چونکہ مارکسسٹ تاریخی ضرورت کے قانون کو مانتے ہیں اس لئے بورژوادانشور اُن پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ وہ بڑے آدمیوں، راہنماؤں،اور لیڈروں کے رول کے منکر ہیں۔ ان کا یہ الزام بے بنیاد ہے کیونکہ مارکسزم فر د کے رول کا منکر نہیں ہے۔
مارکسسٹوں کے نزدیک کوئی بڑا آدمی اور کوئی بڑا لیڈر تاریخ کے دھار ے کو اپنی مرضی سے نہیں موڑ سکتا۔ لیکن اس دھارے کے اندر رہ کر وہ سماجی ترقی کے عمل میں تیزی یا دھیما پن پیدا کرسکتا ہے۔مارکسزم کے نزدیک فرد تاریخی ضرورت کے حالات کا شعور حاصل کرکے ہی اہم رول ادا کرسکتا ہے۔
طبقاتی سماج میں کئی طبقات ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی بڑی تقسیم لوٹنے والے اور لوٹے جانے والے طبقات کے درمیان ہے۔ ان طبقات کے درمیان مفادات کا ٹکر اؤ طبقاتی کش مکش کو جنم دیتا ہے اور یہ طبقات اپنی سیاسی پارٹیاں بناتے ہیں اور ان میں سے ہی لیڈر پیدا ہوتے ہیں ۔ جو اپنے تجربات اور علم اور پہل قدمی کے سبب راہنمائی کرنے لگتے ہیں ۔یہ لیڈر عوام کو منظم کرتے ہیں۔ انہیں سیاسی عمل کے لئے اکساتے ہیں، ان کی منزل کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس منزل تک جانے کا راستہ بتاتے اور انہیں متحرک کرکے منزل کی طرف آگے بڑھاتے ہیں۔
عوام جتنے زیادہ متحرک ہوتے ہیں اتنی ہی زیادہ ضرورت لیڈروں کی محسوس ہوتی ہے۔لیڈروں کے بغیر عوام اقتدارپر قبضہ نہیں کرسکتے ،نہ اس پر قابض رہ سکتے ہیں اور نہ اسے مضبوط کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ریاست قائم کرسکتے ہیں، نہ نیا سماج تعمیرکرسکتے ہیں اور نہ اپنے سیاسی دشمنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ محنت کشوں کی جدوجہد میں انقلابی دانشوروں کا رول بہت اہم ہے۔ مزدور اپنی سیاسی جدوجہد کو انقلابی دانشوروں کی راہنمائی کے بغیر کامیابی تک نہیں پہنچاسکتے ۔ تجربہ کار لیڈروں اور آ ہنی ڈسپلن والے لیڈروں کے بغیر مزدور‘ انقلاب برپا نہیں کرسکتے۔
بڑے لیڈر محض اتفاق سے تاریخ میں ظاہر نہیں ہوتے بلکہ تاریخی ضرورت انہیں پیدا کرتی ہے ۔ جب خارجی حالات تبدیلی اور انقلاب کے لئے رہنما ہوجاتے ہیں تو تاریخی ضرورت بڑے لیڈر دریافت کرلیتی ہے۔ جب سماج انقلابی تبدیلیوں کے لئے تیار ہوجاتا ہے تو ایسے انسان آگے آجاتے ہیں جو تبدیلی کے اس عمل کو تیز کرنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ جب پیداواری عمل کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی بڑی ایجاد ہو تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک بڑا سائنسدان سامنے آتا ہے جو یہ ایجاد کرکے پیداواری عمل کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اور جب تاریخ میں اہم موڑ آتے ہیں تو بڑے فنکار پیدا ہوتے ہیں۔
دراصل بڑے آدمی وہی ہوتے ہیں جن کی صلاحیتوں اور دانشوری کی سماج کی ترقی میں ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو اپنی فکری، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں سے سماج کی ترقی کے عمل میں تیزی پیدا کرتے ہیں۔
ایسے دانشور اور لیڈر بھی گزرے ہیں ۔جنہوں نے تاریخی ضرورت کے خلاف کام کیا ہے اور اب بھی ایسے لیڈر اور دانشور موجود ہیں جوتاریخی ضرورت کے خلاف صف آرا ہیں۔ ماضی میں ایسے دانشور ناکام ہوئے ہیں او رآج بھی وہ ناکام ہوں گے ۔کیونکہ وہ رجعتی اور استحصالی طبقات کی خدمت کررہے ہیں اور محنت کش عوام کا ساتھ نہیں دے رہے اور تاریخی ضرورت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنی صلاحیتیں نہیں لگا رہے ہیں۔ عظیم انسان وہی ہے جو اپنی ساری زندگی اور تمام صلاحیتوں کو سماج کی ترقی کے عمل میں صرف کرے او رمحنت کش عوام کو شعور دینے ،منظم اور متحرک کرنے کا کام کرے۔ کیونکہ محنت کش عوام ہی نئے اور بلند سماجی نظام کو قائم کرنے کے لئے جدوجہد کرسکتے ہیں۔
لیڈر کی اصل طاقت ترقی پسند سماجی اور سیاسی تحریک ہے جس کی وہ راہنمائی کرتا ہے اور جس کا وہ ساتھ دیتا ہے۔ بڑا لیڈر وہ ہے جو تاریخ کی ترقی کے قوانین کا شعور رکھتا ہے اور سماج کی ترقی کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے اس کا احساس رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ترقی کے تقاضوں کو کیونکر پورا کیا جاسکتاہے۔ وہی لیڈر زیادہ طاقتور ہوگا جو مزدور طبقے کے مفادات کی خدمت کرے گا اور ان کا اعتماد اور ان کی حمایت تبھی اُسے حاصل ہوگی جب وہ ان کے مفادات کا ترجمان اور ان کی سیاست کا راہنما ہوگا۔
فردکی عقل ،اس کا تجربہ،اس کا حوصلہ اس کاعز م اور مستقل مزاجی وہ اوصاف ہیں جو تاریخی ضروریات کو پورا کرنے میں کام آتے ہیں اور جب اس کے اوصاف تاریخی ضروریات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل ہوتے ہیں تو تاریخ میں اس کا رول اتنا ہی اہم اور مضبوط ہوتا ہے۔
محنت کش عوام کے لیڈر کارل ؔ مارکس ، اینگلزؔ اور لیننؔ ایسے ہی اوصاف کے مالک تھے اور انہوں نے انسانی تاریخ پر اَن مٹ نقش چھوڑے ہیں۔ وہ نظریہ دان تھے‘ وہ آگنائزر تھے ۔ انہوں نے عوام کی تحریکیں پیدا کیں ،منظم کیں ۔وہ ارادے کے پکے او رجری انسان تھے۔ انہیں عوام پراعتماد اور اپنے کام پر یقین تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ حق اور انصاف پر ہیں اور تاریخی ضرورت کے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں۔
مارکسزم افراد کے رول کا قائل ہے لیکن وہ شخصیت پر ستی کے خلاف ہے۔ مارکسؔ ، اینگلز اور لیننؔ نے شخصیت پرستی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور خوشامدانہ لہجے کو نا پسندکیا ہے اور انہوں نے انقلاب کی کامیابی کے لئے اجتماعی لیڈر شپ پر زور دیا ہے ۔ مارکسزم اصلاح احوال کے لئے تنقید اور خود تنقیدی پر زور دیتا ہے اور شخصیت پرستی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے مارکسزم شخصیت پرستی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
شخصیت پرستی کی مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ پارٹی کی مرکزیت ختم کردی جائے۔ پارٹی کی مرکزیت کے بغیر پارٹی میں انتشار اور ڈھیلا پن آجاتا ہے اور پارٹی اپنا انقلابی کردار ادا نہیں کرسکتی اور اپنے طبقاتی دشمنوں سے نہیں نپٹ سکتی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے