کانٹوں میں رہے ، پھر بھی محبت نہیں بھولی
دیوار کو در کرنے کی عادت نہیں بھولی
کیا کھاتے زمیں زاد ہوئے اور نہیں بھی
محکوم رہے ، پھر بھی بغاوت نہیں بھولی
سب بھول گئے پیاس بجھانے کے قرینے
تھا اوک میں پانی ، یہ روایت نہیں بھولی
گم ہوکے کسی شہر کی ویران گلی میں
دیواروں سے باتوں کی ارادت نہیں بھولی
بے موج ہے دریائے جنوں ، ضبط ہے حاصل
پیرو ں کے جھلسنے کی طریقت نہیں بھولی
رِستاہے کبھی آنکھ سے خوں اور کبھی آنسو
برگشتہ رہے پھر بھی شقاوت نہیں بھولی
کیا رات تو کیادن کہ مسلسل ہے وظیفہ
بے خواب رہے ،وصل کی حدت نہیں بھولی
ہم بھول گئے زخم تو کیا داغ بھی سارے
روتے ہوئے ہنس دینے کی عادت نہیں بھولی
اے نوحہِ غم تونے مجھے چھیڑ دیا ہے
سن لے اے شہر زاد ، حکایت نہیں بھولی
ناگفتہ زمانوں میں بھی خاموش نہیں تھے
سایوں میں گھرے ، اپنی ہی قامت نہیں بھولی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے