یوسف عزیز سے ایک ملاقات

۔’’کون سا یوسف؟۔ یہاں توسیکڑوں قبریں ہیں؟ ۔عمر کیا تھی اس کی؟ ۔کتنے عرصے سے یہاں ہے؟‘‘۔
گورکن کے ان سوالات نے میرے دل و دماغ کو منتشر کر دیا۔ اس کے تعجب خیز لہجے نے میری روح کو مضطرب کر ڈالا ۔ میں اندر سے تذلیل اور شرمساری کے احساس میں جکڑ سی گئی۔ایک ایسی کیفیت طاری ہو گئی، جو الفاظ میں شاید بیاں ہی نہ ہو پائے۔
بلوچ قوم کی ایک عظیم ہستی سے ہماری اس درجے کی ناواقفیت قہر ہی ہے۔ آبدیدہ آنکھوں سے درجنوں قبروں کا جائزہ لیا، اور بالآخر ہر نمایاں قبر کا کتبہ پڑھتے پڑھتے ہم اس قبر تک پہنچ ہی گئے۔ کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں واقع اس کی آخری آرام گاہ جس پر سنگ مرمر کا ایک پرانا اور خستہ حال کتبہ لگا ہے۔ میری پہلی نگاہ اس کتبے پر درج اشعار پہ پڑی اور وہیں رک گئی:
کرم ہے تیغِ جفا کا بقدرِ وسعتِ شوق
جسے ہو ذوقِ تماشا کفن بدوش آئے

جوش میں آکے اگر ایک ہی نعرہ ماروں
حق و باطل کی تفاوت کو نمایاں کر دوں

میں نے پھر نظریں اس عظیم رہبر کی قبرپہ دوڑائیں جس کے اردگرد کچرہ جمع تھا۔ کتبہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اس پر نقش اس کے نام پہ بھی گرد جمع تھی۔ میں نے اس سے گرد ہٹاتے ہوئے بے اختیار اس کے نام کو چوما،تو دل سے فریاد نکلی:۔
’’بابا، آپ کا بلوچستان اب بھی علم و شعور کی بصیرت سے محروم ہے۔ جہاں علم و آگاہی کا بیج بونے کے لیے آپ نے اپنا سب کچھ قربان کر ڈالا، ان کے شعور کا یہ عالم ہے کہ آپ کے پیغام کو پھیلانا تو دور کی بات، آپ کی قبر کے نام و نشان کو پہچاننے سے بھی عاری ہیں ۔ ‘‘
’’بابا! آپ کے دیس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا، آپ کے عوام کو سینے سے لگانے والا اب کوئی نہیں۔ سرداریت کے بھیس میں چھپے لٹیرے آج بھی قوم کے حقوق لوٹ رہے ہیں۔ اور آپ کی قوم؟۔۔۔ آپ کے پیغام کو بھول کر ایک دوسرے کی حاسد بن چکی ہے۔ ان کا حال آج بھی وہی ہے جو آپ نے لگ بھگ سو سال پہلے بتایا تھا‘‘:
’’آج ساری دنیا شاہراہِ ترقی پر گامزن ہے مگر بلوچستان کے لوگ کچھ ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ ان کا جاگنا حشر کو معلوم ہوتا ہے۔ بلوچستانیوں سے ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ خدا کے لیے دنیا کو ہنسنے کا موقع نہ دیجیے۔ سیاسی غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالیے اور قوموں کے لیے مشعلِ راہ بن جائیے۔ باہمی حسد و رقابت اور ان لغویات کی بیخ کنی کیجیے۔ خدا کے لیے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹا دیجیے اور دیکھیے تاریخ کیا کہتی ہے۔ مادرِ وطن کی قربانیوں سے سبق لیجیے۔ ‘‘ (’فریادِ بلوچستان‘)۔
کہاں ہے قوتِ خلق، کہاں مروتِ خلق
سناتے تھک گئے ہم تو یہ حالِ زار اپنا
عزیزؔ موت کا جب ایک دن معین ہے
مجاہدوں میں کرائیں کیوں نہ شمار اپنا

سبق دے کر اخوت کا، شجاعت کا، محبت کا
میں پھر بگڑی بلوچستان کی بنوا کے چھوڑوں گا

کتبے پر کنندہ ان اشعار نے عجب سحر طاری کر دیا۔ میں اس کے مقبرے کے پہلو میں ہی بیٹھ گئی۔ میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور خود سے سوال کرنے لگی:’’کون ہے یوسف؟ کب سے ہے یہاں؟۔‘‘
دل سے ایک صدا سنی:آپ کا غم خوار، خادمِ ملت، یوسف عزیز مگسی۔۔۔۔۔۔ ایک عظیم رہبر، نڈر، مجاہد، بلوچستان میں سیاسی بیداری کا علم بردار۔ جس نے بلوچ قوم کے باہمی حسد و رقابت، بزدلانہ اور رجعت پسندانہ سوچ کو مٹا دینے کی ٹھان لی تھی۔
جنوری1908ء میں جھل مگسی کے نواب قیصر خان کے گھر نمودار ہونے والا ستارہ جس نے ابھرتی جوانی کے ساتھ بلوچستان میں سیاسی آگاہی کی اک نئی صبح بیدار کی۔ بلوچ سرزمین پر ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف برطانوی سامراج کو للکارا۔
یوسف عزیز نے اپنی بنیادی تعلیم نجی طور پر جھل مگسی میں ہی حاصل کی۔ 1923ء میں اس نے اپنے والد کے ہم راہ ملتان ہجرت کی ، جہاں اس نے چار سال قیام کیا۔اس قیام کے دوران اس نے برطانوی ہند کی سیاسی فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی سامراج کی حکمت عملی کا گہرا جائزہ لیا۔ بعدازاں برطانوی ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی۔ جس کی ابتدا اس نے ’’فریادِ بلوچستان‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر کی۔ اس انقلابی بیان نے بلوچ قوم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اس مضمون کی اشاعت پر اسے گرفتار کر کے ایک سال نظر بندی، 12ہزار 9سو روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔
یوسف عزیز مگسی اور اس کے ساتھی عبدالعزیز کرد کی کاوشوں سے خطے کی پہلی سیاسی جماعت ’انجمن اتحادِ بلوچاں‘ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔
یوسف عزیز مگسی جدید نظریات سے لیس تھا۔وہ برطانوی سامراج اور سامراج دوست عناصر سے بھیک مانگنے کی بجائے قومی حقوق کے لیے جدوجہد پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے بلوچستان میں تعلیم کے پھیلاؤ اور سرداری نظام کے خاتمے کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یوسف عزیز نے بلوچستان میں علمی و فکری جدوجہد کی بنیادیں ڈالیں۔
یوسف عزیز نے بلوچ قوم کے حقوق کے تحفظ اور بازیابی کے لیے اپنے طبقہ (سردار و نواب) سے علیحدگی اختیار کر لی۔اس نے کہا کہ جو سردار اپنے مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیں، وہ عوام کے ہرگز دوست نہیں۔ اس لیے وہ اس قابل نہیں کہ وہ ان کے قائد و رہنما بنیں۔
31مئی وہ بدبخت دن ہے جب کوئٹہ خوف ناک زلزلے کا شکار ہوا۔ اس زلزلے نے جہاں ہزاروں ہلاکتیں کیں،وہاں بلوچستان کو اپنے اس جاں نثار سپوت سے محروم کر دیا۔
میرے اندر سے آخری آواز ابھری، کہ: زندہ قومیں اپنے اسلاف کے کارناموں کو یوں بھلایا نہیں کرتیں۔ جو لوگ آج بھی سرداروں سے سماجی و تعلیمی اصلاحات کی امید رکھتے ہیں وہ یا تو ان کی تاریخ سے نابلد ہیں یا پھر خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ ‘‘
یہ سوچتے ہوئے میں نے آنکھیں کھولیں ، اور ایک نظر اردگرد کی قبروں پر ڈالی تو دیکھا کہیں پر پھول پڑے ہوئے ہیں، کسی پر غلاف ڈالے ہوئے ہیں،جب کہ اس عظیم رہنما کی قبرپر جیسے کھنڈر کا گماں ہوتا تھا۔ مگر اس کے افکار آج بھی زندہ ہیں اور باشعور انسانوں کا لہو گرماتے ہیں۔
میں نے اس کے کتنے پر لگے اس کے نام کی تختی پر ہاتھ رکھا اور دل ہی دل میں عہد کیاکہ،’’ بابا، ہم آپ کے پیغام کو بھولنے نہ دیں گے، ہم ’فریادِ بلوچستان‘ سے لے کر ’تکمیلِ انسانیت‘ کے ایک ایک لفظ کو تکمیل دیں گے۔ قوم کو اس خوابِ غفلت سے جگائیں گے، ایک روز اس قبر پہ اتنا چراغاں ہو گا کہ کسی کو یہ اجنبی لہجے میں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ، کون یوسف؟ کب سے ہے یہاں۔۔۔ بلکہ ہم نعرے لگاتے ہوئے آئیں گے: ہمارا یوسف ، ہمارا عزیز، جب سے یہ وطن ہے‘ تب سے ہے وہ یہاں!!‘‘۔
دل ہی دل میں اس عہد کو دہراتی میں نم آنکھوں سے قبرستان سے باہر نکلی تو دل میں ایک عجب ولولہ اور حوصلہ بھر چکا تھا۔
’’جومنوں مٹی تلے سوکر بھی زندہ انسانوں کو حوصلہ بخشتے ہوں، اور جن کی قبربھی مایوس لوگوں کو ولولہ بخشے،وہ کتنے بڑے انسان ہیں!!‘‘۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے آنکھ سے ڈھلکا آنسو پونچھ ڈالا، اور مسکرا کر فلک کی جانب دیکھا تو جیسے وہاں لکھا ہوا تھا:۔
اب آگے آتا ہے مرحلہ سخت کوشی کا
ہمارے ساتھ نہ اب کوئی عیش کوش آئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے