کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمہیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے

یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے
یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خرمن ہے

یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے
مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے

یہ انسانی بلا خود خون انسانی کی گاہک ہے
وبا سے بڑھ کے مہلک موت سے بڑھ کر بھیانک ہے

نہ دیکھے ہیں برے اس نے نہ پرکھے ہیں بھلے اس نے
شکنجوں میں جکڑ کر گھونٹ ڈالے ہیں گلے اس نے

بلائے بے اماں ہے طور ہی اس کے نرالے ہیں
کہ اس نے غیظ میں اجڑے ہوئے گھر پھونک ڈالے ہیں

قیامت اس کے غمزے جان لیوا ہیں ستم اس کے
ہمیشہ سینہِ مفلس پہ پڑتے ہیں قدم اس کے

کہیں یہ خوں سے فرد مال و زر تحریر کرتی ہے
کہیں یہ ہڈیاں چن کر محل تعمیر کرتی ہے

غریبوں کا مقدس خون پی پی کر بہکتی ہے
محل میں ناچتی ہے رقص گاہوں میں تھرکتی ہے

بظاہر چند فرعونوں کا دامن بھر دیا اس نے
مگر گل باغ عالم کو جہنم کر دیا اس نے

درندے سر جھکا دیتے ہیں لوہا مان کر اس کا
نظر سفاک تر اس کی نفس مکروہ تر اس کا

جدھر چلتی ہے بربادی کے ساماں ساتھ چلتے ہیں
نحوست ہم سفر ہوتی ہے شیطاں ساتھ چلتے ہیں

یہ اکثر لوٹ کر معصوم انسانوں کو راہوں میں
خدا کے زمزمے گاتی ہے چھپ کر خانقاہوں میں

یہ ڈائن ہے بھری گودوں سے بچے چھین لیتی ہے
یہ غیرت چھین لیتی ہے حمیت چھین لیتی ہے

یہ انسانوں سے انسانوں کی فطرت چھین لیتی ہے

یہ آشوب ہلاکت فتنہِ اسکندر و دارا
زمیں کے دیوتاؤں کی کنیز انجمن آرا

ہمیشہ خون پی کر ہڈیوں کے رتھ میں چلتی ہے
زمانہ چیخ اٹھتا ہے یہ جب پہلو بدلتی ہے

گرجتی گونجتی یہ آج بھی میداں میں آتی ہے
مگر بد مست ہے ہر ہر قدم پر لڑکھڑاتی ہے

مبارک دوستو لبریز ہے اب اس کا پیمانہ
اٹھاؤ آندھیاں کمزور ہے بنیاد کاشانہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے