ذرا سی خاک بھی اس کی اٹھان میں گم ہے
وہ اک پرندہ جو اونچی اڑان میں گم ہے

ہر ایک دل کہ پرکھتا ہے قیمتِ اشیا
ہر اِک نگاہ یہاں پر دوکان میں گم ہے

وہ جس کے ماتھے پہ گِنتے ہو تم ستاروں کو
میری زمین اسی آسمان میں گم ہے

کہیں تمھیں بھی بنا ڈالے یہ نہ آئینہ
یہ آئینہ جو تمھارے گمان میں گم ہے

حسین لگتا ہے وہ پھول ہو کہ صحرا ہو
نگاہ جب سے اس ابرو کمان میں گم ہے

وہ بات جس کو میں کہنے یہاں تک آیا ہوں
سنو وہ بات کہیں درمیان میں گم ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے