وہ یہیں کہیں پر ہے یا جہاں سے باہر ہے
ڈھونڈتی ہوں میں جس کو وہ گماں سے باہر ہے

اسکی وسعتیں کوئی کیسے جان سکتا ہے
جو زمیں کے اندر اور آسماں سے باہر ہے

فکر اور فن اسکا ہے ہر اک سخن اسکا
وہ مکان والا جو لا مکاں سے باہر ہے

خواب میں حقیقت میں درد میں محبت میں
سب میں ہیں ظہور اسکا جو زماں سے باہر ہے

دل کے اس تعلق میں سود اور زیاں کیسا
یعنی یہ تعلق تو ہر زیاں سے باہر ہے

اک خیال مبہم سا میرے اندروں میں ہے
جس کو کہنا چاہو پر وہ بیاں سے باہر ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے