بلوچستان سنڈے پارٹی کا اجلاس یکم اپریل 2018میں پروفیشنل اکیڈمی میں ساڑھے گیارہ بجے منعقد ہوا ۔ بلوچستان سنڈے پارٹی کی روایت گزشتہ تین عشروں سے جاری وساری ہے ۔ اس میں غیر طے شدہ ، مگر مختلف سنجیدہ موضوعات پر بحث ومباحثہ ہوتا ہے ۔
اس اجلاس میں بھی احباب کی بھاری تعداد نے شرکت کی ۔ جو موضوع اس مجلس میں مرکز بحث رہا وہ آئین پاکستان کی اٹھارویں ترمیم تھی۔ جس کے تحت صوبوں کو خود مختاری دی گئی ہے ۔ اب مرکز اس کو ختم کرنے کے حیلے بہانے ڈھونڈرہا ہے۔ احباب نے اس پر بحث کرتے ہوئے ایک قرار داد پیش کی گئی ، جسے اجلاس میں موجود شرکانے منظور کیا:
قرار دادنمبر1: پاکستان آئین میں اٹھارویں ترمیم ایک نعمت سے کم نہیں ۔ اس ترمیم میں صوبوں کے اختیارات بڑھا دیے گئے ہیں ۔یہ حقوق ہمارے آباؤ اجداد کی طویل قومی ، جمہوری اور طبقاتی جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کا ثمر ہیں۔ آج کل اس ترمیم کے خلاف باتیں شروع کر کے عوام کے ان حاصل کردہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بلوچستان سنڈے پارٹی ایسی ہر کوشش کی مخالفت کرتی ہے ، جس سے اٹھارویں ترمیم کی روح کو نقصان ہو‘‘۔
قرار داد نمبر 2: اردو اور بلوچی کے ممتاز ادیب، شاعر اور ترجمہ نگار امانت حسرت کو رہا کیا جائے۔
قرار داد نمبر3: ہم ہزارہ برادری کے مطالبات کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
بعدازاں کچھ ادبی مسائل بھی زیر بحث آئے، جن میں غزل اور غزل کی ہماری قومی زبانوں میں ترویج وغیرہ ۔ اس پر سیر حاصل بحث ہوئی ۔ نثری نظم پر بھی ایک طویل بحث ہوئی۔
شاہ بیگ شیداجو ایک لمبی غیر حاضری کے بعد بلوچستان سنڈے پارٹی میں حاضر ہوا تھا۔ سامعین کی فرمائش پر اُس نے اپنی براہوئی نظم سنائی۔ شاہ بیگ شیدا براہوئی کا ایک پختہ اور کہنہ عشق شاعر ہے۔ وہ بہت اچھی شاعر ی کرتا ہے ۔ گل خان نصیر کے بعد اس نے براہوئی میں طویل نظمیں لکھی ہیں۔ لیکن جب وہ شاعری پڑھتا ہے تو نثر میں پڑھتا ہے اور اس کی شاعری کاسارا مزا کر کرا ہوجاتا ہے ۔
بلوچستان سنڈے پارٹی کے اس اجتماع میں پر محمو د شکیب نے ایک بلوچی نظم پھر اس کا منظوم فارسی ترجمہ سنایا ۔ جس سے سب محظوظ ہوئے ۔ اس کے ساتھ بلوچستان سنڈے پارٹی کا اختتام ہوا۔ احباب نے تصاویر بنوائیں اور رخصت ہوئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے