واقعہ تھا تو حادثہ بھی تھا
دل کہیں پر کبھی جھکا بھی تھا

مدتوں بعد یاد آیا ہے
اُس سے نسبت تھی سلسلہ بھی تھا

آس کی رہ گزار پر چُپ چاپ
آرزو کا کوئی دیا بھی تھا

ایک حسرت رہی فنا کے ساتھ
ایک ماہوم سا گلہ بھی تھا

تو نے گھبرا کے ساتھ چھوڑ دیا
میں ترا درد آشنا بھی تھا

وقت کٹتا نہیں بہانوں سے
تو حقیقت کا آئنہ بھی تھا

آسؔ کچھ دیر اُس کو سوچتے ہیں
وہی منزل تھی راستہ بھی تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے