چھاؤنی سے اوپر چڑھتی پر پیچ پگڈنڈی کے آخری موڑ پر جنگل کے آخری درخت کے پیچھے ، وہ تینوں تھکے ہوئے ، پژ مردہ نظروں سے پریڈ گرا ؤ نڈ اور بیرکوں کا محاصرہ کیے بیٹھے تھے کہ ایکا ایکی آنکھیں پگڈنڈی پر اوپر چڑھتے ، بیساکھی پر جھولتے سائے کے ساتھ ہچکولے لیتی چپک گئیں ۔ اُس نے آخری موڑ کاٹتے ہی کندھے سے پٹاری نما بندٹوکری اتار کر درخت کے ساتھ رکھی اور نظروں کے چھاج میں ڈھلوان کو پھٹکتے ، جنگل کی طرف چہرہ اٹھایا اور دونوں ہاتھوں کی اوٹ میں اس کے ہونٹ کالی چڑیا کی تیز سیٹیاں اُبلنے لگے ۔
وہ درختوں ، بیلوں اور لمبی گھاس کی اوٹ سے ایک دوسرے کے چہرے کو تکتے کالی چڑیا کی سیٹیوں کے مفہوم کی گرہیں کھولتے ، یک دم اس کی طرف لپک پڑے ۔
اس کی نظریں تنومند ، قد آور جسموں سے ہوتی ہوئی یوزی پر پڑیں تو خوف سے کپکپاتے بیساکھی اس کی بغل سے نکل گئی ۔ اور وہ بے دم گھاس پر ڈھیر ہوگیا ۔
مجھے ، مجھے مت مارو ۔۔۔
میں نے ،میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔
تم جانتے ہو کہ ۔۔۔ ؟
وہ کہاں ہے ؟؟
مجھے کچھ پتا نہیں ۔۔۔
مجھے مت مارو ، میرے ساتھ میرے پانچ بچے بھی مر جائیں گے ۔
اور اس کے کانو ں میں پانچ نقارے بجنے لگے ۔
میں تمھیں کیوں مارنے لگا ۔ مجھے ،مجھے تو ڈاکٹر بھیا کا پتا چاہیے ۔
سوال و جواب کی جھڑی میں ابھی وہ پوری طرح بھیگے بھی نہ تھے کہ جنوبی ترائی سے ایک ہیولا اپنی طرف رواں تکتے ہی ، ہاتھوں نے یوزی کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ آنکھوں کی کمند پھینکتے ہی وہ اس کی طرف لپک پڑے ۔
ڈاکٹر بھیا ۔۔۔
تم ۔۔۔ ؟
کہو کیا گا ؤ ں پر بھی حملہ ہوا ہے ۔۔۔ ؟؟
ہاں ، مگر اس جنگل کا پیٹ بہت بڑا ہے ۔ یہ سب کو نگل گیا ۔
کیا سب ۔۔۔ ؟
ہاں ہاں یہ دیکھو ۔۔۔
اوہ ۔۔۔
وہ یوزی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُس کا جائزہ لینے لگا ۔ یہی نہیں ، ایک مشین گن ، سترہ خود کار رائفلیں ، چار یوزی اور پانچ گدھوں کا ایمونیشن کا بار ۔
ڈاکٹر ۔۔۔ وہاں کیا ہوا ؟
ڈاکٹر کی آنکھیں یک دم بیساکھی پر رک کر پھر اُٹھیں اور اس کے چہرے پر بیٹھ گئیں ۔
پانچ سو میں سے چالیس فوجی فرار ہوگئے ۔ اور باقی اسلحے کا ڈھیر ہمارے ہاتھوں میں دے کر سو گئے ۔
لیکن ڈاکٹر میں ایک بری خبر لایا ہوں ۔اور ٹوکری اس کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ اس نے فوری ڈھکنا کھولا اور گھاس پھونس ہٹاتے ہوئے ایک ہینڈ گرنیڈ نکال کر ہاتھوں میں تولا اور بقیہ گنتے ہوئے اس کی طرف سوالیہ نظریں اُٹھیں ۔۔۔کہو کہو چپ کیوں ہوگئے ۔
یہ ڈاکٹر ۔۔۔ ؟
یہ ۔۔۔ ؟؟
ہاں ہاں تم ہمیشہ ایسی ہی چیزیں یا کتابیں لاتے رہے ۔ مگر میں نے تمھیں کبھی نہیں بتایا کہ کہیں تم ہراساں ہوکر کھیل ہی نہ بگاڑ دو ۔ مگر آج سے تمھارا خوف ٹوٹ جانا چاہیے ۔ ہاں اب بتا ؤ ۔۔۔؟
ڈاکٹر ، وہ ، وہ اس بار ادھر سے بڑا حملہ شروع کریں گے ۔ بڑے کرنل کو صرف اسلحے کا انتظار ہے۔
اور وہ کب پہنچے گا ۔ ؟ پرسوں جہاز لگ رہا ہے ۔
تو ہمارے پاس وقت بہت ہی کم ہے بھیا ۔
نہیں ، ، دو سال کی محنت تو اب پروان چڑھنے کا موقع ملا ہے ۔ جھیل پار کے پچاس تربیت یافتہ نوجوان کل ہی یہاں منتقل ہو سکتے ہیں ۔۔۔
کمی تھی تو اسلحے کی اور وہ ۔۔۔
چوتھے دن پو پھوٹتے ہی چھا ؤ نی کی بیرکس سے شور و غل کا ایک طوفان اٹھا اور چند ہی لمحوں میں سو گیا ۔ تھوڑی دیر بعد ساٹھ گدھے پگڈنڈی سے اوپر چڑھتے ہوئے اُس کے نزدیک ہوتے چلے گئے ۔ اُس نے بڑی بے تابی سے درخت کی ٹیک چھوڑی اور بیساکھی کا سہارا لیتے ہوئے اور آگے جھک گیا ۔
نظروں نے ہر بیرک سے ابلتے ساتھیوں کی گنتی کی اور جیسے ہی ڈاکٹر کی واپسی ہوئی تو فتح مند چوکس نظریں چاروں اطراف کا جائزہ لیتے پہاڑی کی جانب سمٹنے لگیں ۔ اور کان بڑی بے تابی سے ان کے تعاقب میں آنے والے قدموں کی چاپ کا انتظار کرتے رہے ۔ مگر ہر بیرک پر سناٹا طاری تھا ۔
وہ سب ، وہ سب کیا ختم کر دیے ۔۔۔ ؟
نہیں صرف سفید فام ۔۔۔
باقی تو اپنی چارپائیوں سے بندھے پڑے ہیں ۔چھ سو کے قریب ۔۔۔۔
وہ سب میرے ہم وطن ہیں ، وہ غاصب تو نہیں ۔
وہ تو صرف گھر کا راستہ بھولے ہیں ۔ اور اپنے بھائی کا کندھا تھپتھپایا ۔ وہ سب لوٹیں گے ، اس کی طرح ۔۔۔
مگر پانچویں دن دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں چھاؤنی سے ہلکا سا شور اُٹھا اور مدھم آوازوں کے ساتھ ڈھلوانوں پر چڑھتا جنگل میں آگھسا ۔ کالی چڑیا اور چند دوسرے پرندوں کی چیختی سیٹیاں ایک ایک درخت کو جھنجھوڑتی چلی گئیں ۔
دشمن ، دشمن
اور درختوں سے آنکھیں گھنیرے جنگل میں پیرتے سیلاب کا جائزہ لے رہی تھیں ۔ جیسے ہی آخری فوجی جنگل کی گہرائی میں پہنچا ۔ کالی چڑیوں کی آخری وارننگ ٹھاٹھیں مارتی ہوئی اُٹھی اور سارے سناٹے کو بہا کرلے گئی ۔۔۔
دیکھو ، دیکھو دشمن کہاں آ پہنچا ۔۔۔
اُ ٹھو ۔۔۔
اور ساتھ ہی گھنی چھتارا شاخوں سے اُبلتی گولیوں نے ان کا محاصرہ کر لیا ۔
اپنے ہتھیار پھینک دو ۔ تم پوری طرح گھیرے میں ہو ۔۔۔
فرار کی ساری راہیں تم کھو چکے ہو ۔۔۔
جیسے ہی فوجیوں نے ہتھیار پھینک کر ہاتھ اٹھانے شروع کیے تو اس کا دل خوشی سے نقارے پر ضربیں لگانے لگا ۔
دھم دھم ، دھڑ دھم دھڑ دھڑ دھم
فتح
پہلی فتح ۔۔۔
پانچ سو فوجی قیدی
فتح ۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے