یوسف عزیز مگسی صاحب نہ صرف بیسویں صدی کا بڑا رہنما تھا بلکہ وہ صدیوں کا رہنما تھا ۔ انہیں گزرے ہوئے تقریباً ایک صدی ہونے ولا ہے مگر اس کی عظمت واہمیت روز اول کی طرح برقرار ہے ۔ اس لیے آنے والی صدیوں میں بھی وہ زندہ وجاوید رہیں گے۔ کیونکہ مگسی صاحب ماضی کا تسلسل ، حال کا ترجمان اور مستقبل کے عظیم رہنما کے طور پر ان کے فکرو افکار سے رہنمائی حاصل کی جائے گی ۔ دراصل مگسی صاحب بلوچستان کی سیاست کا پہاڑ تھا۔ اس لیے وہ تاریخ کی بلند ترین شخصیت ہے ۔ مگسی صاحب بلوچستان کے سیاسی کلچر کے نمائندہ رہنما تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے باشعور لوگوں میں اس کی عظمت کا احترام بدرجہ اُتم موجود ہے ۔ نہ صرف باشعور لوگوں میں بلکہ تاریخ بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے ۔ تو اس سے زیادہ ان کی عظمت کا اعتراف اور کیا ہوسکتا ہے ۔
مگسی صاحب زندگی میں تو عظیم تھا ہی مگر وہ اپنی موت کے بعد بھی عظمت کے درجے پر فائزرہا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں تو بڑا رہنما دانشور شاعر ادیب صحافی تو تھا ہی مگر اپنی موت کے بعد بھی بڑے عظیم انسان ثابت ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس کے موت کے بعد ہی ہم ان کے فکرو افکار دانشمندی اور تخلیقی کاوشوں سے آج بھی اپنی راہیں متعین کر رہے ہیں۔ تبھی تو مولانا ظفر علی خاں نے مگسی صاحب کے بارے میں بجا کہا ہے کہ :
تم کو خفی عزیز ہے ، ہم کوجلی عزیز
عارض کا گل تمہیں ہمیں دل کی کلی عزیز
لفظِ بلوچ مہرو وفا کا کلام ہے
معنی ہیں اس کلام کے یوسف علی عزیز
یوسف عزیز مگسی صاحب واحد سردار نواب تھے جو غریبوں مزدوروں کسانوں عورتوں زدہ لوگوں مظلوموں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کے لیے ہمدردانہ رویہ رکھتے تھے ۔ ان کے داخلی اندرونی اور جذبات کا یہ واضح اور نہایت ہی ٹھوس ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے آباواجداد کے ملکیت میں سے دسواں حصہ اس پسماندہ طبقے کی فلاح وبہبود خوشحالی وترقی یافتہ زندگی اور تعلیم جیسے انمول خزینے کے لیے وقف کردیا اسی جذبے کے تحت وہ جو عظیم خواب دیکھ رہے تھے ان خوابوں کی تعبیر کے لیے اپنے علاقے جھل مگسی میں ایک جدید سکول جامعہ یوسفیہ کاسنگِ بنیاد رکھا۔ اور اسی جامعہ یوسفیہ کے لیے آخر دم تک فکر مند تھے اور اپنے اس عظیم منصوبے سے بے حد پراُمید تھے اس لیے تو انہوں نے برملا جامعہ یوسفیہ کے لیے کہا ہے ۔ ذرہ آپ بھی پڑھ کے لطف لیجیے۔
شعاع علم سے روشن کرو تم اپنے سینے کو
تمہیں ہے ڈھونڈ نا اک گمشدہ قومی خزینے کو
عزیز جامعہ ہے درحقیقت دولت نایاب
کچھ اس کے سامنے سمجھونہ قاروں کے خزینے کو
بہر کیف مگسی صاحب کی مختصر سی زندگی کے کئی ہمہ جہت پہلو ہیں ہم یہاں محض ان کے شاعری پر اپنی بساط کے مطابق روشنی ڈالیں گے۔ مگسی صاحب نے نو آبادیاتی سامراجی ، استحصالی قوتوں جاگیردار طباتی نظام سماجی ومعاشرتی ناانصافیوں اور جہالت کے خلاف مسلسل جدوجہد کیا اور ان قوتوں سے ہمہ وقت نبرد آزمارہے ۔ وہ نہ صرف ایک نواب و سردار تھے بلکہ ایک سچے عوامی دکھ ودرد محسوس کرنے والے والے قومی رہنما بھی تھے ۔ اس کے علاوہ ایک بڑے رائیٹر صحافی اور حساس دل رکھنے والے شاعر بھی تھے۔ جب ہندوستان کے سامراجی حکمرانوں نے غریب عوام کو جہالت کے اندھیر ے میں رکھ کر ان کے اوپر نہ صرف حکمرانی کر رہے تھے بلکہ تمام انسانی حقوق سلب کر کے شب وروز غریب کا خون چوس رہے تھے اپنی ناجائز حکمرانی کو طول دینے کے لیے کئی نسلوں سے یہاں کے مظلوم ومحکوم عوام کو غلام بنائے رکھے ہوئے آرہے تھے ۔ بلوچوں کی پستی بدحالی ، تنگدستی ، غربت ، لاغری ، لاوارثی، لاعلمی، لاشعوری ، اور جہالت دبے علمی کی وجہ سے جاگیر دار سردار اور انگریز سامراج ان پر طرح طرح کے مظالم روا کھے ہوئے تھے ۔ ان تمام ظلم وستم اور زور اوری کو بلوچ راج کے ساتھ دیکھ کر مگسی صاحب کا دل کڑھنے لگتا تھا اور خون کے آنسوں روتے ہوئے انہیں اپنے ماضی کی عظمت وبڑھائی ، شان وشوکت ، بلند مرتبہ ، بلند اقبالی یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ہمت وجرات شجاعت وبہادری اور قومی غیرت وحمیت کو اجاگر کرنے کے لیے خدا کا واسطہ دیتے ہوئے اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں۔
خدا کے واسطے اے قوم ہوش میں آجا
دکھا دے دنیا کو کیسی ہے آن بان بلوچ
مسلمانوں کی پستی بدحالی ، نااتفاقی ، کم ظرفی ، کم عقلی ، کم ہمت اور فرقا واریت کے سبب تقسیم در تقسیم اور اسلام کی حقیقی روح سے نا آشنائی کے سبب مسلم قومی زوال کو دیکھ کر مگسی صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ۔
ارادہ ہے کہ اسلام کا خادم بن کر
ساری دنیا کو نئے سرے سے مسلماں کردوں
وہ بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ تمام امت مسلمہ کو نبی کریم ﷺ کے جدا مجد حضرات ابراہیم کے آہنی چٹان سے مضبوط ایمان کا وارث سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ میں حضرات ابراہیم والا انتہائی مضبوط ایمان بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اگر میں چاہوں تو نمر دو کے آتش کدہ کو اب بھی گلستان میں تبدیل کرسکتا ہوں۔ یعنی امت مسلمہ میں یہ خوبی موجود ہے ۔ لیکن اس ایمان کو پھر سے تھوڑی سی تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسے ہی ایمان تازہ ہوا آتش کدہ گلستان میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں اس خطے سے سامراجی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کی ہمت موجود ہے بشرطیکہ ہمارے اپنے لوگ ان کے تلویں چاٹنا چھوڑ دیں وہ اپنے شعر میں فرماتے ہیں۔
اسی ایقان براہیم کا وارث ہوں عزیز
اب بھی آتش کو اگر چاہوں گلستان کردوں
مگسی صاحب کو تعلیم جیسی انمول زیور سے جنون کی حد تک عشق تھا ۔اس کے دو وجوہات تھے ایک بلوچ قوم تعلیم جیسی نعمت سے یکسر طور پر محروم تھا اس لیے ہر سطح ان کی استحصال کی جارہی تھی۔ جو کہ انکو یہ بہت ہی ناگوار گزر رہی تھی اور وہ اس درد میں ہمہ وقت بے چین بیقرار رہتے تھے ۔ جبکہ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ خود تعلیم جیسی نور سے پرنور ذہن کے مالک تھے جس کی وجہ سے تعلیم کی افادیت بخوبی واقف تھے ۔اور اپنے اوپر دیکھ کر یہ محسوس کر رہے تھے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص کس قدر اپنی قوم زبان وادب ، دین ومذہب اور ثقافت کی بقا کے لیے کتنا طاقتور اور موثر ہوسکتا ہے ۔ اس لیے وہ ہر بلوچ فرزند کو تعلیم جیسی زیور سے آراستہ دیکھنا اپنی زندگی کا نسب العین سمجھتے تھے یہی وجہ تھا کہ انہوں نے اپنے شعر میں برملا کہا ہے۔
وہ انمول صفت ہے یہ اسے اچھی طرح سیکھو
بنانا ہے تمہیں گوہر بلوچوں کے پسینے کو
اسی غزل کے مقطع میں مگسی صاحب اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں کہتے ہیں کہ یہ جو جھل میں میں نے جامعہ یوسفیہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے اسے محض جھل تک محدود ہر گز نہیں کرنا ہے بلکہ اسے جھل سے باہر نکال کر عام کرنا ہے ۔ اور ہر بلوچ فرزند کو اس سے مستفید کرنا میری زندگی کا عین مقصد ہے ۔ میری شدید دلی خواہش ہے کہ اس طرح کے تعلیمی ادارے بلوچوں کے ہر علاقے میں عام ہوں تاکہ بلوچ ہر نوجوان تعلیم جیسی نور سے اپنے آپ کو منور کرسکیں۔ اس لیے وہ ببانگ دھل کہتے ہیں۔
چھپاکب تک رہے گا آہ، جھل کے تنگ گوشے میں
سرِ بازار لاؤ حسن ’’یوسف‘‘ کے خزینے کو
مگسی صاحب بلوچوں کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ کی تنزلی کو دیکھ کر انہیں حوصلہ وہمت ، بہادری وجرات کا درس یاد دلاتے ہوکہتے ہیں کہ آپ کے دنیا میں اگر چہ اس وقت خزاں آئی ہوئی ہے لیکن یہ خزاں چند گھڑیوں کے لیے ہے۔ اس خزاں سے ہر گز مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے گلستان کو گل وگلزار کرنے کے لیے ہمیں حوصلہ وہمت سے کام لینا چاہیے ہمت وجواں مردی سے اٹھ کر ہم اس خزاں کا مقابلہ کریں تو یقیناًوہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی گلستان میں پھر سے بہار لاکر اپنی نئی دنیا بسا سکیں فرماتے ہیں۔
اس عالم رنگ وبو میں اگر آئی ہے خزاں تو خیال نہ کر
کر اور نیا تعمیر جہاں معمار جہاں اٹھ ہمت کر
یہ جو سامراج ظالم قوتیں ہیں ان کی جڑیں کھوکھلی ہیں یعنی یہ جو سامراجی استحصالی اور جاگیر دار قوتیں ہیں یہ باہر سے ہمیں بڑی مضبوط اور طاقتور نظر آرہی ہیں لیکن حقیقت میں یہ اندر سے بالکل کھوکھلی ہیں۔ ان کے بظاہر مضبوط قلعے دراصل ریت کی دیواریں ہیں۔ یہ عوام کی سیلاب وطوفان کے سامنے تھوڑی دیر بھی نہیں رک سکتے ۔ محض جرات جواں مردی کے ساتھ ان قوتوں کو ایک ضرب لگانے کی دیر ہے پھر دیکھنا کہ یہ خس وخاشاک کی طرح اڑ کر تنکے تنکے ہوجائیں گے ۔ اور ان کا ایک تنکا بھی دھونڈنے سے نہیں ملے گا فرماتے ہیں ۔
بدیوں کے سلاسل کی کڑیاں اندر سے تو یہ سب کھو کھلے ہیں
بس ایک ضرب تکبیر کی پھر اے سیف خدا اٹھ ہمت کر
ہمارے ہاں ایک سوچ زبانِ زد عام خاص ہے کہ جو کچھ نہیں بتایا جو کچھ ایسا ہو جاتا ہے اسے ہم تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس پر راضی بہ رضا ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اس طرح نہیں ہے۔ مگسی صاحب اس مغالطے کو یکسر طور پر ٹھکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تقدیر کا رونا کب تک روتے رہیں گے دراصل ہمت والوں کے سامنے تو تقدیر ان کا خادم ہے۔ تقدیر تو ان کے سامنے ہاتھ جو کے کھڑی رہتی ہے بہت ہوا ہے اس مغالطے کو اب ختم کرو ہمت وجواں مردی سے اٹھو اور اپنی ہاتھوں سے اپنا جہاں سنوار اور اپنی نئی تقدیر بناؤتا کہ دنیا دیکھے کہ ہمت والوں کے سامنے تقدیر کا کوئی وقعت نہیں۔ وہ فرماتے ہیں۔
تقدیر کا رونا یہ کب تک تقدیر تمہاری خادم ہے
تو اپنے لیے اک اور نئی تقدیر بنا اٹھ ہمت کر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے