خاموش ہیں صاحبان منصف
حیران ہیں رہبران مخلص
لاشوں کا کوئی وطن نہیں ہے
مردوں کی کوئی زباں نہیں ہے
اجڑے ہوئے گھر کی خامشی میں
نوحے کی ندائیں ایک سی ہیں
ماتم کا ہے لہجہ ایک جیسا
رونے کی صدائیں ایک سی ہیں
آنکھوں کی سیاہیاں ہیں مدھم
پلکوں کی قلم ہے پارہ پارہ
خوناب ہوا ہے مصحف رخ
ہونٹوں کے ہیں دائرے شکستہ
چہرے کی کتاب کے ورق پر!
زخموں نے جو حاشیے لکھے ہیں
ان سب کی زباں ہے ایک جیسی
وہ سب کی سمجھ میں آ گئے ہیں
اک پل کے لئے شب الم میں
چمکیں گے تسلیوں کے آنسو
کچھ دیر دریدہ دامنوں میں!
مہکے گی ستائشوں کی خوشبو
پھر خاک کی جلد میں چھپے گا
تعمیل وفا کا عہد نامہ!
مل جائیں گی وارثوں کو یادیں
ہو جائے گا قافلہ روانہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے