پڑھتے پڑھتے وولودیا اپنی کتاب سے سر اٹھا کر گھڑی کو دیکھتا تھاتووہ کہتا تھا کہ گھنٹے کتنی جلدی گزر گئے ہیں۔پھر وہ نیچے آتا اور کچھ وقت اپنی والدہ کے ساتھ گزارتا تھا۔اولیا کے کمرے سے موسیقی کی آواز آرہی ہوتی تھی۔وہ چیکووسکی کے گانے گارہی ہوتی تھی۔گھر کے سب لوگ خاموش ہوجاتے جونہی وہ موسیقی سنتے تھے۔اسی دوران ساشا نے گرامر اسکول سے گولڈ میڈل کے ساتھ گریجویشن کیااورمزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے سینٹ پیٹرسبرگ یونی ورسٹی میں داخل ہوا۔اس کی روانگی کے دن وہ اور وولودیا دریائے والگا کے کنارے گئے،جو ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔وولودیا نے ساشا سے پوچھا۔تم کو ن سی باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہو؟اس نے جواب دیا۔کام،علم اور ایمان داری کو۔پھر ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس نے کہا۔میرا خیال ہے کہ والد ان سب کی بہترین مثال ہے۔جب ستمبر 1883ء میں ساشا گھر چھوڑ کر سینٹ پیٹرسبرگ یونی ورسٹی میں داخل ہونے جاررہا تھا،ایلیا نے اس سے درخواست کی :اپنا خیال رکھنا’اور ہر قسم کے سیاسی خیالات سے گریز کرنا۔ساشا نے ایسا کرنے کاوعدہ کیا۔جب ساشا اوراینا سینٹ پیٹرسبرگ پڑھنے گئے تو ان کے والد نے ان کا ماہانہ خرچ چالیس روبل مقرر کیاتھا۔جب کہ ساشا بضد تھا کہ انہیں صرف تیس روبل کافی ہیں۔لیکن ان کے والد نے انہیں چالیس روبل ماہانہ کے حساب سے خرچ بھیجنا جاری رکھا۔چنانچہ ساشا نے دس روبل ہر ماہ بچت کرکے آٹھ مہینوں بعد اسی روبل اپنے والد کو واپس لوٹا دیے۔ یونی ورسٹی پہنچ کر وہ مینڈیلیف کو پڑھنے میں بہت مسرت محسوس کررہا تھا،جس کے "Periodical Law” نے کیمسٹری کی دنیا میںں انقلاب برپا کردیا تھا۔اس وقت عملی سیاسی سرگرمیوں کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔کیوں کہ نارودنایا وولیا1881 ء تحریک کے دہشت گرد اپنے عمل میں تقریباً تھک ہار کے ختم ہوگئی تھی۔اس کی سرگرمیوں میں جو لوگ ملوث تھے ان میں ویرا فگنر اور لوپاٹکن پولیس کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ساشا نے جو پہلا خط اپنے والدین کو روانہ کیا اس میں یہ کہانی تھی:وہ ٹرگنیف کی وفات کے فوراً بعد پیٹرسربرگ پہنچا۔اس کی لاش فرانس سے لائی گئی ۔پیٹرسبرگ کے دانشور اس عظیم مصنف کو آخری خراجِ تحسین پیش کرنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ساشا تحریر کرتا ہے:
” آج ٹرگنیف کا جنازہ تھا۔ہم اینا کے ساتھ گئے اور جلوسِ جنازہ دیکھا: پھولوں کی بہت سی چادریں،لوگوں کا ہجوم اور سونے کا تابوت پھولوں اور ہاروں سے لپٹا ہو ا تھا۔لیکن قبرستان میں داخل ہونا ممکن نہیں تھا(پولیس نے وہاں پہنچنے سے روکا ہوا تھا)۔لوگ جو وہاں موجود تھے ،انہیں کہا گیا کہ صرف چار تقریریں کی جائیں گی(مقررین میں سینٹ پیٹرسبرگ کا پرنسپل ،جو ایک آزاد خیال قدامت پسند)۔ماسکو کا ایک پروفیسر اور دو نسبتاً کم اہم ادیب تھے۔ان کے علاوہ کسی کو بھی بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔”ٹرگنیف اولیانوف خاندان کا پسندیدہ ادیب تھا۔جب گھر کے سب افراد اکٹھے ہوتے تھے تواس کی کہانیاں اور ناول بہ آوازِ بلند پڑھے جاتے تھے۔وہ سب اس کی قوتِ بیان اور اسلوبِ تحریر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔لہذا ساشا اور اینا کا ٹرگنیف کے جنازے میں شرکت کرنا ضروری تھا۔اگر ایلیا خود بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں موجود ہوتا تو وہ بھی ان کے ساتھ والکوفو قبرستان جاکر ٹرگنیف کے جنازے میں ضرور شریک ہوتا۔حالاں کہ ٹرگنیف کوئی انقلابی ادیب بھی نہیں تھا۔اگر وہ انقلابی ادیب ہوتا تو کبھی بھی یہ نہ کہتا کہ اس کے نزدیک ڈی ملو کی وینس1779ء کے انقلابِ فرانس کے اصولوں کی نسبت زیادہ مسلمہ اور مصدقہ ہے۔وہ ایک آزاد خیال ادیب اور فن برائے فن کے نظریے کا قائل تھا۔اس نے اس بنیاد پر انقلابی جمہوریت پسندوں کی سخت مخالفت کی اور زار شاہی کی حمایت کی۔اینا اورساشا اسی بات پر حیران ہوئے کہ آخر زار حکومت اس کے خراجِ تحسین سے کیوں خوف زدہ تھی؟ اس سوال نے انہیں اگلے کچھ مہینوں تک حیران و پریشان کیے رکھا۔تین برس بعد اسی قبرستان میں کچھ اس قسم کے واقعات رونما ہوئے،جنہوں نے ساشا کو انقلابی جدوجہد سے مربوط کردیا۔
ساشا 19فروری کو طلبا تنظیم کے منتظم کی حیثیت سے ایک سیاسی مظاہرے میں شامل ہوا،جو الیگزینڈر دوم کی پچیسویں برسی کے موقع پر عظیم اصلاحات کی یاد میں کیا گیاتھا۔اس سے پیشتر نرودونک، ناردونوولٹسکی اور تمام انقلابی جمہویت پسند دانشوروں نے ان اصلاحات کو فریب قراردیا تھا۔طلبا نے زار الیگزینڈر سوم کی حکومت کی زبردست مخالفت کی۔طلبادراصل اس کے جبروتشدد کے سناٹے کوتوڑناچاہتے تھے،جوبالعموم سارے روس پر اور بالخصوص پیٹرسبرگ پر چھایا ہوا تھا۔ساشا کو پھر اگلے سال اسی قبرستان میں مشہورانقلابی جمہوریت پسنددانشور اور ادبی نقادڈوبرولیبوف ،جسے کارل مارکس نے روس کا لیسنگ اور دیدرو قراردیا تھا، کے جنازے کا منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔لیکن ابھی تک ساشا مکمل طور ہر اپنی پڑھائی میں مصروف تھا۔اس دوران اس کے تحریرکردہ خطوط،جو اس نے اپنے والدین کو تحریر کیے تھے،سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروفیسروں کے لیکچروں سے بالکل مطمئن تھا۔اسے سائنسی سازوسامان سے لیس یونی ورسٹی کی تجربہ گاہیں اور کتابوں سے بھرپور لائبریریاں بے حد پسند تھیں۔اس کی سائنسی دلچسپیاں زوالوجی،بائیالوجی اور کیمسٹری تک وسیع ہوگئی تھیں،جن سے وہ لطف اندوز ہوتا تھا۔اس کے خطوط بہت مختصر اور غیردلچسپ قسم کے تھے،جن میں روزمرہ کے واقعات کا بیان ہوتا تھا۔انہیں پڑھ کر تو اس کی سیاسی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا اندازہ لگانابالکل بھی ناممکن ہے۔ساشا اپنے والد کے لیے پیٹرسبرگ سے جرائدورسائل،اولگا کے لیے موسیقی کی کتابیں اوروولودیا کے لیے لیو ٹالسٹائی کی کتابیں بھیجتا تھا۔جیسا کہ اس نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا:’میں اباجان کے لیے ریاضی کی ایک مشہور کتاب”Methematical Sophism”بھیج رہا ہوں،جو اسے چاہیے تھی۔میرا خیال ہے کہ یہ وولودیا کے لیے بھی مفید ہوگی گر وہ ان سوالوں کو خود حل کرنے کی کوشش کرے،کیا اسے جرمن تراجم مل گئے ہیں،جو میں نے اسے بجھوائے تھے۔’اس کے خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پیٹرسبرگ میں تنہائی کی زندگی بسر کررہا تھا۔اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔حتیٰ کہ وہ اپنی نجی زندگی کے بارے میں اپنی بہن اینا سے بھی بہت سی باتیں چھپاتا تھا،جو اس کے ساتھ پیٹرسبرگ میں پڑھ رہی تھی۔
معمول کے مطابق ساشا پڑھنے بیٹھتا تھا۔وہ ہمیشہ سنجیدہ اورخاموش طبع تھا، سائنسی موضوعات پرکتابیں پڑھتا تھا۔وہ ڈارون،ہکسلے،سپینسر اور مل کی کتابیں پڑھتا تھا۔شروع شروع میں وہ دوستووسکی کے ناول پڑھتا تھا۔لیکن بعدازاں اس نے سائنس کے مطالعے کا فیصلہ کیا۔کیوں کہ اس کی دلچسپی کیمسٹری اور فطری سائنسیز میں تھی۔موسمِ گرما میں اولیانوف کا خاندان سمبرسک اورکوکوشکینو میں ہمیشہ متحد ہوتا تھا۔یہ آخری موسمِ گرما تھا،جب ساشا نے اپنے خاندان کے ساتھ تعطیلات منائی تھیں۔اس نے کوکوشکینو میں ایک بوسیدہ سے باورچی خانے کو ایک سائنسی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا تھا،جس میں وہ ٹیسٹ ٹیوب اور گلاس پائیپ کے ذریعے کیمیائی تجربے کرتا تھا۔اس نے خود کو اسی تجربہ گاہ میں مقید کررکھاتھا۔اس کے والدین اس کی روز بروز تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے بارے میں بہت فکرمند تھے۔کیوں کہ وہ زرد اور کمزور ہوگیا تھا۔اس لیے اس کے والدین اسے اس تجربہ گاہ کی گھٹن سے باہر نکالناچاہتے تھے۔تاکہ وہ کھلی فضا میں سانس لے سکے۔اس میں کھیل کودسکے اور سیر کرسکے۔ایلیا اسے ہمارا فلسفی یا ہمارا دریافت کندہ کہہ کر چھیڑتا تھا۔ساشا بادلِ نخواستہ اپنی تجربہ گاہ سے کچھ دیر کے لیے باہر آتا تھا۔لیکن جلد ہی وہ اپنی تجربہ گاہ میں واپس لوٹ جاتا تھا۔وہ ایک ایسی کتاب” داس کیپیٹل”کے مطالعے میں مستغرق ہوتا تھا،جس کے بارے میں اس کے خاندان کے افراد میں سے کسی نے بھی پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ وولودیا اور ساشا کے تعلقات دوستانہ تھے۔ساشا یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔اینا نے ایک روز اس سے کہا کہ ہمارا وولودیا بھی اب یونی ورسٹی میں آنے والا ہے۔ساشا نے کہا بے شک وہ بہت قابل ہے۔
موسمِ سرما کی تعطیلات اپنے اختتام پر تھیں اور اینا سینٹ پیٹرسربرگ واپس لوٹ کرجانے والی تھی۔وہ چھٹیاں گزارنے گھر آئی تھی ۔لیکن ساشا اس کے ہمراہ نہیں آیا تھا ۔کیوں کہ دونوں کا کرایہ بہت زیادہ تھا۔اینا اپنے خاندان کے لیے بہت اداس تھی۔اب وہ سب سے مل کربہت خوش ہوئی تھی۔اس نے گھر کی ہر ایک چیز کو دیکھا۔اس نے اپنی والدہ کے پرانے پیانو کو بھی دیکھا۔اب اس پیانو کو صرف اس کی والدہ ہی نہیں بجاتی تھی۔بلکہ اکثر وولودیا بھی اسے بجاتا تھااور اس کی چھوٹی بہن اولیا بھی اس کی ماہر ہوگئی تھی۔وہ اکثر اوقات پیانو پر اپنی مدہر آواز میں گیت گا کر سب گھر والوں کو محظوظ کرتی تھی۔اس دوران وولودیا اپنی بہن اینا کے بہت قریب رہا۔وہ اکٹھے سیر پر جاتے تھے۔وہ صوفے پر اکٹھے بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتے۔اینا اسے سینٹ پیٹرسبرگ کے بارے میں باتیں بتاتی ۔اولیا بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سینٹ پیٹرسبرگ کی زندگی کے بارے میں کہانیاں سنتی۔وولودیا اور اولیا کہتے تھے کہ ان کی باری کب آئے گی۔؟12جنوری1886ء کے دن وہ حسبِ معمول ہال میں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ ان کی والدہ نے انہیں بلایا آؤ بچو چائے پیو۔وہ اٹھے اور اپنے والد کے مطالعے کے کمرے میں جھانکنے لگے۔ جیسا کہ وہ اپنے بچپن سے کرتے آرہے تھے۔
کھانے کا کمرہ بہت گرم تھا۔اینا نے دوبارہ باتیں شروع کیں۔اس نے کہا کہ ساشا ایک سائنس دان بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کچھ وقت بعدوولودیا بھی یونی ورسٹی میں داخل ہوجائے گا۔اولیا شائد بڑی ہوکر پیانو کی ماہر بنے گی۔کیوں کہ اس نے اس میں بہت ترقی کی ہے۔وہ ایک پرعزم اور محنتی لڑکی ہے۔دریں اثناان کی والدہ ان کے والد کے لیے چائے کا گلاس لے گئی تھی اور اب بیٹھ کر سوئٹر بن رہی تھی ۔وہ ان کی باتیں سن رہی تھی۔کچھ دیر کے بعد ان کا والد اپنے مطالعے کے کمرے سے باہر نکلا۔اس نے انہیں غور سے دیکھا اور پھر واپس چلا گیا۔وولودیا نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ کچھ ٹھیک نہیں دکھائی دیتا ہے۔ان کی والدہ نے اچانک کہا کہ میں اندر جا کر دیکھتی ہوں اور وہ اندر گئی۔اس نے چلا کر کہا۔بچو تمہارا والد صوفے پر لیٹا ہوا ہے۔اس پر شائدسردی نے حملہ کیا تھا۔بچے فوراًدوڑے اور ڈاکٹر کوبلا لائے۔لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا اورایک گھنٹے کے بعد وہ سب اپنے پیارے والد کے سایہِ شفقت سے محروم ہوگئے۔وہ صرف پچپن برس کا تھا۔ڈاکٹروں کے مطابق اس کی موت Brain haemorrhageسے ہوئی تھی۔اس وقت ساشا کی عمر بیس برس اور وولودیا کی عمر سولہ برس تھی۔اس سانحے کا اولیانوف بچوں کے ذہنوں پر بہت گہرا اثر ہوا۔
ایلیا کے جنازے میں بہت سے لوگوں نے شرکت کی۔وی وی کا شکادوموفا (لینن کی ٹیوٹر)لکھتی ہے : "گھر لوگوں سے بھر پور تھا۔ اولیانوف کا سب سے چھوٹا بیٹا متیا(ڈمٹری) ،جسے بڑے بوڑھے اس میت سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے،دوڑتا ہوا آیا اور زور سے چلایا:’ یہ میت کی پانچویں رسم تھی،جو وہ آج یہاں منا رہے تھے۔ماریا الیگزینڈر وفاوتابوت کے ساتھ زرد ،خاموش اور بغیر آنسوؤں یا شکایت کے کھڑی تھی’۔لوگوں کا ایک بہت بڑا اژدہام اولیا نوف کی گلی میں جمع تھا، جب ایلیا کا تابوت اٹھایاگیا” ۔(14)کاشا کا دا موفا مزیدتحریر کرتی ہے: "ماریاخود میں کھو کر اپنے واقف لوگوں اور سماج سے الگ کرکے اور اس نے خود کو شدت کے ساتھ اپنے خاندان سے وقف کردیا۔”(20)
ایلیااپنے پیچھے کوئی بھی جمع پونجی نہیں چھوڑ گیا تھا۔ ماریا نے اپنے اور بچوں کے لیے پنشن کی درخوست دی۔جب کئی مہینوں تک اس کی درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے دوبارہ درخواست دی۔ آخر کار اسے اور بچوں کو بارہ سو روبل سالانہ پنشن مل گئی ۔یہ رقم اس قدرکافی نہیں تھی کہ ان کا گزارہ ہوتا۔لہذا اس نے اپنے گھر کے آدھے حصے کو مختلف کرائے داروں کو کرائے پر دے دیا۔ وولودیا اس وقت سولہ برس کا تھا۔ ساشا والد کے جنازے میں نہیں آیا تھا۔ کیوں اسے یہ خبر تا خیر سے ملی تھی۔ وہ اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ امتحان میں وہ امتیازی حیثیت میں کامیاب ہوا اور اس نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس نے اپنی والدہ کو ایک مختصر سا خط لکھا کہ اسے زوالوجی پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر گولڈ میڈل ملا ہے۔اس کی والدہ نے جب اس خط کو پڑھا تو فرطِ مسرت سے اس کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے ۔ابھی اس قیامت نے دم ہی نہیں لیا تھا کہ اس کے ایک سال بعدیکم مارچ 1887ء میں اولیانوف خاندان پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔اس دن وولودیا کو سکول سے ابھی چھٹی ہی ہوئی تھی کہ ایک پیغام رساں سکول سے باہر اس کا انتظار کررہا تھا۔اسے اس کی استانی ویرا کاشکاداموفانے بھیجا تھا۔اس نے اپنے پیغام میں کہا تھاکہ میرے گھر فوراً پہنچو۔وولودیا جب اس کے گھر پہنچا تووہ اپنے گھرزرد چہرے اور گھبراھٹ میں اس کا انظار کررہی تھی۔اس نے وولودیا کواس کی والدہ کے ایک رشتہ دار کا خط دیا،جس پر پیٹرسبرگ کے ڈاک خانے کی مہر ثبت تھی۔اس خط میں مرقوم تھا۔سینٹ پیٹرسبرگ یونی ورسٹی کے طالب علموں کے ایک گروہ نے یکم مارچ کو زاِر روس الیگزینڈر سوم کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی کوشش ناکام ہوئی ہے اوراس سازش کا راز فاش ہونے پر وہ تمام لڑکے گرفتار ہوچکے ہیں اور گرفتارشدگان میں اس کا بھائی الیگزینڈر بھی شامل تھا۔یہ خبر پڑھ کروولودیا پرگویا بجلی گر گئی اور وہ بہت دیر تک سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔وہ ساشا کے بارے میں سوچنے لگا۔اس کی بڑی بہن اینا کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔کیوں کہ وہ اس وقت الیگزینڈر کے کمرے میں داخل ہوئی۔جب پولیس اس میں اپنی تفتیش کررہی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے