کتاب : گندم کی روٹی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 96
قیمت 150 روپے
مبصر : عابدہ رحمان

کسی نے ایک بہت اچھی بات کہی ہے کہ ’ جب آمریت ایک حقیقت بنتی ہے تو انقلاب ایک حق بن جاتا ہے‘۔اور پھر کارل مارکس کہتا ہے کہ ’ تاریخ میں تمام گزشتہ معاشروں میں طبقاتی جدوجہد رہی ہے‘۔
عبدالستار پردلی صاحب کی خوبصورت کتاب ’سوب‘ کا اتنا ہی خوبصورت ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا ترجمہ ’ گندم کی روٹی‘ میں بھی طبقاتی جدوجہد اور ایک انقلاب کا قصہ ہے ۔یہ کتاب افغان انقلاب کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ کہنے کو تو ناولٹ ہے لیکن اس ناولٹ میں وہ تمام لوازمات پوری طرح سے موجود ہیں جو کسی بھی ناول کے لئے ضروری ہوتے ہیں یا جو ناول کو ناول بناتے ہیں۔ادب برائے ادب کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ادب برائے زندگی سب کچھ ہوتا ہے کہ جو قاری کو ایک سوچ دے جائے ۔ اور اس ناول میں ظلم ، ناانصافی، جبر پر خاموشی کی تلقین ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ایک بھرپور مذاہمت دکھائی گئی ہے۔ ہمیشہ سے جو یہ بات زیرِ بحث آتی ہے کہ بلوچستان میں طبقات ہیں یا نہیں ہیں ، یہ ناول پڑھ کر ہم سب پر واضح ہو جاتا ہے کہ بلوچستان میں طبقات بھرپور انداز میں موجود ہیں اور بلوچستان میں طبقاتی سیاست کرنے والوں پر اس ناول کی صورت میں بلاشبہ ایک طمانچہ ہی ہے کیونکہ جس طرح کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اپنا مفاد برقرار رکھنے کے لئے سوشلزم کے معنی بدل دئے جاتے ہیں بلکل ایسے ہی طبقاتی سیاست کرنے والے طبقات کے وجود سے ہی انکاری ہیں جبکہ ان کی سیاست انھی طبقات کے گرد گھومتی ہے۔
مجموعی طور پر کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
پہلا باب ؛ دل مراد نامی نوجوان اپنے دو چھوٹے بھائیوں محمد خان،دل مرید، ایک بہن شاہ پری اور بیوہ ماں کے ساتھ رہتا ہے۔گاؤں کے جاگیردار حاجی خان سے باپ کے قرض کے بدلے اس کا پورا خاندان اس کی زمینوں اور اس کے گھر میں کام کرتا ہے۔محمد خان کا خاندان غربت کی ایک وحشت ناک تصویر ہے کہ شدید سردی میں بھی اس کے بھائی بنا جوتوں اور شلوار کے اور اس کی بہن بنا دوپٹے کے رہتے ہیں۔گھر کو گرم رکھنے کے لیے ظالم حاجی خان اپنی زمینوں سے جھاڑیاں تک نہیں توڑنے نہیں دیتا تھا۔ایک عرصے سے وہ گندم کی روٹی کھانے کو ترس رہے تھے۔ عید اور ایک عام دن میں ان کے لیے کوئی فرق نہیں تھا۔ سارا سال کھیتوں میں کام کرنے کے بعد جب فصل تیار ہو جاتی تو آدھا مالک مالیہ اور ٹیکسوں کے نام لیتا، تیسرا حصہ ملا عبدل،لوڑی اور دوسروں کا حصہ ہوتا اور چوتھا حصہ چھ میں تقسیم ہو کر چھ کسانوں میں بٹتا۔ محمد خان اور اس کی طرح کے بے تحاشا کسان سالہا سال سے یہ مظالم برداشت کئے جا رہے ہیں۔ لیکن شاید کسی روشن خیال لیڈر کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جو محنت کشوں اور استحصال زدہ لوگوں کو شعور دے، ان کے اپنے حقوق سے روشناس کرائے اوراس کے حصول کے لڑنا سکھائے۔
کتاب کا دوسرا باب ، جس میں حاجی خان تیرہ سالہ شاہ پری کو 70 سالہ داد خدا سے20 بھیڑیں بطورِ لب لے کر زبردستی بیاہ دیتا ہے۔اور مُلا عبدل سے سند بھی لکھواتا ہے کہ داد خدا نے 20 بھیڑیں حاجی خان کو فروخت کر دی۔ اورایک لیلے کی صورت میں مُلا عبدل کو بھی کمیشن دیا۔
کسی بھی معاشرے کی سماجی ترقی اس بات سے ہی پتہ چل جاتی ہے کہ اس معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے اور یہ روس، چائنہ، افغانستان میں تو تھا ہی کہ عورت کا کس کس طرح سے استحصال کیا جاتا رہا لیکن ناول پڑھ کر ہم اپنے ملک کے حوالے سے بھی تقابلی جائزہ لے سکتے ہیں کہ یہاں کس کس طرح سے عورت کا استحصال کیا جاتا ہے۔
محمد خان اور دل مراد کے گھر آنے پر جب ان پر یہ عقدہ کھلا تو وہ بہن کو لینے حاجی خان کی طر ف گئے لیکن انھیں مار پیٹ کر درختوں سے باندھا گیا۔ یہ ظلم معصوم شاہ پری نہ دیکھ سکی، اپنی جیب سے بھائی کا دیا ہوا خنجر نکال کرخود کشی کر لی۔ خبیث حاجی خان کے ظلم کا حال دیکھئے کہ اس نے شاہ پری کے قتل کا الزام محمد خان اور دل مراد پر دھرا اور حاکم اور کمانڈر نے انھیں مجرم بنا کر دس دس سال کی سزا دلا کر جیل کے اندھیروں کے حوالے کر دیا اور بنا جرم کے وہ مجرم بن گئے ۔ لیکن یہاں قسمت کی چال دیکھئے کہ جیل کے وہ اندھیرے ان کے لیے روشنی ثابت ہوئے کہ جہاں ان کی ملاقات مزدوروں ، کسانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے گمشاد سے ہوئی۔وہ طبقاتی سماج اور طبقاتی جدوجہد پر بولتا تھا، سوشلزم کو ہی اصل نظام گردانتا تھا۔ گمشاد نے ان دونوں بھائیوں سمیت 20 قیدیوں کو علم کی روشنی دینا شروع کی، شعور دینا شروع کیا۔ انھیں بتایا کہ تمھارے ہاتھوں کے چھالیاں بزدل سود خوروں کے لیے زمین بن گئے۔ انھیں فیوڈل، کمپراڈور، بیوروکریٹ کی صورت میں طبقاتی دشمنوں کی پہچان کرائی۔ بین الاقوامی دشمن ،سامراج کی پہچان کرائی کہ وہ سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے طبقاتی مفاد کو خطرہ ہے۔
تیسرا باب؛ نوجوانوں کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ گمشاد نے قیدیوں کو ترقی پسند ناولوں سے روشناس کرایا۔ گورکی کا ناول ماں، How the steel was tempered ، رحمان اور دوسرے بہادروں کے سوانح اور فلسفہء حیات شامل تھے۔ انھیں سماجی شعور دیا، انقلابی نظریے سے واقفیت دی کہ مزدوروں کے ترقی پسند نظریے کو اپنے سماجی حالات کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہوئے ۔ دو سالوں میں تین کورس جن میں فلسفہ، آئیڈیلزم و مٹیریلزم ، دوسرا مارکسزم، لینن ازم اور تیسرے کورس میں یہ کہ سوشلزم کیا ہے؟ عوام کون ہیں ؟ اور دشمن سے کس طرح مقابلہ کرنا ہے؟
دس برس بیت گئے اور محمد خان اور دل مراد دوسرے قیدیوں سمیت رہا ہو کر گمشاد سے اس وعدے کے ساتھ الگ ہوئے کہ عوام کے طبقاتی شعور بلند کرنے اور منظم کرنے کے لیے ہر قسم کی جدوجہد کریں گے۔ انھیں دراصل سمجھ آگئی کہ جاگیردار طبقہ اپنا طبقاتی مفاد برقرار رکھنے کے لیے سوشلزم کے معنی بدلتے ہیں۔ انھوں نے جاگیردار اور اس کے چمچوں کو بہ آوازِ بلند للکارا اور محنت کشوں کی تنظیم کاری کی۔
کارل مارکس نے ایک اور جگہ کہا ہے کہ ’ دنیا کے محنت کشوں ایک ہو جاؤ، کہ تمھارے پاس سوائے زنجیریں کھونے کے اور کچھ نہیں‘۔ لہٰذا کارل مارکس کے اس قول پر عمل پیرا ہو کر تمام محنت کش اور کسان ایک ہو گئے اورکسانوں نے اپنی پہلی ہی ہڑتال میں اپنے مطالبات منوائے اور اس طرح پہلی ہی ہڑتال کامیاب ہوئی لیکن فیوڈلوں نے وعدہ خلافی کی اور کسانوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے ۔ اور پھر الیکشن میں دل مراد کھڑا ہو کر الیکشن جیت گیا۔
چوتھا باب؛ ’ دل مراد حق لیتا ہے‘ کے نام سے ہے۔ اس باب میں افغانستان کی خلق ڈیموکریٹک پارٹی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ خوف کی وجہ سے حکومت نے جان چھڑانے کو پارٹی کے ایک رہنما کوقتل کر دیا۔ پارٹی نے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کیا لیکن حکومت نے رہنماؤں کو جیل بھیج دیا۔
27 اپریل 1978 کو فوجی بغاوت ہوگئی اور دس گھنٹوں کے اندراقتدار فیوڈلوں سے خلق پارٹی کے محنت کشوں کے ہاتھوں میں آیا۔ پارٹی نے سود و رہن، لڑکیوں کی خرید و فروخت ( لب، ولور) جیسے گھناؤنے کاروبار ختم کیے۔ زمینوں کی جمہوری تقسیم کی۔ زمین کی جمہوری اصلاح کی علاقائی کمیٹی کی میٹنگ میں صدردل مراد نے کہا’ ہمارے وطن میں فیوڈل ازم اپنی قدیم شکل میں موجود ہے۔ فیوڈل نظام کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے اور اس کے طر فداروں کو گم کرنے کا کام آسان نہیں ہے۔ ہمارا طبقاتی دشمن ابھی تک بہت طاقتور ہے۔ ہم نے اس صرف سیاسی اقتدار چھینا ہے مگر اس کا اقتصادی اقتدار اب بھی برقرار ہے۔ رجعت پسندوں کا قتدار کبھی بھی محنت کشوں کے سیلاب کے سامنے نہیں ٹھہرسکتا اور اگر وہ اس کا راستہ روکنا چاہیں بھی تو اپنا سر گنوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے‘۔
دل مراد نے حاجی خان کے گھر سے قرض و سود کے تمام رجسٹر جلا دیے اور عوامی عدالت کے مطابق حاجی خان، اللہ داد اور مُلا عبدل کو پھانسی دی گئی۔دوسرے فیوڈلوں میں سے بھی ضدی کو قتل کر دیا گیا اور باقی جو زرعی جمہوری اصلاحات کے خلاف تھے انھیں قید کر لیا گیا۔
کتاب کے آخری باب میں جو ’ کسان کمیٹی‘ کے نام سے ہے، میں زمین کی پیداوار میں اضافے کے لیے زرعی جمہوری اصلاحات، انقلابی حکومت کے انقلابی اقدامات کے بنیادی فلسفے کے تحت ہوئے۔
بیس کسانوں نے اپنی اپنی زمیں ملا کر ایک کمیون بنایااور پیداوار کو آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ کسانوں کو ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کیمیائی ادویات اور کیڑے مار دوائیں اورریپر فراہم کیے گئے۔
کوآپریٹو کمیٹی اور زمین کی اصلاحات کی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس ہوئے۔ نہریں اور برقی اسٹیشن بنا کرپانی کی کمی کو پورا کیا گیا۔مویشی بانی کو ترقی ہوئی، پیداوار بڑھی اور خوش حالی آگئی۔
بین الاقوامی ادب کا اپنی زبانوں میں ترجمے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جو کسی نہ کسی طرح ہمارے حالات اور مسائل سے لگا کھاتے ہیں اور قاری اسے پڑھ کر وہ کچھ حاصل کرے کہ جو اس کی زندگی میں مددگار ہو اور ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کے ترجمے کا مقصد بھی یقیناًیہی ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کے تراجم کی خوبی یہ ہے کہ وہ جوں کا توں ترجمہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی خیال قائم رہتا ہے۔
کتاب پڑھ کر ایک دفعہ پھر ثابت ہوا کہ جدوجہد کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنی منزل کا پتہ ہو اورپھر منظم ہوا جائے، ایک ہوا جائے تب ہی کامیابی ہمارے قدم چُومے گی!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے