میں!۔
جانے کب سے
دکھ بھری آندھیوں
میں گھرے ہوئے
دھوپ کے کارواں
کے سنگ
چلتی جاتی ہوں۔۔
مجھے
منزلوں کا پتہ ہے
نہ کوئی چاہت۔۔
مجھے تو بس
تشنگیوں سے تار تار
اس کارواں کے ساتھ
چلتے ہی جانا ہے۔۔۔
کہ میرے لئے تو
بس یہی بہت ہے
کہ اپنے ہاتھ میں
عصا تھامے
سب سے آگے چلتے
میرِ کارواں کی
ردا میں شاید
چھاؤں چھپی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے