نیند انسانی زندگی کا ایک تہائی حصہ لیتی ہے مگر سائنس دان ابھی تک واضح طور پر ہمیں نہیں بتا سکے کہ نیند ہے کیا؟۔ ایک پرانی انسا ئیکلو پیڈیا میں لکھا ہے ’’جہاں تک اس حالت کے فوری سبب کا تعلق ہے صرف مفروضے موجود ہیں‘‘۔ میں اس ضخیم کتاب کو بند کرنے والا تھا اس لیے کہ میں نے اس میں نیند کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں دیکھی۔ مگر اسی وقت میں نے ساتھ والے کالم میں نیند کے بارے میں دو تین اچھی سطریں دیکھیں۔
’’آرٹ میں نیند کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے کہ یہ ایک انسانی صورت ہواور اس کے شانوں پر تتلی کے پرہوں اور اس کے ہاتھوں میں ایک افیون کا پودا ہو‘‘۔
اس مضحکہ خیز مگر خوبصورت بیان نے میری یاداشت جگادی۔ میں نیند کے ایک ایسے قصے کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو تاریخ میں درج ہونے کے لائق ہے۔
30جولائی1919کو سرخ فوج کے یونٹ بد نظمی میں زار سن نامی علاقے کو چھوڑ گئے اور شمال کی طرف پسپا ہونا شروع کردیا۔ یہ پسپائی پنتا لیس دن تک جاری رہی۔ جو واحد موثر فوج رہ گئی وہ پانچ ہزار پانچ سو افراد پر مشتمل کیولری کور تھا جس کی کمان سیمیون میخائلووچ کر رہا تھا۔ دشمن کے پاس موجود افواج کے مقابلے میں یہ فوج معمولی لگتی تھی لیکن میخائلووچ کو پسپاہوتی ہوئی اپنی فوجوں کی حفاظت کرنے کا حکم ملا تھا اور اس کے کور کودشمن کے سارے حملوں کازور سہنا تھا۔
یہ واقعی ایک لمبی جنگ تھی جو کئی دنوں تک جاری رہی۔لڑائی کے درمیان چھوٹے وقفے آتے تھے جن میں اتنا وقت بھی ہوتا تھا کہ اچھی طرح سیکھایا سویا جائے یانہایا جائے یا گھوڑوں کی زین تازہ کی جائے۔
اس بار گرمیوں کا موسم غیرمعمولی طور پر گرم تھا ۔ لڑائی دریائے والگا اور دریائے ڈان کے درمیان زمین کی ایک تنگ سی پٹی پر لڑی گئی مگر اس کے باوجود سپاہیوں کے پاس چوبیس چوبیس گھنٹوں تک پانی نہیں ہوتا تھا۔صورت حال ایسی تھی کہ ان کے پاس آدھا گھنٹہ بھی نہ ہوتا کہ وہ گھوڑے پر بیٹھ کر پانی لاتے ۔ پانی روٹی سے زیادہ اہم تھا۔ اور وقت پانی سے زیادہ اہم تھا۔
پہلے تین دنوں اور راتوں میں انہیں بیس حملے ناکام کرنا پڑے۔
بیس
سپاہیوں کی آوازیں رندھ گئی تھیں۔ وہ اپنی تلواروں کو لہر لہرا کر اشارے تو کرتے تھے مگر اپنے خشک گلے سے آواز نہیں نکال سکتے تھے۔
یہ ایک خوفناک منظر تھا۔ سنسناتی تلواریں، میلے پسینے سے اٹے ہوئے مسخ چہرے اور ایک بھی انسانی آواز نہیں۔۔۔۔۔
جلد ہی حملہ آور نیند کا سیلاب بھی پیاس ،بھوک اور خوفناک گرمی کے سیلابوں میں شامل ہوگیا۔
ایک قاصد گھڑ سوار جو ایک پیغام لیے گردوغبار میں سرپٹ دوڑ اتا ہوا آیا تھا ،اپنی زین سے گر گیا اور اپنے گھوڑے کے پیروں میں ہی سوگیا۔
جب ایک حملہ ختم ہوتا تو سپاہی محض اپنی زینوں پہ اچھی طرح بیٹھ پاتے۔ نیند ناقابل مزاحمت تھی۔
شام آئی اور ان کی آنکھیں اس سے بھاری تھیں۔ ان کی پتلیاں مقناطیسوں کی طرح بند ہوئی تھیں اور کھلتی نہ تھیں۔ ان کے دلوں میں خون پارے کی طرح بھاری اور غیر محرک ہوگیا تھا۔ نبض مدہم ہوجاتی ، بازوسن ہوجاتے اور پھر اچانک بھاری انداز میں گرجاتے، انگلیوں کی جکڑ ختم ہوجاتی، سر ڈھلک جاتے اور ٹوپیاں آگے پیشانی کی طرف پھسل جاتیں۔
گرمیوں کی راتوں کی نیلی دھند ساڑھے پانچ ہزار کیولری کی اپنی زینوں میں پینڈولم کی طرح جھومتی سپاہ کو آہستہ آہستہ آن گھیر جاتی۔
رجمنٹوں کے کمانڈر میخائلووچ کے پاس کوئی نیا آرڈر لینے کی توقع میں گھوڑے دوڑاتے آتے ۔
’’ہر شخص سو جائے‘‘ میخائلووچ نے’’ہر شخص‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا’’میں ہر ایک کیلئے آرام کا آرڈردیتا ہوں‘‘۔
مگر کمانڈر جنرل ۔۔۔کیسے۔۔۔ پکٹون اور سنتریوں کے متعلق کیا حکم ہے ؟۔۔۔‘‘
’’ہر شخص ،ہر شخص۔۔۔۔‘‘
’’پھر کون۔۔۔۔‘‘
’’میں کروں گا ‘‘میخالووچ نے اپنی بائیں آستین چڑھاتے ہوئے اور اپنی گھڑی کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔
اس نے گھڑی کے چہرے کو دیکھا۔ دھند لکی روشنی میں ہند سوں اور بازؤں کا فاسفورس چمک رہا تھا۔
’’ہر شخص، بلا استثنا ہر شخص سو جائے پوری کی پوری کورسو جائے‘‘ ۔اس نے مسرت سے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہا’’ تم لوگوں کے پاس فکس دو سو چالیس منٹ کی نیند ہے۔‘‘
اس نے چار گھنٹے نہ کہے۔ چار گھنٹے بہت کم ہوتے ہیں ۔ اس نے دو سو چالیس منٹ کہے۔ اس نے صورتحال کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ وقت دیا۔
’’کسی اور چیز کے بارے میں بالکل فکرنہ کرو‘‘۔ اس نے کہا’’میں پہر ہ دوں گا ، میں شخصی طورپر، اپنی ذمہ داری پر ، دو سو چالیس منٹ، بس اس سے زیادہ ایک سیکنڈ بھی نہیں ، جاگنے کا سگنل میرے پستول کا فائر ہوگا۔‘‘
اس نے اپنے ماؤزر پستول کے ہولسٹر پر تھپکی دی اور اپنی گھوڑی’’کازبک ‘‘کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔
پورے کور کی نیند پر ایک شخص پہر ہ دے رہا تھا اور وہ واحد شخص کورکمانڈر تھا۔یہ فوجی قواعد و ضوابط کی خوفناک خلاف ورزی تھی، مگر کوئی اور صورت بھی نہ تھی۔ ایک سب کیلئے اور سب ایک کیلئے ۔۔۔یہی تو تھا انقلاب کا ناقابلِ شکست قانون۔
پانچ ہزار پانچ سو اشخاص نرم گھاس پر ایک آدمی کی طرح گر پڑے۔ کچھ نے ہمت کر کے اپنی گھوڑیوں کی زینیں اتارلیں۔ زینوں کوسرہانا بنا کر سوگئے، باقی زین شدہ گھوڑوں کے پیروں میں بے سدھ سوگئے۔ ایسی نیند میں گرپڑے جو اچانک مر جانے کی طرح تھی۔
سوئے ہوئے آدمیوں سے اٹا ہوا میدان ایک جنگ کا نظارہ پیش کرتا تھا جس میں ہر شخص مارا جاچکا ہو۔ میخائلووچ اس عارضی پڑاؤ کے گرد آہستگی سے گھوڑا دوڑاتارہا۔ اس کے پیچھے اس کا سترہ سالہ بیٹ مین، گریشا کو والیف تھا۔وہ سانولابچہ اپنی زین پہ بمشک براجمان تھا۔ اس کا سر جھٹکے کھا رہا تھا اور وہ اسے سیدھارکھنے کی کوششیں کررہا تھا۔ مگر وہ سیسے کی طرح بھاری تھا۔وہ میدان کے گرددائر ہ در دائرہ چلتے رہے۔ کورکمانڈر اور اس کا بیٹ مین،پانچ ہزار پانچ سو سوئے ہوئے آدمیوں کے بیچ دو آدمی جاگ رہے تھے۔
اُس وقت میخائلووچ بہت جوان لگ رہا تھا۔ اس کا کسانوں والا چہرہ ، سورج سے نارنگی رنگ کا ہوگیا تھا جسکے گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، گھنی کالی مونچھیں تھیں اور کالی بھنویں تھیں۔
پڑاؤ کے گرد چکر لگاتے ہوئے وہ ابھرتے چاند کی روشنی میں کبھی کبھار کسی سپاہی کو پہچان جاتا اور جب وہ کسی کو پہچان لیتا تو وہ سوئے ہوئے بیٹے کے پنگھوڑے پر جھکے ہوئے ایک باپ کی محبت بھری مسکان مسکرادیتا۔
انہی میں اس نے گریشا والڈمین کو پہچانا۔ وہ سرخی مائل زردرنگ کی بڑی بڑی مونچھوں والا ایک دیوہیکل شخص تھا ۔ جو ایسا لیٹا تھا جیسے قتل ہوچکا ہو۔ اس کی پشت گھاس پر تھی۔ اس کا سرزمین پہ تھا، اس کا ماؤزرپستول ایک مکے میں یوں جکڑا تھا جیسے گوشت کی ایک ران ہو، جس کی انگلیاں اس کی نیند کی حالات میں بھی کھولی نہ جاسکتی تھیں۔ اس کی چھاتی کشادہ تھی اور اب وہ ستاروں کی طرف جھکی ہوئی تھی۔ وہ ایسے خوفناک خراٹے لے رہاتھا۔ جس سے آس پاس کی ساری گھاس ہل رہی تھی۔ خراٹوں کی مطابقت میں اس کی چھاتی اوپر اٹھتی پھر نیچے آتی۔ اس کا دوسرالحیم شحیم بازو گرم زمین پرپڑا تھا۔
اور یہ ایوان بلنکی ہے جو ڈان کا قزاخ ہے۔ اس کی پیشانی کے بال اس کی آنکھوں پر ہیں۔ ایسے سویا ہے جیسے مردہ ہو۔ ایک قزاخ تیز تلوار کے بجائے اس نے ایک بڑی پرانی تلوار پہن رکھی ہے جو کہ اس نے ایک جاگیردار کے گھر سے لی تھی جو قدیم ہتھیاروں کا شوقین تھا۔ وہ تلوار اشرافیہ کے ایک شخص کے کمرہ مطالعہ کی دیوار پر ایک پارسی قالین پر سالوں تک لٹکتی رہی تھی۔ اب یہ ایوان بلنکی کے قبضے میں تھی جو کہ ڈان کا ایک قراخ تھا۔ اُس نے اسے اچھی طرح تیز کردیا اور اسے سفید گارڈوں کے خلاف لڑائیوں میں استعمال کر رہا تھا۔ پورے کور میں ایوان بلنکی کے علاوہ کسی اور کے پاس اتنے لمبے اور مضبوط بازونہ تھے۔ ایک بار اس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ ایوان اپنی گھوڑی کیلئے چارہ لینے ایک امیر زمیندار کے پاس چلا گیا ۔ اس نے اس سے کچھ خشک گھاس خریدنے کی خواہش کی۔
’’ہمارے پاس کچھ نہیں بچا۔ محض ایک چھوٹا سا گٹھا بچاہے‘‘ ۔ وہاں پر موجود عورت نے اسے بتایا۔
’’مجھے زیادہ نہیں چاہیے‘‘ ۔ایوان نے افسرد گی سے کہا ’’اتنا چاہیے جتنا میری گھوڑی کیلئے کافی ہو۔ محض ایک بازو بھر‘‘۔
’’اچھا آپ۔ ایک بازو بھر لے سکتے ہیں۔ جائیے لے لیجئے ‘‘ ۔ عورت نے کہا
’’شکریہ محترمہ‘‘
اور ایوان بلنکی ، ڈان کا ایک قزاخ گٹھے تک گیا اور اس سب کو اپنے لمبے بازؤں میں اٹھالیا۔
عورت کی سانس رک گئی، اس نے آج تک اتنے لمبے بازو نہیں دیکھے تھے۔ وہ کچھ نہ کرسکتی تھی، ایوان یہ گٹھا اٹھائے کیمپ کی طرف چل دیا۔ البتہ وہ کیمپ میں نیم مردہ حالت میں پہنچا۔اس کے پاس کوئی گھاس نہ تھی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دانت بج رہے تھے اور وہ اس بری طرح ہانپ رہا تھا کہ بولنا تک مشکل ہوگیا تھا۔
’’خیر ہے ایوان!‘‘
’’ اوہ ۔ نہ وہ چھو۔۔ میں ڈرگیا۔۔۔ اسے خدا جنہم لے جائے۔۔۔‘‘
سپاہی حیران ہوگئے۔۔۔ ایسا کیا واقعہ ہوگا کہ اُن میں سب سے زیادہ بے خوف شخص ایوان بلنکی جس سے ڈرگیا؟‘‘۔
وہ ساکت کھڑا تھا اور اس کا سارا طنز ومزاح غائب تھا۔
’’غارت ہو جائے بد بخت ۔۔ دشمن کی فوجوں سے ایک لعنتی بھگوڑے نے مجھے ڈرادیا ۔بے بخت جنہمی ۔‘‘
’’تم کیا کہہ رہے ہو ؟ ہوا کیا؟‘‘۔
’’میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ ایک بھگوڑا۔ ۔۔ میں نے وہ مصیبت گھاس، خدا کرے ساری جل جائے، اٹھائی اور لانے لگا۔۔۔ اور پھر اس کے درمیان میں کسی چیز نے کیڑے کی طرح بل کھانا شروع کیا۔ ۔۔ خدا کرے اس کی روح جہنم واصل ہو، لعنتی بھگوڑا۔‘‘
معلوم ہوا کہ کوئی بھگوڑا گھاس کے گٹھے میں چھپا ہوا تھا اور ایوان اُسے گھاس کے ساتھ اٹھا لایا۔ راستے میں بھگوڑا ایک چو ہے کی طرح گھاس میں بل کھانے لگا۔ پھر وہ باہر اچھلا اور بے خوف جنگباز بلنکی کو موت کی حد تک خوفزدہ کردیا۔
وہ سب بہت ہنسے۔اور میخائلووچ دوبارہ مسکرایا۔ ایک مشفق پدرانہ مسکراہٹ ۔ جب وہ بڑی احتیاط سے اپنے سپاہی ایوان بلنکی کے سر پر سے گزرا۔ اس کی تیز تلوار کے قریب سے گزرا جو پوری چاندنی میں آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ رات گزر رہی تھی رات کی تاروں بھری گھڑیال چلتی جارہی تھی۔ جلد ہی ان کو جگانے کا وقت ہوگا۔
اچانک ’’کازبک ‘‘ رک گئی اور اس کے کان کھڑے ہوگئے۔ میخائلووچ نے تو جہ سے سننے کی کوشش کی۔ پھر اس نے اپنی خاکی کیپ سیدھی کی جو پہلو میں سرک گئی تھی۔
دور سے کئی گھڑ سوارآتے دکھائی دیے۔ ایک کے پیچھے ایک ۔ میخائلووچ بالکل خاموش کھڑا رہا۔ گھڑ سوار نیچے کی طرف آرہے تھے۔ سربراہی کرنے والا اپنی گھوڑی پر براجمان تھا۔ وہ ایک سپاہی کی طرف نیچے جھکا جو کہ اس وقت خاموشی سے نہ سویا تھا اور جو کہ ایک مدہم جلتی آگ کے سامنے اپناپا جامہ ٹھیک کر رہا تھا۔ گھڑ سوار نے اپنی انگلیوں میں سگریٹ تھام رکھا تھا اور وہ آگ مانگ رہا تھا۔ ’’سنو‘‘ ۔گھڑ سوار نے کہا‘‘ تم کس گاؤں سے ہو؟ مجھے آگ چاہیے‘‘
’’اور آپ ہیں کون؟‘‘
’’تمہیں نظر نہیں آتا؟‘‘
گھڑ سوار نے اپنا کندھا نیچے جھکایا تا کہ سپاہی دیکھ سکے۔ اس کے کندھے پہ چاندکی روشنی میں ایک کرنل کے سٹار چمک اٹھے۔ دراصل یہ افسروں کا ایک گشتی دستہ تھا جو غلطی سے ریڈ آرمی کے پڑاؤ میں آیا اور غلطی سے ہی سمجھ بیٹھا کہا یہ ان کی اپنی فوج ہے۔ سفید گارڈ یقیناًبہت قریب تھے۔ ضائع کرنے کیلئے وقت نہ تھا۔ میخائلوف وچ بہت احتیاط سے سائے میں سے باہر نکلااور اپنا ماوزر بلند کیا۔ فائر کی آواز خاموشی کو چیرتی گزری۔ کرنل گر پڑا۔ میخائلووچ کے سپاہی چھٹ پٹ پاؤں کھڑے ہوئے۔ آفیسروں کے دستے کو قیدی بنایا گیا۔
’’سوار ہو جاؤ‘‘ ۔میخائلووچ چیخا۔
ایک ہی منٹ میں پانچ ہزار پانچ سو آدمی اپنے گھوڑوں پر تھے اور دوسرے منٹ میں شبنم بھرے میدان میں۔ سورج کی پہلی کرنوں میں انہوں نے سفید گاڑوں کے قریب آتی کیولری کے گرد بادل دیکھے۔ میخائلووچ نے اپنی کور کواباؤٹ ٹرن کا حکم دیا ۔ جنگ شروع ہوئی۔
میخائلووچ نے یہ کہانی خود مجھے سنائی۔
’’ساڑھے پانچ ہزار آدمی ایک شخص کی طرح سوئے تھے‘‘۔ اس نے دلگیر مسکراہٹ میں کہا۔’’ اور تم ان کے خراٹے سنتے ۔ خراٹوں سے گھاس ہلتی جاتی‘‘۔وہ دیوار پر ٹنگے نقشے پہ آنکھیں جھپک رہا تھا اور پھر خصوصی مسرت سے دھرانے لگا، ’’خراٹوں سے گھاس ہلتی جاتی تھی‘‘
میں اس وقت فوجی انقلابی کونسل میں اس کے دفتر میں اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ باہر ماسکو کی روز مرہ والی برف شہر پہ برس رہی تھی۔
مگر میں اس حیران کن منظر کی تصویر کشی کرسکتا تھا۔ سٹیپی ، رات، ایک سویاہوا پڑاؤ ، میخائلووچ اپنی’’کازبک پہ‘‘ اور اس کے پیچھے ایک ناقابل مزاحمت نیند میں ایک سانولا لڑ کا اپنی گھوڑی پر دلکی چال چلتا ہوا۔
اپنے کان کے پیچھے افیون کا مرجھایا ہوا گلدستہ لیے اور اس کے گرم گرد آلود کندھے پرسوئی ہوئی ایک تتلی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے