا ذمہ دار سماج کو ٹھہرایا۔ماؤ نے مارکسزم اور لینن ازم کا زبردست مطالعہ شروع کیا۔
اب بابا جان کی گفتگو کا رخ چین کے بڑے شہر شنگھائی کی طرف تھا ۔انھوں نے بتایا کہ یہ وہ شہر تھا جہاں 1921ء میں ماؤ نے13 دوسرے انقلابیوں سے مل کر کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس منعقد کی اور پارٹی قائم ہوئی۔عورتوں کے مساوی حقوق، عورتوں کو ووٹ کا حق، عورت مزدوروں کے لیے حفاظتی اقدامات اس کا منشورٹھہرے۔ جمہوری قوم پرست سن یات سین جو بادشاہت اور فیوڈل ازم سے نفرت کرتا تھا’ کومن تانگ‘ نامی پارٹی بنائی اور 1911ء میں چین کا صدر بن گیا۔ سن یات سن نے بورژوازی چینی سماج قائم کرنے کے شوق میں سرمایہ دار ملکوں سے امداد چاہی تو انھوں نے چین کو اپنے زیرِ اثر لانے کی کوشش شروع کر دی۔لیکن 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب کے بعد سن یات سن نے لینن سے امداد چاہی اور چین کی تعمیر کے لیے تین اصول یعنی مزدوروں کے حقوق کی بحالی ، جاگیرداری نظام کا خاتمہ اور سامراجی نظام سے نجات تھا۔ 1925ء میں سن یات سن کی وفات کے بعد کٹر کمیونسٹ دشمن جرنیل چیانگ کائی شیک صدر بن گیا، جس نے 1927ء میں کمیونسٹ پارٹی سے الحاق توڑ دیا۔اور سامراجی ملکوں سے مل کر اپریل 1927ء میں شنگھائی کمیونسٹوں کے گڑھ میں قتلِ عام کرایا۔چین در اصل تین رسیوں سیاسی اتھارٹی، مذہبی اتھارٹی اور برادری کی رسی میں بندھا ہوا تھا لیکن عورت ایک چوتھی رسی یعنی مردانہ اتھارٹی میں بھی بندھی ہوئی تھی۔1927ء میں ماؤ نے ہوتان کے کسانوں کو منظم کیا، مضامین لکھے، کمیونسٹ گوریلا یونٹوں کو منظم کیا۔جنرل مارشل جوتہہ بھی اپنی فوج کے ساتھ ماؤ کے ساتھ آملا۔ اس دوران ماؤ کی بیوی، چچا چچی کو قتل کیا گیا۔1931ء میں شہروں کا محاصرہ کر کے ز مینیں کسانوں میں تقسیم کی گئیں۔
کوئی لانگ مارچ بھی تو ہوا تھا ناں بابا جان؟ ۔میں نے پھولوں کو چھیڑتے ہوئے پوچھا ۔ ہاں انھوں نے کہا ،جب چیانگ کائی شیک نے کمیونسٹوں پرچار حملے کیے، لیکن پانچویں حملے پر9لاکھ کی فوج کے ساتھ ایک لاکھ 80 ہزار انقلابیوں اور رضا کاروں کے سرخ دستوں پر حملہ کیا توکمیونسٹوں نے بچنے کے لیے اپنا مرکز بدلنے کا فیصلہ کیا اور جنوبی چین سے شمال مغربی حصے میں منتقل ہونے لگے۔ 1934ء سے 1935ء میں کیا گیا یہ لانگ مارچ چھ ہزار میل پر محیط تھا۔90 ہزار انقلابی فوج میں 50 عورتیں تھیں۔ اس زمانے میں اقتصادی جرائم اور کمفرٹ وومن ’ جنسی غلامی‘ جیسی غلاظتیں بھی موجود تھیں۔
ماؤ کہتا ہے ’ لانگ مارچ تخم ریزی کی مشین ہے۔ اس نے گیارہ صوبوں میں بہت سے بیج بوئے ہیں جو پھوٹیں گے۔ ان سے پتے نکلیں گے ، پھول کھلیں گے اور وہ بارآور ہوں گے، اور آئندہ فصل دیں گے‘۔
1945ء میں سوویت یونین نے جاپان کو شکست دی تو چین نے کچھ سانس لی۔ اسی سال چانگ کائی شیک نے کمیونسٹوں سے پھر الحاق توڑ کر امریکی سامراج کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کیا۔لیکن 1947ء میں جوابی حملے کر کے چین کے باقی شہروں کو آزاد کر دیا۔ دو دہائیوں تک دیہاتوں میں رہنے کے بعد شہروں کو لوٹ آئے اور یکم اکتوبر1949ء کو ماؤ نے عوامی جمہوریہ چین کا اعلان کر دیا۔تعمیرِ انقلاب میں کرپشن کے خاتمے، عورت پیکیج، زرعی اصلاحات اور اقتصادی ترقی کو مدِ نظر رکھا۔
1960ء کی دہائی میں سوویت چین تعلقات میں نظریاتی و سیاسی اعتبار سے خلیج پیدا ہو گئی۔1966ء میں ماؤزے تنگ اور اس کے قریبی رفقا نے سوشلزم کی تاریخ میں ایک بہت متنازع کام یعنی ثقافتی انقلاب برپا کیا۔
جنگ صرف میدان میں تیر و تلوار ہی کے ساتھ نہیں کی جاتی بلکہ اس میدان تک پہنچنے کے لیے پہلے ایک اور جنگ سر کرنا ہوتی ہے اور میدانِ جنگ میں قلم کا ہتھیا ر درکار ہوتا ہے۔ اس ہتھیار کے ذریعے وہ ذہن بنائے جاتے ہیں ،جو اگلے میدان تک کے لیے ایک پُل ہے۔
’بابا، پسے ہوئے چین کو اس قدر عظیم طاقت بنانے والا ماؤزے تنگ اب کیسا ہو گا؟‘ میں نے عجیب سا سوال پوچھ ڈالا۔ بابا نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا، ’یہ جس برگد کی چھاؤں میں تم بیٹھی ہو، یہیں ماؤ ہے، اور مہکتا باغ اس کا بسایا ہوا چین۔۔۔‘
میں نے حیرت سے برگد کی اور دیکھا تو مجھے حیران کن طور پر اس میں چیئرمین ماؤ کی پرچھائیاں نظر آئی، اور اُس دم اُس کی چھاؤں کا احساس دگنا ہو گیا۔
تب بابا نے کہا،’آؤ بیٹا، کچھ اورپھولوں کا ذکر کرتے ہیں‘۔ اور میں باغ میں بابا جان کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ وہ بتانے لگے، اس باغ میں جس پھول کی خوشبو سب سے زیادہ مہک رہی ہے وہ ہے،لوہسون؛ ایک بہت بڑا لکھاری۔چین کا غلیظ اور قابلِ نفرت فیوڈلزم جس میں بادشاہ ’ فرزندِ آسمان‘ تھااور اس کے سامنے سجدہ لازم تھا۔مردوں کو عورتوں کی طرح سر پر چوٹی رکھنے کا رواج تھا ورنہ وہ سر ہی باقی نہ رہتا۔عورتوں کا یہ حال کہ عصمت پر تالا، بچیوں کو بچپن سے لوہے کے جوتے پہنانا، بیٹیوں کو فروخت کرنا، قتل کرنا اس ظالمانہ دور کی یاد ہے۔کنفیوشس فیوڈلزم کاسب سے بڑا محافظ اور دربان تھا۔ کنفیوشس کا فلسفہ غلامی کا عادی بناتا ہے ۔
لوہسون کمیونسٹوں کا حامی 1911ء کے جمہوری انقلاب سے مایوس ہو گیا ۔کیوں کہ اس میں مزدوروں، کسانوں اور عورتوں کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔تب وہ سمجھ گیا کہ چینیوں کو جسمانی نہیں بلکہ ذہنی علاج کی ضرورت ہے ،لہٰذا اس نے سینڈائے میڈیکل کالج چھوڑ کر قلم اٹھا لیا۔وہ اپنی تحریروں میں چین کی گندی فیوڈلزم، کسان ، مزدور ، عورت پر مظالم جیسے موضوعات رکھتا تھا۔ پاگل کی ڈائری، عصمت پر میرے خیالات، معاشی آزادی اور عورت ، دوائی، آہ کیو کی سچی کہانی‘‘ سب اسی تناظر میں لکھی گئی اس کی تحریریں ہیں۔اس نے تراجم بھی کیے اور غیر ملکی آرٹ کو چین میں متعارف کرنے کے علاوہ چینی روایتی آرٹ کو بھی دوبارہ رائج کیا۔وہ مختلف رسالوں کا ایڈیٹر بھی رہا۔
دیوار سے قریب ایک کیاری میں پھول لگے ہوئے تھے ،ہم اس طرف گئے ۔ بابا نے کچھ سفید پھولوں کی طرف اشارہ کیا ،’ بیٹا، چو این لائی سے ملو۔چینی انقلاب کا ایک اور رہنما۔5 مارچ 1898ء کو پیدا ہونے والا چو این لائی19 ماہ جاپان میں رہنے کے بعد وطن واپس آیا، جب جاپان میں مقیم چینی طلبا بھڑک اٹھے کہ ان کی حکومت جاپان کے ہاتھوں چین کی خود مختاری کا سودا کر رہی ہے۔واپس آکر اس نے ’ تھیان چن سٹوڈنٹ‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ چو اس میں تلخ حقیقتوں پر مبنی تحریریں لکھتا تھا۔ ’ تنظیمِ بیداری‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ وہ ان ’’جرائم‘‘ کے نام سے جیل بھیجا گیاجہاں اس نے دو کتابیں لکھیں ۔ چو‘ لانگ مارچ میں بھی شامل تھا۔یکم اکتوبر کو چین کی انقلابی حکومت میں وزیراعظم بن کر کمیونسٹ اقتدار کا ذریعہ اور چین کی ترقی اور چینی سماج کی از سرِ نوتعمیر کا ذریعہ بنا۔26 سال تین ماہ وزیراعظم رہا۔‘
اب ہم ایک اورمہکتے پھول کے پاس کھڑے تھے ،نام تھا؛ لین پاؤ۔لین پاؤ بھی سوشلسٹ تھا۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوااور چیانگ کائی شیک کے خلاف فتوحات حاصل کیں۔منچوریا اور پیکنگ پر قبضہ اسی کی قیادت میں ہوا۔
اس انقلابی قافلے کا ایک قلمی سپاہی حساس ادیب، باجین 20 برس تک ادبی تنظیم چائنیز رائٹرز ایسوسی ایشن کا سربراہ رہتے ہوئے 4 مئی 1919ء کی تحریک میں بھی شامل تھا۔ گلے سڑے دم گھٹے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ ادیب مختلف ادبی مجلوں کا ایڈیٹر رہا۔ قلم اٹھایا تو 20 ناول اور 70 افسانے لکھ ڈالے۔ دانش وروں کے ضمیر باجین کو دانتے کے ترجموں پر دانتے انٹرنیشنل پرائز ملا۔ تباہی، دھند، خاندان،بارش ، گرج چمک اس کے مشہور ناولوں میں سے ہیں۔
باغ میں ہم نے ایک جگہ مجسمہ دیکھا ، میرے پوچھنے پر بابانے بتایا کہ یہ کم ال سنگ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کم ال سنگ شدید شخصیت پرستی کا شکار ہو گیا تھا۔کم ال سنگ نے اپنے بیٹے کو اقتدار سونپ کر جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا۔ فوج میں میجر کی حیثیت سے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے خلاف کوریائی کمیونسٹ کے ساتھ سوویت فوج کے ساتھ مل کر لڑا۔1945ء میں کوریا کمیونسٹ حکومت کا اعلان کر دیا اور پہلا وزیرِ اعظم بنا۔1905ء میں میکھارتی نے اپنی فوجیں بھیجیں جو کورین وار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔کم ال سنگ نے کوریا کو عظیم صنعتی ملک بنایا۔
’بابا جان، یہ کتنا مختلف پھول ہے؟‘، میں نے کہا۔
’ہاں، سن یات سین چینی انقلاب کا بانی تھا۔‘انھوں نے کہا۔ بادشاہت کے خاتمے کے لیے بے تحاشا کام کیا۔ سوشلزم کو ذریعہِ نجات بنایا اور روسی انقلاب سے دوستی کی۔
’اور بیٹا اس پھول کا نام ہے ماؤڈون ۔ اس نے شنگھائی تجارتی پریس میں کا م کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کے آئین و منشور کا چینی زبان میں ترجمہ کیا اور ’ آرٹ اور میدانِ جنگ‘ کا ایڈیٹر رہا اور بے شمار ناولوں کا مصنف تھا۔‘
اور یہ رہا باغ کا آخری پھول۔ون باؤ کا قلمی نام کومورو تھا۔ اس نے سامراج اور جاگیرداریت کے خلاف شاعری کی ۔ چین کی نئی شاعری کا بانی بھی کومورو ہے۔ اس نے زبردست ثقافتی مہم چلائی۔ اس کی تصانیف کا مجموعہ17 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تحریریں رجعت پسندی اور فاشزم کے خلاف ہیں۔
ہم باغ کی سیر کر کے اور باغ کے پھولوں سے ملاقات کر کے جب باہر نکلنے لگے تو میں نے بابا جان سے سوال کیا کہ یہ چائنا اب جو گوادرا ور سی پیک کے ذریعے قبضہ گیر بن رہا ہے، یقین ہی نہیں آرہا کہ یہ اس قدر انقلابی سوشلسٹ ملک رہ چکا ہے، اب تو بالکل درندہ ہی لگتا ہے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’ جو چین تم نے دیکھا،یہ اچھے انقلابیوں کا بسایا ہوا باغ تھا جسے کوئی بھی اجاڑ نہیں سکتا۔
میں نے کتاب پر ماؤ کی تصویر دیکھی اور باغ کے پھولوں ، درختوں کو الوداع کرتے ہوئے اپنے بابا کے ساتھ واپس مڑ گئی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے