بلوچستان میں انسان اور درخت ایک ساتھ کٹ رہے ہیں۔ خوف کے اس عالم میں سوکھے کی شکایت بجا ہے۔ جب خونی ماحول سراٹھاتا ہے روح گھائل ہوتے ہیں،پائل کی جھنکار کی بجائے ہتھکڑیوں کی بھاری آواز سے سناٹا چھا جاتا ہے۔ سرزمین کی ویرانی کو دیکھ کر پرندے اپنا ٹھکانہ بدلتے ہیں۔ زمین کی رنگت بدلتی ہے ۔ سیاہ کارناموں میں اضافہ ہوتاہے۔
ملک الموت کی انگلی کے اشاروں سے بڑے بڑے انسانی بت گرتے جاتے ہیں ۔ تب نئی نسل نابغہ روز گار ہستیوں سے محروم ہوتی جاتی ہے اور پھر ہر سو صدماتی موسیقی کے تار بجتے ہیں۔
کوئٹہ ایک زمانے میں مستانوں کا شہر کہلاتا تھا، ہر کاروباری شخص کو لفظ مستانہ سوٹ کرتا تھا، مستانہ ہوٹل ، مستانہ بوٹ پالش، مستانہ قلفی، مستانہ رنگ ساز۔ اور انہی میں ایک مستانہ حضور بخش مستانہ ہوا کرتا تھا۔ جس نے دس بارہ سال کی عمر میں گلوکاری شروع کی۔ 1935میں لاڑکانہ میں پیدا ہوا ۔ اس کے بعد پوری حیائی کوئٹہ میں گزاری۔82سال کی عمر میں کوئٹہ میں انتقال ہوا۔ سکول کے زمانے میں اس کی موسیقی سے رغبت دیکھ کر والدہ نے ان کے لیے ہارمونیم کا اہتمام کیا اسے بجانا تو نہیں آتا تھا۔ اسپیشل ہائی سکول میں اس کے استاد ماسٹر خدائے داد باجہ بجاتے تھے ۔ وہ اکثر باجہ بجاتے ہوئے ماسٹر کے قریب بیٹھ کر اس کی انگلیوں کی جنبش دیکھ کر گھر میں اس کی نقل اتارتے ہوئے ریاضت کرتے تھے۔ اس طرح ایک دو قوالیاں تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ ماسٹر خدائے داد وہ استاد تھے جو بزم ادب سجایا کرتے تھے۔ ان کے شاگرد پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہر فن مولا کہلاتے تھے ۔ مستانہ کہتے ہیں کہ انہیں کبھی پڑھائی میں سُستی دکھانے پر ماسٹر خدائے داد باجہ کی لے کے ساتھ سزا کے طور پر اٹھک بیٹھک کرواتے تھے۔ جس سے جسم تھرکتا تھا۔ اور ہمیں اس سزا سے ندامت ہوتی اور نہ ہی کبھی ماسٹر پر غصہ آیا۔ بقول مستانہ کے موسیقی کی زبان میں سزا کا احساس صحیح معنوں میں جسم وروح میں پیدا ہوجاتا ہے ۔ جس سے بگڑا ہوا انسان سازوں کی طرح ٹیون ہوجاتا ہے۔ اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں جس طرح طبلہ کو ہتھوڑے سے ساز کرتے وقت اس سے موسیقی نکلتی ہے ۔ انسانوں کے لیے بھی ایسی ہی سزا ہونی چاہیے۔ کیونکہ بگڑا ہوا انسان بھی ٹیون ہونا مانگتا ہے۔ حضور بخش مستانہ بلوچی، براہوئی ،فارسی، سندھی ،اُردو اور سرائیکی میں گاتے تھے شادی بیاہ کی تقریبات اور پیروں کے مزارات پر قوالی کے فن کو بلوچستان میں فروغ دینے میں حضور بخش مستانہ کا بھی بڑا حصہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تخلص مستانہ بھی انہیں شیر جان آغا کے گدی نشین آغا نادر باران کا دیا ہوا ہے ۔ ایک عرصے تک زمانہ طالبعلمی سے وہ 21مارچ نوروز کے شروع ہوتے ہی شیر جان آغا کے میلہ میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ جن کا مزار کوئٹہ اور نوشکی کے درمیان گلنگور کے مقام پر واقع ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں انہیں یہ سن کر افسوس ہوتا تھا کہ اب اس مزار پرافغان مہاجرین زیادہ تعداد میں میلے کے دنوں میں آتے ہیں۔ جو میلے کے دنوں میں بڑے پیمانے پر منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔ حال ہی میں مقامی لوگوں سے ان کا ایک جھگڑا ہوا جس میں دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
حضور بخش مستانہ 65برسوں تک اس فن سے وابستہ رہے ۔انہوں نے اسے روزگار کا وسیلہ نہیں بنایا۔ وہ الگ سے جوتوں کا کاروبار کرتے تھے اور عرصے تک پان کا کھوکھا بھی چلاتے ہے۔ ایک درجن سے زائد ان کے شاگرد اس شعبہ میں مصروف ہوئے ۔ البتہ انہیں ایک صدمہ ہوا جب ان فنکاروں پرٹی وی، ریڈیو کے دروازے اچانک بند کر دیے گئے اور اسے ان اداروں میں مالی مشکلات سے تعبیر کیا گیا۔ مستانہ نے انتقال سے چار روز قبل براہوئی ادبی سوسائٹی کی 40ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہ محفل موسیقی میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک تو ان پروگراموں کی بندش سے فن موسیقی کو پہنچنے والے نقصان پر صدمہ ہوا ہے ۔ دوئم وہ فنکار جن کو موسیقی یاگلو کاری کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے پر بھی ہوا ہے۔ بلوچستان میں فن کی قدر دانی نہ تو سرکاری سطح پر ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر جس سے اس شعبہ کو اس وقت نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ہمارے زمانے میں لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر پھر بھی انہیں صحت مندمشاغل کی پہچان تھی اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ موسیقی سے زیادہ صحت مند مشغلہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے احساسات کوتقویت ملتی ہے ۔ ایک مشقتی جسم کو بھی راحت حاصل کرنے کے لیے موسیقی کی ضرورت پڑتی ہے۔
حضور بخش مستانہ نہ صرف گلوکار تھے وہ شاعر، اداکاراور میوزیشن بھی تھے انہوں نے ملک اورملک کے باہر مختلف اوقات میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب نام کمایا لیکن انہیں 65سال اس شعبہ سے وابستگی کے باوجود کوئی ایورڈ نہیں دیا گیا۔ جس کا وہ شکر بجالاتے تھے کیونکہ ایوارڈوں کے بعد نا پرسی پر زیادہ صدمہ ہوتا ہے ۔جس طرح بلوچی براہوئی گلوکار بشیر بلوچ اس صدمہ سے دوچار ہے ۔ میں نے کوئٹہ کے حوالے سے سوال کیا۔ جس پر انہوں نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ اس وقت کوئٹہ میں محض موسیقی کے صدماتی تار چھیڑنے کو دل کرتا ہے ۔ جس کوئٹہ کی محبت اور امن کا چرچا ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ جہاں صرف موسیقی اور ادب کی زبان میں بات ہوتی تھی۔ بے ضرر احتجاج بھی ہوتے تھے ۔لیکن اب ہر طرف سے بارود اور گولیوں سے بات واحتجاج ہورہی ہے ۔ جو کہ برداشت سے باہر ہے ۔ جوشخص اچھا زمانہ دیکھتے دیکھتے فوراً ابتلا کا زمانہ دیکھے اس کا درد دوسروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ ان کی آخری دعا تھی اللہ تعالی میرے کوئٹہل اور بلوچستان کو سبزے میں جھومتے ہوئے چڑیوں کی طرح آزادی نصیب کرے ۔ مستانہ کی آخری بات اچھی لگی کہ فنکاروں کے لیے استعمال ہونے والا لفظ لوڑی کو ہم نے لالہ میں بدل دیا ہے اب میں سب کالالہ مستانہ ہوں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے