مَیں رہی جس مِیں بے پناہ، میری جاں
تو ہے وہ دشت_بے خدا، میری جاں

جیسے شِریانوں سے گزرتا رہا
خواب کا ایک قافِلہ، میری جاں

دْور تک ٹْوٹتی نہیں نظریں
کوئی جادْو ہے جا بجا، میری جاں

سبزہِ جان میں دھڑکنے لگا
کوہساروں کا راستہ، میری جاں

میری آنکھوں میں پھول تھے کل شام
تیری آنکھوں میں کون تھا، میری جاں؟

اپنی وحشت اْٹھائے ویرانہ
تجھ میں جیسے اْتر گیا، میری جاں

ہم پہ آجائے۔۔۔۔ اور گزر جائے
درد ہے کوئی واقعہ، میری جاں؟

قہر پیتا ہے، مِہر جَنتا ہے
اِن گدانوں کا سلسلہ، میری جاں

میری مقتْول وادیاں، میرا خوں
میرے شْہدا مِری بقا، میری جاں

آخری گام آ گیا، میری جاں
الوِداع دوست، الوِداع، میری جاں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے