(یکم جون 1945۔۔۔۔4اپریل2015)

انسان کی طرح اُس کی تحریک کا بھی حسب نسب اور شجرہ ہوتا ہے ۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے گرینڈ فادر کا نام لوز چیذغ تھا۔ تیس برس قبل 1989میں، سلطان کیسرانڑیں ہماری اِس ادبی اور کلچرل تنظیم’’ لوز چیذغ‘‘ کا صدر تھا اور صبا دشتیاری اس تنظیم کا نائب صدر اور خزانچی تھا۔
بعد میں تو نہیں، مگر اُن دنوں یہ دوست اور ہم کار اکثر سا تھ ساتھ ہوتے تھے ۔ اکٹھے یہاں وہاں جانا، میٹنگوں ، مشاعروں ، ادبی نشستوں میں۔
ارباب کرم خان روڈ پرڈاکٹر خدائیداد کا گھر تھا۔ گھر کیا تھاپستی فاقہ مستی کا ڈیراتھا۔ اُس نے اِس نیستی مندرکو پریم مندرکا نام دے رکھاتھا۔ چھٹی کے دن ہمارا میلہ و ہیں سجتا تھا۔ امیر الدین اپنے نیلے سوزوکی ڈبے میں آجاتا، میرے پاس موٹر سائیکل تھی، سلطان کیسرانڑیں صبادشتیاری کو ساتھ بٹھائے موٹر سائیکل پرآجاتا، جعفر کار موٹر پر، اورماما عبداللہ جان اپنی سائیکل پر۔ہم ساڑھے گیارہ بجے وہاں جاتے اور ڈیڑھ بجے تک گپیں مارتے ۔ گلی کے اُس پار چینکی ہوٹل سے جب اور جتنی بار جی چاہتا چائے منگواتے ۔ (یوں سنڈے پارٹی کوتیس سے زائد برس ہوچکے ہیں)۔
سیاست وادب موضوعات ہوتے تھے۔ ثقافت فلم ریڈیو، وڈیو۔۔۔اور پھر اُن لوگوں کے ماضی کے قصے ۔ کوئی پیری مریدی نہ تھی۔کوئی جی سائیں، ییس سرنہ تھا۔ ادب اور حجاب کے’’ شفاف ‘‘چلمن میں رہ کرآزادی سے آزاد باتیں چلتی تھیں۔
بس ایک دو گھنٹہ گپیں ،مزاج پرسیاں،جہاں داریاں، غم غلطیاں ،بے پرواہیاں ۔۔۔اور پھر ہر شخص اپنے اپنے نشیمن کو۔
جعفر اچکزئی کو اِس جوڑی میں سے صبا کا نام تو آتا تھا۔ مگر سلطان کیسرانڑیں کا نام اُس کی زبان پہ نہیں چڑھتا تھا۔ وہ بلا کا تخلیقی انسان تھا۔ اس نے صبا کو تو صبا ہی رہنے دیا مگر اُس کی جوڑی کو بل صباکہنا شروع کر دیا۔ یعنی صبانمبر 1اور ’’دوسرا ‘‘صبا نمبر2۔ اُس کے رکھے ہوئے نام میں ایک دوسری خوبصورتی یہ تھی کہ پشتو زبان میں آنے والے کل کو صبا کہتے ہیں۔ لہذا صبا تو ہوگیا آنے والا کل ۔اور پرسوں کو ’’بل صبا‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ جعفر نے ساتھ ساتھ رہنے والی اِس جوڑی کا نام رکھا: کل اورپر سوں۔
ہم مزے لے لے کر انہیں اِس نئے نام سے پکارتے تھے اور وہ دونوں مزے لے لے کر اس نام پہ ریسپانڈ کرتے تھے۔ البتہ، کبھی کبھی جعفر کو بھول جاتا تھا کہ اب اُن میں سے صبا کون ساوالا ہے اور اُس کا اپنا نام رکھا ہوا’’بل صبا‘‘ کون سا ہے۔ ہمارے دوست بڑی رنگین مزاجی سے ذمہ دار ترین کام کیا کرتے تھے۔ ہم خشک ترین چیزوں میں سے بھی مزاح کا پہلو نکالتے تھے۔
اب نہ صبا جسمانی طور پر زندہ ہے او نہ بل صبا۔ اور اس جوڑی پہ یہ خوبصورت نام رکھنے والا جعفر اچکزئی بھی ،عرصہ ہوا دمہ در گور ہوا۔اور جس جگہ پہ اُس نے اُن دونوں پہ یہ نام رکھے تھے ، اُس گھر کا مالک ، ڈاکٹر خدائیداد بھی منوں مٹی تلے پڑا، بازیچہِ اطفال کو موٹی ننگی گالیاں دے رہا ہے۔ بہا در خان رودینی ، نادر قمبرانڑیں، خلیل صدیقی ، عطا شاد اور ڈاکٹر امیر الدین سب پردہ کر گئے، اور اب تو،مست توکلی کے فکری دربار کا دربان عبداللہ جان بھی نہ رہا۔ بس ایک آدھ سرور آغا، جاوید اختر ، اللہ بخش ، جئیند خان، اور سرفراز گھوڑا ، اِس جھوٹی دنیا میں سچ کی گواہی کو موجود ہیں۔
بہت اطمینان کی بات ہے کہ اُن سب کا قائم کردہ لوزچیذغ اب سنگت اکیڈمی آف سائنسز جیسا بار آور سایہ دار ادارہ بن چکا ہے اور اس کی تہیں، بے شمار نوجوان سکالروں سے منوروتاباں ہیں۔
زندگی اپنی بنجارگی کو دوام دیے آگے بڑھتی رہی۔ اللہ بخش بزدار اُن دنوں یہاں بلوچستان میں ملازمت کرتا تھا، مسلم باغ میں شاید۔ اس لیے اُس کاکوئٹہ آنا جانا بہت رہتا تھا۔ سرفراز (گھوڑا) بھی بلوچستان میں ملازمت کرتا تھا۔ سماجی ناپسندید گیوں کا مجسم تھاوہ ۔ اب اس نے’’بظاہر‘‘ وہ سارے دنیاوی’’ مغلظات ‘‘ ترک کردیے ۔ اس نے بہت لمبی داڑھی رکھ لی ، سرپہ ناڑے جتنی چھوٹی پگڑی سجارکھی ہے ۔ ایک بہت موٹے دانوں والی بہت لمبی تسبیح سے وہ کمزور ایمان والوں کو مرعوب کرتا ہے ۔ کو انٹم تھیوری سے پیری فقیری کو جواز بخشتا ہے ۔ اور مجھ جیسے اپنے بہت کمزور عقیدہ یاروں دوستوں کو بلوچستان کی گورنری عطا ہونے (کرنے ) کی بشارتیں دیتا رہتا ہے ۔ آج کا یہ پار ساترین ،اور اُس زمانے کا یہ گناہگار ترین شخص بی اینڈ آر میں اوور سیئر تھا۔ کوئٹہ اُس کا بھی اڈہ تھا۔
یوں ہم نوجوانوں کاایک گروپ سابن گیا تھا۔اِس گروپ میں کوئی بھی ایکسٹرا اداکارنہ تھا۔ہم کیا کرتے تھے؟۔ محفلیں ، ہوٹلنگ ، کھانے ، قہقہے ، گانے، گالیاں ،بحثیں ، جھگڑے ، الجھنا، سلجھنا ۔۔۔اور یہ سب کچھ ہم انجمنِ بزرگاں سے ہٹ کر کرتے تھے۔ انسان بھی عجب ہے ، جو ان ہوتا ہے تو بزرگوں سے اپنے اعمال چھپاتا ہے، بوڑھا ہوجاتا ہے تو جو انوں سے اپنی آرزوئیں مخفی رکھتاہے!۔
ایک بھر پور ہڑ بونگ میں ہوتے تھے ہم۔ ۔۔ سلطان کیسرانڑیں ہماری محفلوں کا بارھواں کھلاڑی تھا۔ کہیں جم کے کھیلتا تھا اور کہیں بس تالیاں بجاتا تھا۔ وہ ہم لوگوں پرکوئی فتویٰ نہیں لگاتا تھا ، رد بھی نہیں کرتا تھا، مگر اُس کے عزائم ایسے معاملوں میں اجتماع والے نہ ہوتے۔انڈر گراؤنڈی تو ہماری سیاسی زندگیوں میں ملک الموت سے ملاقات کے دن تک کے لیے لکھی ہوئی ہے۔مگروہ تو اپنی سماجی اور انفرادی زندگی میں بھی زیرِ زمینی کو مسلط کر چکا تھا۔
سلطان کیسرانڑیں زبردست انداز کا سیاسی انسان تھا ۔ذمہ دار اور سمت یافتہ سوچ کامالک ۔ اُسے فیوڈل نظام سے سخت نفرت تھی۔ وہ سماج میں امیری غریبی کی ہرشکل کے خلاف تھا۔ وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی سے وابستہ تھاجس نے اپنے پروگرام میں طبقاتی نظام کے خلاف جدو جہد لکھ رکھی تھی، اور اُس طبقاتی نظام کا تختہ الٹ کر سوشلزم نافذ کرنا تھا۔ ایک منصفانہ سماج جہاں پر انسان کو ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں۔ جہاں کارخانے ، معدنیات ، اورجاگیریں کسی ایک فرد کی ملکیت نہ ہوں۔
سلطان یہی تعلیم لیتا تھا اور یہی تعلیم دیتا تھا ۔ اور ظاہر ہے کہ مارشل لا زدہ سماج میں یہ کام آپ خفیہ طور پر کرسکتے ہیں۔ لہذا بظاہرہنستا مسکراتا سلطان اصل میں متین وسنگین و سنجیدہ ترین کام کر رہا تھا۔
یہیں کہیں ہم نے ’’لوزچیذغ‘‘ قائم کیا۔ ویسے ہی ، بغیر کسی اشتعال کے۔ کسی بڑے ہوٹل وغیرہ میں نہیں، کسی کانفرنس کا نگریس میں نہیں،بس چلتے چلاتے میںیہ تنظیم کھڑی ہوگئی ۔ سماج کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے وہ اُسے پوری کرواتا ہے ۔ ہم تو اُس کی لزومیت وضرورت کے مہرے تھے، مہرے ہیں۔
سلطان کیسرانڑیں ہمارا صدر تھا۔ صبا ہمارا نائب صدر بھی تھا اور خازن بھی۔ جبکہ میں جنرل سیکریٹری تھا۔ اللہ بخش بزدار جوائنٹ سیکریٹری تھا اور جیئند جمالدینی ہمارا پریس سیکریٹری۔
اُس زمانے کی طرح میں آج بھی تسلیم کرتا ہوں کہ کام کے اندر جنون میں صبا مجھ سے کئی گناہ زیادہ محنتی ، مرکوز ، اور سرگرم تھا۔ اور فکر وسوچ کے اندر وسعت ودور اندیشی میں سلطان مجھ سے بہت اعلیٰ تھا۔ ایک رفیقانہ مسابقت میں ہم سب خیر کے اس کام میں جُت گئے۔ غیر محسوس طور پر صبا نے ادبی نشستوں کے انعقاد والا شعبہ سنبھالا، سلطان نے صدارتی بصیرت وبصارت کا محکمہ سنبھالا اور میں لوز چیذغ کی وسعت اور اس کے تنظیمی معاملات دیکھنے لگا۔
ہم جنون کی حد تک انہماک سے سیاسی ادبی کام کرتے تھے۔ اجلاسیں ، نشستیں تھیں،’’ سمیناریں ، دورے تھے ۔
یہ صلاحیتوں سے بھر پور لوگ تھے۔ اس لیے صلاحیتوں کے ٹکراؤ کے باعث یہ لوگ کبھی چیختے ہوئے اور کبھی خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کو Accomodate کرتے ہوئے چلتے رہے۔ہم میں سے صبا اس تنظیم کو مکمل طور پر ادبی رکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہماری تنظیم کو ادب سے باہر کی دنیا کی ہوا بھی نہ لگنے دینے کا حامی تھا۔ جبکہ ہم بقیہ لوگ اُسے ذرا سا وسیع رکھنا چاہتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ سوشل سائنسز پہ غوروفکر اور کچھ کچھ عمل کرتے رہنے والی تنظیم ہو ۔ اسی نیت سے ہم نے اُس کے منشور میں اُسے ایک ’’اکیڈمی آف سائنسز ‘‘ بنانے کا عزم لکھ دیا تھا۔
مگر ہم بقیہ لوگ بھی آ پس میں فکر ونظر کے اعتبار سے ایک بالکل نہ تھے ۔سلطان کی پرورش کسی اور سیاسی پارٹی کی گود میں ہوئی تھی ، میں کسی اور سیاسی پارٹی سے وابستہ تھااور اللہ بخش بالکل کسی اور سیاسی قبلہ کی طرف چلا جارہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ادیبوں دانشوروں کے اس پلیٹ فارم کو ہم ایک متحدہ ماس آرگنائزیشن کے بطور چلاتے رہے۔
ہمارا صدر سلطان کیسرانڑیں مجھ سے 9سال بڑا تھا۔گامنڑ خان باپ کا نام بتاتا تھا۔ جس کے مطلب پر، ہم بہت باتیں کرتے تھے ۔ شاید گام (قدم) سے نکلاہو۔ بلوچستان میں مطلب کا پیچھا کیے بغیر بے شمار موجود ہیں ۔
ہماری تنظیم کا یہ سلطان ،سکول ماسٹر تھا۔بعد میں ہیڈ ماسٹر ، سبجیکٹ سپشلسٹ ، کنسلٹنٹ ، اورپرنسپل تک ترقی کرتا گیا۔وہ ایم اے بھی تھا اورایم ایڈ بھی۔
درمیانے قد، فربہ جسم، موٹے پیٹ ، اور بڑے چہرے پر نظر کی موٹی عینکیں اُن دونوں کی مشترکہ خاصیتیں تھیں۔ یہ خاصیتیں انہیں اچھا خاصا دانشور بناتی تھیں۔ سلطان مسکراہٹ میں توکچھ زیادہ غنی نہ تھا، مگر، اُس کے قہقہے مزیدار ہوا کرتے تھے۔ وہ فضول سے فضول ترین باتوں کے کباڑمیں بھی اپنا قہقہہ تلاش کرلیتا تھا ، اور بغیر کسی فرمائش ، ضرورت اور اشتعال کے وہیں فی البدیہہ پیش کردیتا۔ اُس ’’ باکمال لوگ لاجواب سروس ‘‘والے قہقہوں میں اس کا صرف پیٹ ہی نہیں ہلتا تھا ،بلکہ اُس کا قہقہہ اتنا بلند وسربلند ہوتا تھا کہ کچی چھت کے نیچے بیٹھے ہوں توگرتے تنکے بالوں کا شو خراب کرتے تھے ۔اور خدائیداد کا مکان کچا تھا۔
سلطان نے ہمارے نوکیں دور میں کئی مضامین لکھنے شروع کردیے ۔ میری فرمائش تھی کہ وہ فلسفہ اور ادب کو ملا کربلوچی میں ایک کتاب لکھے ۔ اُس نے اس پہ عمل بھی کرنا شروع کردیا۔ نوکیں دور کی فائلوں میں آج بھی اُس کے مضامین ملیں گے جن کے عنوان یہ تھے:بنیاد پرستی اور ادیب ، دھشذ گڑدی او ادیب۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔وہ بہت تابعداری سے ایسا کرتا بھی رہا مگر پھر اُس کی سستی اور میری غیر ذمہ داری کی و جہ سے یہ تحریر کتاب جتنی نہ بن سکی۔
اسی طرح اس نے ماہنامہ نوکیں دور میں ’’بلوچی سیکھیے‘‘ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، وہ بھی کتابی ضخامت حاصل نہ کرسکا۔
اسی طرح اس نے بچوں کے لیے ایک کتاب لکھنی شروع کی تھی۔ مکمل بھی کر لی تھی۔ پھر معلوم نہیں وہ اُسے چھاپ کیوں نہیں سکا؟۔
ہم لوگ جتنی بھی نفس کشی کرتے رہیں ، مگر جینز میں موجود ہماری صدیوں پرانی انا کہیں نہ کہیں سرضرورابھارتی ہے ،اور اپنے مالک کو ڈنگ ضرور مارتی ہے۔ مگر سلطان خود کو انا کے لیے سواری نہ بننے دینے کو بہت کوشش اور محنت کیا کرتا تھا۔وہ ہمہ وقت اپنے اندر کے انا کو Supressکرنے میں لگا رہتا ، کبھی کامیاب اور کبھی مہلک انداز میں ناکام۔
سلطان کوئی نیا حلقہ نہ بنا سکا ، شاید وہ بنانا چاہتا بھی نہ تھا۔ وہ اپنے ،یا دیگر دوستوں کے بنے بنائے حلقوں میں ہی شامل رہتا۔
قصہ مختصر ،پونے چار سال تک چلنے والے’’ لوز چیذغ ‘‘ نے ارتقا میں اپنا لباس بدل دیا۔ رسالے کے بطور ہم نوکیں دور سے ’’سنگت ‘‘ہوچکے تھے ۔ اور ہماری نئی تنظیم ایک بار پھر یعنی چوتھی بار پراگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن بن گئی۔مگر اب یہ دونوں دوست کابینہ اور ایگزیکٹو کمیٹی میں نہ تھے اور میری بھی جنرل سیکریٹری شپ سے تنزلی ہوگئی اور میں قلاش تنظیم کا خزانچی بنادیا گیا۔ پھر ہم BJPبنے ، BSPبنے اور یوں نام وقیام بدلتے بدلتے’’سنگت اکیڈمی آف سائنسز ‘ ‘ کا چیلنجوں بھرانام اپنے کندھوں پہ رکھ لیا۔
سلطان ، بلوچستان سنڈے پارٹی کا تقریباً تقریباً ایک ریگولر وز ٹر تھا۔ یہیں اُس نے اپنے بلوچی کیے ہوئے عمر خیام کو سناناشروع کیاتھا۔وہ رباعیاں ترجمہ کرکے لاتا، اوربلوچستان سنڈے پارٹی میں سناتا۔ ماما عبداللہ جان تو اُس کی توصیف کرتا ہم حاضرین اُسے اُس میں ایسی عجیب وغریب تبدیلیوں کی تجویز دیتے ۔جن کا نہ سرہوتا تھا نہ پیر۔یہاں ہر شخص ہر چیز کا مبصر ہے!۔
صبا اور بل صبا میں ایک بڑی مشترک دلچسپی تھی، موسیقی ۔ مگر جہاں صبا ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کا دلدادہ تھا وہاں بل صبا بلوچی موسیقی کا سپیشلسٹ تھا۔ اُسے بلوچی صنف ’’دستانغ‘‘ میں مہارت حاصل تھی۔ نڑ،یا سریندا بجنے کے تین سے پانچ سیکنڈ کے اندر اندر وہ ’’دستانغ‘‘ پہچان لیتا تھا۔ اُس کی اس مہارت کو پی ٹی وی پہ ہم نے خود اسی کی زبانی بہت بارسن رکھاتھا۔علاوہ ازیں رسائل میں وہ بلوچی موسیقی ، میوزیکل انسٹرومنٹس اور فنکاروں کے بارے میں مضامین لکھتا تھا۔
موت خواہ جس صورت کی ہو غیر فطری ہوتی ہے۔ یہ حسین زندگانی کی بدصورت فاتح ہے ۔ اب تک تو یہ زندگی کو ختم کر رہی ہے مگر حتمی ہے کہ زندگی اس پر قابو پالے گی ۔ صبا کی موت گولی سے ہوئی۔
بل صبا یعنی سلطان اِس جھوٹی دنیا میں کچھ اور دن جیا۔ اپنے قہقہے بکھیرتا ، اپنے بچوں کو تعلیم دلاتا رہا، سیاسی وادبی کام کرتارہا۔پھر اُسے کینسر ہوگیا۔ اُس نے کراچی اور کوئٹہ کے چکر لگانے شروع کردیے۔ خرچ اخراجات کے باوجود اس بہت تکلیف دِہ ،اور ہولناک بیماری کے ہاتھوں سلطان کی زندگی کے آرکسٹرا کا ڈرم مفل ہوتاگیا ۔اوربہت مختصر وقت میں زور آور اور بے محابا موت ،اُسے یاروں ، دلداروں ، محفلوں ، اور علم گاہوں سے بہت دور لے گئی۔
صبا بھی گیا ، بل صبا بھی گیا۔
صبا بھی آئے گا،بل صبا بھی آئے گا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے