(عاصمہ جہانگیر کے لیے)

وہ ہمسفر تھی ، ہم نواتھی
روحِ رواں تھی
یوں اچانک بیجھڑجائے گی
خبر ہی نہ تھی
وہ اُس قافلے کا نشان تھی
جو جہدِ حق کی علامت ہے
جو آبلہ پاہے شکستہ پانہیں
جس نے خواب دیکھے ہیں دنیا بدلنے کے
تاریخ گواہ ہے دنیا وہی بدلتے ہیں
جن کی آنکھوں میں خواب بستے ہیں
خواب کبھی مرانہیں کرتے
جذبے مٹی میں دفن نہیں ہوا کرتے
ہم نے اُس کے جسم کو سُپر دِ خاک کیا
اور روح اپنے ساتھ لے آئے
ہم عاصمہ کی میراث کے وارث
قدم سے قدم مِلا کر چلنے والے
اب بھی زندہ ہیں
نہ ہارے ہیں نہ تھکے ہیں
نہ جُھکے ہیں نہ بکے ہیں
ہمارے حوصلے پست ہیں
نہ علَم سرنگوں ہیں
ہم اس بیش بہا میراث کو
اگلی نسل کو سونپتے رواں دواں ہیں
قدم بڑھا وعلَم اٹھاؤ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے