۔82 ویں سالگرہ

(27،28،29،30 دسمبر1932)

ایک سنجیدہ کام ، ایک سنجیدہ محنت مانگتا ہے ۔ تصور کرلیں کہ 27دسمبر کو کانفرنس کے انعقاد کا دن ہے اور دو دن قبل یعنی25دسمبر تک کانفرنس میں شمولیت کی کمپین اُسی زور شور سے چل رہی تھی۔ ماسٹر محمد علی کا ایک مضمون ’’البلوچ‘‘ میں شائع ہوا تھا، اقتباسات دیکھیے:۔
’’یوں تو قوم بلوچ کے مختلف فرقے اور خاندان اپنے متعلقہ امور پر غور و خوض کر کے بہتری کی تدابیر سوچنے کیلئے جرگہ اور دیگر اجتماعی صورتوں میں ملاجلا کرتے تھے ۔ مگر اُن کے اجتماع اور اجتماع کے فوائد محض اُن ہی تک محدودرہے ہیں۔ لیکن ایزد متعال کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے افضال واکرام سے اُن کو وہ دن دکھایا کہ مثلِ دیگر اقوام وہ بھی اپنی خامیوں پر غور کرنے کیلئے اور تلافی کی تدابیر سوچ کر ان پر عمل پیرا ہونے کیلئے وقتا فوقتا مجالس وکانفرنس منعقد کرنے لگے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت سندھ، ہندوستان اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچوں کی مجلسیں قائم کی گئی ہیں ۔ اور اسی سلسلہ میں بہ تحریکِ فخرِ قوم وملت جناب نواب زادہ محمد یوسف علی خان صاحب مگسی بلوچ حال میں جیکب آباد سندھ میں تمام بلوچوں کی سب سے پہلی عام کانفرنس منعقد ہونے والی ہے ۔ جس میں عام بلوچوں کا توذکرہی کیا پنجاب اور بلوچستان کے معزز سردار اور جاگیرداروں کے علاوہ ہندوستان کی دیگروا جب الااحترام اوراسلام کی مایہ ناز ہستیاں بھی شرکت فرمائیں گی ۔گویا کہ قوم بلوچ کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو مجتمع کرنے ،اُس کے مرد ہ جسم میں نئی روح پھونکنے اور اُس کو اقوام دنیا کی صف میں کھڑا کرنے کیلئے بہی خواہانِ قوم اور ہمدردانِ ملت ومسیحا یانِ وقت جمع ہو کر اسباب مطلوبہ کی فراہمی فرمائیں گے ۔ اور قوم کی حیات دائمی کا سہرا نواب زادہ مذکورکے سر، جس کا احسان قوم کے کاندھوں پر ہمیشہ رہے گا باندھیں گے۔ اس گمنام قوم کے اس مایہ ناز فرزندنے جس طرح قوم کے تاریک نام کو صفحہ ہستی پر روشن کرنے میں کاسہِ گدائی ہاتھ میں لے کراور غالب ؔ کے شعر۔
بدل کر گدائی کا اب بھیس غالب
تماشا ئے اہل کرم دیکھتے ہیں
کی زندہ مثال بن کر قوم کی ارتقائی تاریخ میں سب سے پہلی بے نظیرمثال پیش کی ہے ۔ اسی طرح آپ کا واجب الاحترام نام قوم کی اس تاریخ کے عنوان میں زرین الفاظ میں لکھا جائے گا۔ اور آپ کا پیغامِ عمل زندہ دلی ،بے لوث خدمت ، ایثار ،اور ہمدردی ہر وقت اور ہرزمانہ میں آپ کے قومی بھائیوں کو پیش کر کے آپ کو اور آپ کی قوم اور آپ کے حامیوں کو زندہ جاوید بنا دے گا۔بے شک ہر ایک بلوچ نوجوان آپ کے اتباع میں قومی فلاح وبہودی کی جد وجہد میں مضطرب ہوجانے اور ہر فردِ قوم آپ کی اس پیش کردہ مثال کو اوج کمال پر پہنچانے اور اس کانفرنس کو جس کی ضرورت بدرجہ ا تم محسوس ہو رہی تھی اور جس پر قوم کی آئندہ عزت واقبال اور عظمت کا بہت کچھ انحصار ہے ، کامیاب اور آپ کو اس مقصد میں کامران بنانے کے جذبات سے سرشار ہو کرا نہیں عمل کا جامہ پہنا دے ۔ آمین ثمہ آمین۔
’’لیکن چونکہ کانفرنس زیادہ تر ایسی قوم سے تعلق رکھتی ہے جس کے اکثر افراد تعلیم یافتہ نہ ہونے اور تعلیم یافتہ اصحاب کی سوسائٹی سے بہرہ اندوزنہ ہونے کی وجہ سے اس لفظ اور اس کے مقاصد سے کما حقہ واقف نہیں ہیں اس لیے اس کی وسعت معنوی پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ لہذا جاننا چاہیے کہ ایک انگریزی لفظ ہے ۔ جس کے لغوی معنی گفتگو، صلاح ومشورہ اورا صطلاحی معنی ٰ ایسی مجلس کے انعقاد ہیں جس میں مختلف مقرر اپنی اپنی مدلل تقاریر میں مجوزہ امور کے نشیب وفرازبیان کر کے ازر روئے مصلحت ومشورہ خاص امور کے انتخاب پر رائے قائم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
صرف یہی نہیں۔ اور بھی بے شمارلوگ بے شمار طریقوں سے اِس کانفرنس کو کامیاب کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔
’’البلوچ ‘‘ میں اُس زمانے میں مروج اردو مضامین کی طرح کے لب ولہجے میں عبدالخالق کے نام سے ایک مضمون چھپا۔ عنوان ہے : آل انڈیا بلوچ سے دو دوباتیں ‘‘ ذیلی سرخی ہے: ’’جیکب آباد چلو‘‘۔اُس کا آخری پیراگراف دیکھتے ہیں:۔
’’پیش ازیں کہ میں اِس دفتر کو ختم کروں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر ایک طرف سے بلوچ ننگے سر اور ننگے پیر جھومتے جھامتے جیکب آباد کی طرف اس رغبت سے چلیں جس طرح کہ شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کی طرف جاتی ہیں۔ اور جس طرح عاشقانِ صادق اپنی محبت کے تقاضا پر بلاکسی خوف وخطر کے جاتے ہیں‘‘۔
کیا خوبصورت اور اچھی آغاز تھی۔ اس قدر جوش وجذبہ تھا، نیک ارادوں سے منظم ایک محنت مل گئی تھی۔ اور دور بینی اس قدر کہ ہر اپیل‘ ہر مضمون اور ہر تقریر میں زور اِس بات پہ تھا کہ قبائلی منافرتوں سے بلند ہوا جائے۔اور دیگر چھوٹی نوعیت کی وابستگیوں ‘ تنگ نظریوں سے بلند ہو کر اس بڑی قومی تحریک کے ساتھ جڑا جائے۔
یہ کانفرنس گو کہ اعلانات میں سیاسی نہیں تھی، مگر ہم جانتے ہیں کہ انسان کا ہر اکٹھ،میلہ،جشن،اجتماع،کانفرنس،اورکنسرٹ سیاسی ہوتا ہے۔ بلوچ کانفرنس تو اس سے بھی زیادہ کچھ تھی۔ یہ علمی اکٹھ بھی تھی اور سماجی اجتماع بھی۔ اس میں مباحثے، تبادلہِ خیالات، برین سٹار منگ، ترانے ،قراردادیں سب شامل تھیں۔
البلوچ کراچی (25دسمبر 1932) میں جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد کی طرف سے مضمون نویسی کے مقابلے کے ایک انعامی مقابلے کا اشتہار ہے۔مزیدار سا، معصومیت بھرا۔ اور اس میں انتہائی عام فہم موضوعات رکھے گئے۔ اس میں’’ نواب صاحب بگٹی‘ سردار بہادر محمد مہراب خان لہڑی، عبدالصمد خان اچکزئی۔ عبدالعزیز کرد ،نواب زادہ میر محمد یوسف علی خان عزیز بلوچ اور محمد امین کھوسہ پر مشتمل انعامات کی کمیٹی کا بھی اعلان ہے ۔
’’انعام
از جانب فخرِ بلوچاں جناب نواب زادہ میر یوسف علی خان عزیز مگسی بلوچ مبلغ 165روپیہ بموقعہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد ذیل کے موضوع پراول نمبر مضمون تحریک کرنے والوں میں تقسیم کیا جائے گا:۔

انعام کے مستحق صرف باشندگانِ بلوچستان وہر بلوچ مسلم ہوں گے‘‘۔
اور میں سوچ رہا ہوں کہ اُس زمانے یعنی 1932میں 165روپے کتنی بھاری رقم ہوگی۔ اور یہ بھی کہ یوسف عزیز مگسی بلوچ تحریک کا کارل مارکس توتھا ہی مگر اُس تحریک کااینگلز بھی تو وہی تھا۔ تحریک پر پیسہ خرچ کرنے میں آتاہے تو لگتا ہے کہ کچھ سوچتا ہی نہیں۔ ایک لمحہ میں جیب خالی!۔
پندرھویں صدی میں ایک اور سخی بلوچ گزرا ہے جسے ’’زر زوال‘‘ کا عوامی لقب ملاتھا۔ مگریوسف عزیز مگسی ’’ کو اُس سے بھی اچھا لقب عطا ہوا تھا:میرِ اربابِ جنوں‘‘ (سید، کامل القادری، ’’مگسی نمبر ‘‘ پر ایک نظر بلوچی دنیا ملتان ، اگست 1963صفحہ نمبر5)
***
اس کے باوجود کہ کانفرنس کے زعما نے سرداراور سرکاردونوں کو اعتماد میں لے رکھا تھا، اور انہیں واقعتاً اس کانفرنس کے غیرسیاسی ہونے کا یقین دلایا تھا۔ مگر پھربھی سردار سرکار کے طبقاتی شک و شبہات نے اُنہیں آرام سے ، یا غیر جانبدار ہونے نہ دیا۔ ہم سرداروں کی بات پہلے ہی کرچکے ہیں ۔اب جناب عبدالصمد خان اچکزئی کے پشین عدالت میں کہے گئے وہ فقرے دیکھیے جس نے ایک پیشی کے دوران سرکار کی بدعہدی اور بدنیتی کے بارے میں یوں کہا:
’’سال1932 کے آخر میں صوبہ سے باہر جیکب آباد (سندھ )میں ایک کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ جس کی مخالفت میں اعلیٰ حکام نے بہ نفس نفیس حصہ لیا۔ پہلے ہی اجلاس کے موقعہ پر حکومت کی دہشت انگیزی کی یہ حالت تھی کہ کانفرنس حدودِ بلوچستان کے باہر منعقد ہورہی تھی۔ لیکن پھر بھی بلوچستان کے کم وبیش دودرجن پولیس آفیسر پنڈال میں اپنی موجودگی سے کانفرنس کی شان کو دوبالا کر رہے تھے۔ سنا جاتا ہے کہ سپرنٹنڈ نٹ پولیس خود اپنے حدود کے آخری حد پر اُس وقت تک قیام رکھتے تھے جب تک کانفرنس جاری رہا۔ اس کے بعد وہاں سے واپسی پر سر کردہ نمائندگان کو تنگ کیا۔ اس لیے اس سال حکومت کو یقین تھا کہ گذشتہ تمام سال کے خلاف پروپیگنڈہ اور سختیوں کی وجہ سے امسال کانفرنس میں بلوچستان کے نمائندہ شامل نہ ہوں گے ۔بلکہ وہ بیرونی بلوچوں کی جماعت بن کر رہ جائے گی ۔ مگر جب اس کے بالکل برخلاف ،اور باوجود کانفرنس کے اجلاس کے یہاں سے بہت دور ہونے کے ، اور پھر رمضان شریف کے مہینہ میں جسمیں ہندوستان کی بڑی بڑی مسلم جماعتیں بھی اپنے اجلاس کے انعقاد سے گھبرایا کرتی ہیں۔ اس کا اجلاس نہایت شاندار طریقہ پر منعقد ہوا جس میں بلوچستان کے ہر ضلع اور تحصیل کے نمائندے سالِ گذشتہ سے دو چند تعداد میں شامل ہوئے۔ تب حکومت کو لازماً تحریک کے بظاہر چلانے والوں پر ہاتھ ڈالنا پڑاُ‘‘۔(5)
تعجب ہوتی ہے کہ بلوچستان کے بعض خطاب یافتہ حضرات اور رؤسابلاوجہ اس کا نفرنس کی مخالفت کر رہے تھے۔ ’’ راسخ العقیدہ ‘‘سرکار پرستوں کا اس سے بدکنا تو ہماری سمجھ میں آسکتا تھا لیکن جس حالت میں کانفرنس کو ہرنائی نس میر صاحب خیرپور جیسے ذمہ دار والی ریاست نے صدارت سے مشرف فرمایا ہو، قوم بلوچ کے متعدد اکابر بہ خلوص تمام اس میں شریک ہوچکے ہیں اور کانفرنس نے کوئی ’’باغیانہ وسرکشانہ‘‘ قرار داد بھی منظور نہ کی ہو، ان حضرات کی مخالفت ایک معمہ ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔
سرکار کی مزید بد کرداری ملاحظہ ہو۔انٹلی جنس بیورو، گورنمنٹ آف انڈیا نیو دہلی کی طرف سے 18 جنوری1933 کو اے جی جی بلوچستان کے پی اے کو اپنے ایک جاسوس سے حاصل شدہ یہ رپورٹ بھیجی گئی۔
’’ میں نے میندار کے اختر علی اور شمس الدین حسن کا پیچھا کیا جنہیں مولوی ظفر علی خان نے بلوچ کانفرنس اٹنڈ کرنے بھیجا تھا۔ ہم وہاں28 دسمبر کوپہنچے۔ ریلوے سٹیشن پر ہمارا استقبال کسی یوسف علی مگسی نے کیا جو کانفرنس کا چیف آرگنائزر تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بتایا جاتاہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مندوب نے اس کانفرنس میں حصہ لیا، مگرا ن میں سے محض نیم درجن لوگ لکھ اور پڑھ سکتے تھے ۔ اور نوابزادہ یوسف علی خان مگسی کانفرنس کا روح رواں تھا۔
’’یوسف مگسی کے علاوہ امین کھوسہ، عبدالقادر وکیل آف جیکب آباد، غلام رسول(سب جج آف پنجاب) عبدالصمد آف گلستان ، اخوانزادہ عبدالرحیم خان کندھاری، غلام سرور، محمد عظیم خان مزارع جام میر نوارللہ آف کوئٹہ، قاضی احسن احمد آف شجاع آباد، اور یوسف علی خان مگسی کانفرنس کے فعال ورکر تھے‘‘۔
انگریز حکام کی بدنیتی دیکھی آپ نے ؟۔ کس قدر حقارت چھلکتی ہے اس جاسوسی رپورٹ میں۔ اسی طرح ایک اورانٹلی جنس رپورٹ میں کانفرنس کے بارے میں مندرجہ ذیل لوگوں کے نام بھیجے گئے ۔
اللہ یار خان رستم رئی ، (کانک)، غلام سرورمستنگ، عبدالعزیز کرد،مرزارحیم بخش شاہوانڑیں(مستنگ)، محمد کریم مستنگ، محمد اعظم شاہوانڑیں مستنگ، میر حسن خان مگسی جھل(قلات) ،پیر بخش خان ، خدابخش کوئٹہ ، عبدالخالق اچکزئی قلعہ عبداللہ، فیض محمد یوسف زئی ،محمد حسن (سبی) ، میر بخش یا پیر بخش ولد خدابخش سومرانڑیں(سبی)،کریم بخش سبی، مٹھاخان ولد گل محمد مری سبی، میر حبیب اللہ خان شاہوانڑیں ( مٹھڑی )‘خیر بخش رئیسانڑیں( مٹھڑی)، عبدالصمد اچکزئی ، عبدالواحد اچکزئی گلستان، لعل خان اچکزئی قلعہ عبداللہ ، محمد ایوب اچکزئی سکول ماسٹر قلعہ عبداللہ، ملک محمد شفیع بروہی کوئٹہ، چاکر خان کلوئی کوئٹہ ، ملک صاحب داد کاسی، عبدالرمضان کاسی، عبدالعزیز کاسی، جام نوراللہ خان ، بلدیو صحرائی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے