اْس سے آواز کا سلسلہ منقطع ہی رہا
فرطِ حیرت میں گم
اْس کو چْپ چاپ تکتے رہے
وہ سنورتا رہا
جانے کتنے ہی رنگوں میں ڈھلتا رہا

مختصر ’’ وہ بدلتا رہا ‘‘

ہم بہت دیر گریہ کیے
سر بہ سجدہ ہوئے ، ضِد کیے
ایڑیاں بھی رگڑتے رہے اور اثر نہ ہوا
تِشنگی ۔۔۔. تیرا شکوہ بجا
کوئی دریا نہ ہم کو میسر ہوا
نہ کنارے لگے

دل عجب بے دلی میں گرفتہ رہے
بے سبب لاحقے روگ سارے لگے
واہمے ، آنکھ اور خواب کے درمیاں
فاصلے ہیں سو کم نہ ہوئے

نہ بدل پائے آب و ہوا
مْعاملہ اک گھٹن میں رہا
روز کی طرح معمول سے
رات اْس نے بھی
کھڑکی میں کاٹی ہے اور
میں بھی بستر پہ کروٹ پہ کروٹ بدلتا رہا ۔۔۔.!! ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے