مرزا حسام الدین صاحب کے گھرانے کے طور طریقوں سے دوست احباب ، رشتہ دار سبھی مرعوب تھے ۔ کیا رکھ رکھاؤ، کیا تہذیب ، کیا اصول پرستی تھی ان کی زندگی میں۔ کیا قاعدہ قرینہ تھا ان کے رہن سہن میں۔ خوش قسمت آدمی تھے ۔ اچھی بیوی ، فرمانبردار بچے ، مناسب آمدن، خوبصورت گھر اور کیا چاہیے ہوتا ہے انسان کو۔۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ اچھی اقدار، سوچ سمجھ اور نیک آدرشوں کا درس دیا تھا۔ وہ کہتے ’’سچائی ، محنت اور محبت سے زندگی جیو تو ہر منزل آسان ہو جاتی ہے ۔ راستے خود بخود سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں ، مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ دیانت ہی دھرم ، ایمان اور مقصد حیات ہوتی ہے۔ سچائی پہ رہو اور خدا کے سو ا کسی سے نہ ڈرو۔ یہی حقیقی مذہب ہوتا ہے۔
ان کی اولاد نیک تھی، باپ کے کہنے کا پاس رکھتی تھی۔ اسی لیے کافی حد تک صراط مستقیم پہ رواں زندگیاں گزار رہی تھی ۔مگر پھر نہ جانے کیا ہوا۔ مرزا صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی جوان ہوگئی۔ گلشن نے ان کی زندگیاں اتھل پتھل کر کے رکھ دیں۔ خوش نما، نرم و نازک ، خوش رنگ پھولوں کے گلدستے میں ایک نوکیلے کانچ کا پھول نکل آیاجس کی بناوٹ رنگ اور وجود سب سے علیحدہ تھا۔ اسے انگلی سے چھوؤ تو چبھتا تھا۔بے احتیاطی سے پکڑو تو ٹوٹتا تھا۔ یہ کیسی لڑکی پیدا ہوگئی تھی ان کے خاندان میں؟ سب گھر والے حیرت میں گم تھے، اتنی مختلف ، اتنی متضاد طبیعت کہ ان سے سنبھالے نہیں سنبھالی جارہی تھی۔ اس کے بارے میں آسانی سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ کیا تھی ! شوقین ، جراَت مند ،شوخ ، بے پروا ،خودغرض یا کچھ اور ! اسے کسی قسم کی کوئی جھجک یاڈر خوف نہیں تھا۔ جو جی چاہتا کر گزرتی اور اس پر قطعاً شرمندہ نہ ہوتی۔ اس کی ایسی ہی عادات کی وجہ سے پیٹھ پیچھے کئی رشتہ دار تو اسے لفنگی تک کہہ دیتے مگر مرزا صاحب کی شرافت او رخلوص قلب کو دیکھ کر ان کے سامنے خاموش رہتے اور ان کی بد نصیبی پر کف افسوس ملنے لگ جاتے۔
مرزا صاحب اسے پاس بٹھا کر پیار سے زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے ، نصیحتیں کرتے۔ بتاتے کہ تم ایک کنول ہو، کیچڑ سے خود کو بچائے رکھنا تمہارا فرض ہے ۔مگر وہ سنی ان سنی کردیتی کہ زندگی گزارنے کا اس نے ایک اپنا ہی بلیو پرنٹ تیار کر رکھا تھا جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہ کرنا چاہتی تھی۔
کالج پہنچتے پہنچتے وہ خاصی آزاد خیال ہوچکی تھی۔ دوستوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ وقت گزارنا، باہر کھانے کھانا، گھر والوں کو غچہ دے کر غائب ہوجانا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ اکثر سہیلیوں کا کہہ کر بوائے فرنڈوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتی دیکھی جاتی او رپوچھنے پر چھپانے کے بجائے صاف کہہ دیتی کہ ’’ ہاں وہ میرے دوست ہیں، مجھے ان کے ساتھ باہر پھرنا اچھا لگتا ہے ‘‘ ۔ماں باپ حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ جاتے، امی سیدھی سادھی گھریلو عورت تھیں۔ بے بس ہو کر خاموش ہوجاتیں مگر مرزا صاحب اسے پھر سمجھانے بیٹھ جاتے۔ کہتے ’’بیٹا یہ ہماری روایات میں شامل نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا کہ لڑکیاں مردوں سے آزادانہ میل جول رکھیں‘‘۔ گلشن بھی انہیں پیار سے ہی سمجھا کرکہتی ’’ابوزمانہ بہت آگے جارہا ہے ۔ اپنی قدامت پسند سوچوں کو کچھ تبدیل کریں۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں۔ میری اپنی سوچ اور اپنے اصول ہیں ۔ میں آپ کے گزرے ہوئے کل میں نہیں ، اپنے آج میں جینا چاہتی ہوں ۔ پلیز سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مجھے مت روکیں‘‘۔ ایسی باتیں سن کر اس کے دو بھائی اور شادی شدہ بڑی بہن بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ جاتے ۔ وہ آرام سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آجاتی اور اپنے شام کے پروگرام بنانے لگ جاتی۔ مرزا صاحب کوئی مارپیٹ کرنے والے ، زبردستی کرنے والے باپ تو تھے نہیں لہذا بھیگی بلی بن کر دبک جاتے اور سوچتے ’’یا اللہ میں نے تو کوئی خاص گناہ بھی نہیں کیے تو یہ کیسی سزا دے رہا ہے مجھ کو؟‘‘
ایک بار کسی ہمسائے نے گلشن کے رات کے وقت چپکے سے کھسک جانے پر مرزا صاحب سے شکایت کردی۔ ’’عقل کرو بیٹی۔ آخر لڑکیوں کی کوئی عزت ہوتی ہے‘‘۔ امی نے رعب جمانے کی کوشش کی۔
’’عزت ،ہوں۔۔دراصل ابھی میرے پاس عزت وزت کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف ورجینیا میں میرا سمسٹر شروع ہونے والا ہے اور مجھے اس کے حساب سے ایک ماہ کے اندر اندر وہاں پہنچنا ہے ۔ بہت کام کرنے ہیں وہاں پہنچ کر۔ گھر ڈھونڈنا ، جاب اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ؟ ‘‘۔گلشن بولتی چلی گئی۔
’’کیا مطلب ؟‘‘ منجھلے بھائی سے رہا نہیں گیا۔
’’میں نے وہاں داخلہ لے لیا ہے بھائی ، ویزا بھی آگیا ہے ۔ بس اب تور وانگی کے انتظامات کرنے ہیں‘‘۔
گلشن نے آرام سے جواب دیا۔ بڑے بھیا خاموش رہے۔ انہیں پتہ تھا گلشن کو پڑھائی وڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو ہمیشہ مارجن پہ ہی پاس ہوتی تھی ۔ یہ سب ہرنی کے بن میں آزاد پھرنے کے بہانے تھے ۔ پرندے کے نئی ہواؤں ، نئی فضاؤں میں طاقت پرواز آزمانے کے فسانے تھے اور بس ۔ کتنی خود سر ہوگئی تھی یہ لڑکی ۔ بھیا خوفزدہ ہوگئے۔
’’وہاں جاکر کوئی نیا چاند چڑھائے گی یہ‘‘۔ چھوٹے بھیا بول پڑے حالانکہ وہ اس کی لغزشوں پر اکثر خاموش رہتے تھے۔ صبر کے گھونٹ پیتے پیتے انہیں بلڈ پریشر کی شکایت رہنے لگی تھی۔
’’ہم تمہیں اکیلی کیسے امریکہ جانے کی اجازت دے سکتے ہیں ‘‘۔ ابو اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے ۔ کھانا میز پر پڑا کا پڑا رہ گیا۔
’’اجازت دیں نہ دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیکھیں ابو، امی ، بھائی، آپی، آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ کیا میں کچھ زیادہ مانگ رہی ہوں ؟ یہ میری زندگی ہے اور اس پر صرف اور صرف میرا حق ہی ہونا چاہیے۔ آئی ایم گوئنگ ٹو یو ایس اے۔
۔‘‘ گلشن سب کو ہکا بکا چھوڑ اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔And that it
’’افسوس یہ لڑکی تو ہاتھ سے نکل گئی ہے‘‘۔امی کی آنکھیں ڈبڈبا نے لگیں۔
’’یہ سب تمہارے ہی لاڈ پیار کا نتیجہ ہے ‘‘۔ مرزا صاحب گرجے۔’’ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، لڑکی کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ‘‘۔
’’یہ سب آپ دونوں کی ہی لاپرواہیوں اور چشم پوشیوں کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ شروع سے ہی کھینچ کر رکھتے تو آج یہ نوبت نہ آتی‘‘۔ منجھلے بھیا غم وغصے سے پھنکارے۔
’’خوش قسمت ہے امریکہ چلی جائے گی۔ اچھا ہے زندگی آزادی اور اپنی مرضی سے گزارے گی‘‘۔ آپی کے دل میں خواہش اور رشک کا جوار بھاٹا اٹھا اور انہیں شرابور کر کے رہ گیا۔ مگر آپی خاموش رہی ۔ جوار بھاٹے کا شور صرف وہی سن سکتی تھی۔
’’ آپ لوگوں نے اتنے سال مجھے پالا پوسا ، برداشت کیا ۔ اس کا بہت بہت شکریہ‘‘۔ گلشن نے ایئرپورٹ پہ اپنے گھروالوں سے الوداعی کلمات کہے اور ہنستے ہنستے جہاز پر سوار ہونے کے لیے چل دی۔ کتنی عجیب تھی یہ لڑکی ۔ اسے کیا کہتے، اور کیا کرتے اس کا ۔ وہ اسے ایک بھرے ہوئے دل کے ساتھ رخصت کر کے گھر آگئے، مگر ہر بندہ دل میں کچھ کچھ مطمئن بھی تھا۔ اب وہ ان کے سامنے نہیں تھی آنکھ سے اوجھل تھی۔ اچھا برا جو بھی کرے گی کم از کم انہیں اس کا پتہ تو نہیں چل سکے گا۔ امریکہ آزاد لوگوں کا آزاد ملک ہے ، وہاں کوئی کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا لہٰذا گلشن جیسی لڑکی کا وہاں رہنا ہی ٹھیک تھا۔ اب انہیں کم از کم رشتہ داروں، ہمسایوں، دوستوں کے طعنے اور طنزیں تو برداشت نہیں کرنا پڑیں گی۔
’’یا اللہ اس لڑکی کو نیک ہدایت دے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما‘‘ ۔ امی جان مصلے پہ جھک کر دعائیں مانگنے لگیں اور مرزا صاحب دوبارہ اپنے دوست احباب ، رشتہ داروں کے ساتھ اعتماد سے ملنے ملانے کے خیال سے خوش ہونے لگے۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ان کی بیٹی کی عادات ومشغولیات کی وجہ سے کچھ عرصے سے کمزور پڑ گیا تھا۔
گلشن ورجینیا سٹیٹ کے ایک باوقار کالج میں داخلہ لے کر پڑھائی میں مصروف ہوگئی اور ایک مناسب جاب سے اپنے اخراجات پورے کرنے لگی تو اس کے گھر والے اس سے کچھ بے نیاز سے ہوگئے۔ وہ انہیں فون کر کے بتاتی رہتی کہ وہ وہاں خوش اور سیٹ ہے ۔ رہائش کے لیے اس نے اپنے ساتھ ایک روم میٹ کو رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں کو کرائے میں سہولت ہوگئی ہے اور تنہائی بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
دوسرا سال گزرتے ہی جب گلشن نے انہیں اپنی گریجویشن پر امریکہ آنے کی دعوت دی تو دونوں ماں باپ خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔ ان کی سر پھری بیٹی کو آخر ماں باپ کی یاد آہی گئی تھی جو وہ انہیں بلا رہی تھی۔ ویزا لگتے ہی مرزا صاحب اور ان کی بیگم نے امریکہ کی ٹکٹ کٹالی اور بیٹی سے ملنے اس کے نئے ملک کو روانہ ہوگئے۔
امریکہ پہنچ کر پہلا دن تو تھکاوٹ اترنے میں ہی گزرگیا مگر ذرا ہوش آئی تو ابوجان نے گھر اور بیٹی کے طرز حیات کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ گھر بہت سلیقے اور قرینے سے رکھا نظر آرہا تھا ۔ گلشن زیادہ خود اعتماد ، خوش اور مطمئن لگ رہی تھی مگر یہ دیکھ کر انہیں کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی کہ وہ اسی کی توقع کر رہے تھے۔
’’اب گریجویشن تو ہوگئی تمہاری ، بس ہمارے ساتھ ہی واپس چلی چلو‘‘۔ اماں نے پیار سے اس کی سرپر ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’واپس! ‘‘ گلشن چونک کر بولی جیسے کسی خواب سے یکدم جاگ گئی ہو۔
’’میں وہاں جاکر کیا کروں گی اب؟‘‘ اس نے معصومیت سے سوال کیا۔
’’ کرنا کیا ہے ، بس اب تمہاری شادی کرنا ہے اور کیا؟ ‘‘ماں مسکرائی۔
’’تمہاری امی نے تو تمہارے لیے ایک دوجگہ رشتے بھی دیکھ رکھے ہیں‘‘ ۔ ابا جان نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے راز فاش کیا۔‘‘
’’ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں تمہاری امی‘‘۔
’’میرے رشتے اور آپ لوگ دیکھ رہے ہیں! کمال ہے ، یعنی شادی میری اور پسند آپ کی؟ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ گلشن نے سرکو جھٹک کرنا قابل یقین اندا زمیں جواب دیا۔
’’بیٹا تم امریکہ میں ضرور ہومگر مت بھولو کہ تمہارا تعلق اس تہذیب سے ہے جہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم تمہارے لیے کوئی اچھا فیصلہ ہی کریں گے نا‘‘۔ ابا جان جزبز ہوکر بولے۔
’’مجھے نہیں کرنا شادی وادی ۔ بس مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیں آپ‘‘۔
’’ اب تو تمہیں گھر داری کا بھی شوق ہوگیا ہے، میں نے دیکھ لیا ہے‘‘۔ امی مستقل بیٹی کو گرہستن سمجھنے پہ ڈٹی رہیں۔
’’یہ سب کچھ؟ ۔‘‘گلشن کھلکھلا کر ہنسی۔ ’’یہ تو صرف ایک عددمحنتی ، نیک ، سگھڑروم میٹ کی وجہ سے ہے ۔ میرا اس میں کوئی کمال نہیں۔ آپ تو مجھے جانتے ہیں۔ اب میں اتنی بھی نہیں بدلی‘‘ ۔ گلشن ہنستی چلی گئی۔
’’کہاں ہے تمہاری روم میٹ؟ نظر نہیں آرہی؟‘‘ ابا جان تجسس سے پوچھا۔
’’اسے کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر جانا پڑا ہے ‘‘۔ گلشن نے جوب دیا۔ عین کھانے کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ گلشن اٹھی۔ دروازے میں لگے پیپ ہول میں سے دیکھا اور دروازہ کھول دیا۔
’’السلام علیکم آنٹی، انکل ، کیسے ہیں آپ! سفر کیسا گزرا آپ کا ؟ بھئی تم ٹھیک سے ان کی خاطر داری کر رہی ہونا ؟‘‘ آنے والے نوجوان خوبروشخص نے مسکرا کر سوالات کرنے شروع کردیئے۔
’’آپ ؟‘‘ مززا صاحب نے سوالہ نظروں سے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’یعنی تم نے ابھی تک میرا ان سے ذکر ہی نہیں کیا ۔ کمال ہے یار ‘‘۔ وہ مصنوعی غصے سے بولا۔
’’ ابھی وقت ہی کہاں ملا ہے مجھے۔ امی ، ابو یہ احمر ہیں ۔ میرے بہت ہی عزیز دوست جنہوں نے امریکہ میں میرے رہنے کے انتظامات کئے، مجھے گائیڈ کیا اور ہر طرح سے میری مدد کی‘‘۔
’’اچھا ؟ اوہ‘‘۔ کہہ کرا می اور ابو خاموش ہوگئے اور کھانا شروع کردیا۔ احمر بہت دوستانہ مزاج کا خوش طبع شخص تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے انہیں اپنی خوش گپیوں، امریکہ کے قصے کہانیاں سنا سنا کر ہنسانا شروع کردیا۔ سچ بات تو یہ تھی وہ احمر کی کمپنی سے بہت محظوظ ہورہے تھے۔
’’اچھا لڑکا ہے احمر‘‘۔ امی نے رات کو سوتے ہوئے ابا جان سے کہا جس کے جواب میں وہ ایک ہوں کہہ کر چپ ہوگئے۔
صبح اٹھ کر ابا جان نے سوچا کیوں نہ الماری میں اپنے کچھ کپڑے ، چیزیں وغیرہ رکھ دیں۔ پہلے سے ٹھنسی ہوئی الماری میں ایک طرف پڑے بڑے سے پلاسٹک بیگ کو ہٹاتے ہوئے ان کی نظر اس میں احتیاط سے پیک شدہ مردانہ کپڑوں پہ پڑنے سے نہ رہ سکی۔ مرزا صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیگ کو اندر سے ٹٹولنا شروع کردیا اور چند لمحوں میں ایک فریم شدہ تصویر ڈھونڈلی جو کپڑوں میں چھپائی گئی تھی۔ احمر اور گلش کسی خوش جوڑے کی طرح ساتھ ساتھ بیٹھے مسکرارہے تھے۔ مرزا صاحب نے آنکھ کے اشارے سے بیوی کو پاس بلایا اور اپنی نئی دریافت کی طرف توجہ دلائی۔ ’’بس بہت ہوگئی۔ اس لڑکی نے تو حد کردی ہے یہاں آکر ۔۔۔ کتنا صبر آزمائے گی ہمارا؟‘‘
مرزا صاحب نے بیوی کی طرف شکایت بھری نظروں سے دیکھا جس کے جواب میں بیگم نے آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے دعا مانگنے کو ہاتھ پھیلادیئے۔
مرزا صاحب سے رہا نہ گیا اور گلشن کو ناشتے کی میز پر ہی کھری کھری سنانا شروع کردیں۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنتی رہی۔’’ہمارا معاشرہ اور ہمارا مذہب اس طرح کی بے ہودہ بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ لڑکی لڑکا شادی کے بغیر۔۔۔۔ اِس طرح اکھٹے رہیں‘‘۔ وہ گرجے’’ لیکن ابو آپ نے ہی تو مجھے ہمیشہ یہ سبق دیا ہے کہ مذہب سچائی اور دیانت کا دوسرا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں اور احمر اکھٹے رہتے ہیں لیکن آپ کو گوارا نہیں ہوتا کیونکہ آپ ایک منافقت کے مارے ہوئے معاشرے سے آئے ہیں اور سچائی کے بدلے جھوٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔ سوری ابو۔۔۔ یہ معاشرہ ایمانداری کا معاشرہ ہے یہاں کوئی کسی سے جھوٹ نہیں بولتا اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے ۔پھر بھی آئی ایم سوری۔۔ میں نے ہمیشہ آپ کو دکھ پہنچایا ہے‘‘۔
گلشن کی آنکھوں میں آنسو آگئے تو ماں باپ کا پھر سے دل پسیج گیا۔ کیا کرتے وہ اپنی اس الٹی سوچ کی بیٹی کا۔۔
شام کو پھر حسب معمول احمر آگیا اور چہک چہک کر ان سے باتیں کرنے لگا۔ گلشن نے محسوس کیا کہ اس کے ماں باپ کا کچھ موڈ خراب ہے ۔
’’کیا بات ہے انکل آنٹی ، لگتا ہے ابھی آپ کی سفر کی تھکن نہیں اتری۔ طبیعت توٹھیک ہے نا؟ ‘‘۔احمر نے بھی ان کی خاموشی کو محسوس کر لیا تھا۔
’’ہم جانتے ہیں کہ ۔۔۔ گلشن کا روم میٹ کون ہے؟‘‘ مرزا صاحب نے گلا صاف کر کے اپنی بات کہہ دی۔
’’اوہ، آئی سی‘‘۔ احمر نے ٹھنڈی سانس بھر کے نگاہیں نیچی کرلیں۔
’’سوری انکل۔ میں جانتا ہوں آپ کو سچ جان کر تکلیف تو ہوئی ہوگی مگر۔۔۔ دیکھیں انکل ۔۔ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسندکرتے ہیں اور خوش ہیں‘‘۔
’’امریکہ میں تو بہت لوگ living togetherکرتے ہیں‘‘۔ گلشن نے بھی ممنا کر زبان کھولی۔ ’’آپ توجانتے ہی ہوں گے‘‘۔
’’لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ آپ دنوں بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے‘‘۔ مرزا صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’سچ مانیں انکل۔۔۔۔ آنٹی، میں تو کب سے اس کے پیچھے پڑاہوں کہ شادی کرلیتے ہیں۔ ۔۔۔ جب اکٹھے ہی رہناہے تو ۔۔مگر۔۔ اسے سمجھائیں انکل‘‘۔ احمر ملتجیانہ انداز سے بولا۔
’’شادی ؟۔ہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے بلکہ مناسب ترین بات ہے بیٹا‘‘۔ گلشن کی امی کے مردہ وجود میں جیسے یکدم جان پڑگئی۔
’’میرا تو سچ پوچھیں فی الحال ایساکوئی ارادہ نہیں تھا مگر یہ احمر جو ہے نا۔۔بڑا روایتی آدمی ہے اندر سے ۔لگتا ہے مجھے اس کی ضد کے آگے ہاں کرنا ہی پڑے گی‘‘۔ گلشن مسکرائی اور چائے کے مگ میں چینی ڈالنے لگی۔
’’میں اسے سمجھاتا ہوں کہ جب ہم لوگ ہر طرح سے ایک دوسرے سے کمیٹڈ ہیں تو پھر اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نامیں؟ ‘‘احمر بولتا چلاگیا۔
لیکن شادی ایسے کیسے ہوسکتی ہے ؟ نہ تیاری ، نہ کپڑے ، نہ رشتہ دار؟ ‘‘ امی جان دھیمے لہجے میں بولیں۔
’’اوہ تمہیں کپڑوں ، رشتہ داروں کی پڑی ہوئی ہے ۔ میں کہتا ہوں ایسے کیسے یہ شادی ہوسکتی ہے؟ ‘‘ مرزا صاحب فرط جذبات سے کھڑے ہوگئے۔
’’کیا مطلب؟ کیا ہوا؟ ‘‘۔ احمر حیرانگی سے بولا
’’میں نے تو سوچا تھا آپ میری شادی کی خبر سے خوش ہوں گے ، میری فکر سے آزاد ہوکر پرسکون ہوجائیں گے۔۔۔ کیا ہوا ابا جان؟ ‘‘گلشن بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔
’’احمر تم نے ہم سے ہماری بیٹی کا ہاتھ تومانگا ہی نہیں، ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، ہم رسم ورواج ، رکھ رکھاؤ، روایات والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں ہر بات اصول اور طریقے سے ہوتی ہے ‘‘۔ مرزا صاحب کی آواز غصے سے کانپنے لگی۔
’’ہاتھ؟‘‘ احمر نے حیرانگی سے یوں ان کی طرف دیکھا جیسے انہوں نے کسی غیر اور نہ سمجھ میں آنے والی زبان میں ان سے کچھ کہہ دیا ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے